انتہاء پسند اسرائیلی وزیر خزانہ کے اعلان کردہ یہودی آباد کاری کے نئے منصوبے کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی تحریک نے اعلان کیا ہے کہ ان صہیونی بستیوں کی تعمیر ایک خطرناک قدم ہے جو مزید فلسطینی سرزمین کے الحاق، فلسطینی شہریوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے پر مبنی قابض صیہونیوں کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے غاصب صیہونی رژیم کے انتہاء پسند وزیر خزانہ بیزالل اسموٹریچ کی جانب سے پیش کردہ غیر قانونی یہودی بستیوں کی توسیع کے منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ E1 نامی صیہونی آبادکاری کا نیا منصوبہ کہ جس کا اعلان انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل اسموٹریچ نے کیا ہے اور جس میں مقبوضہ بیت المقدس کی معالیہ ادومیم بستی میں 3 ہزار 400 سے زائد نئے مکانات کی تعمیر بھی شامل ہے، ایک خطرناک قدم ہے۔ حماس نے تاکید کی کہ یہ منصوبہ، رام اللہ و بیت المقدس شہروں کے درمیان جغرافیائی تعلق اور بیت المقدس کو اس کے فلسطینی ماحول سے الگ تھلگ کر دینے سمیت مزید فلسطینی اراضی کے الحاق، فلسطینی شہریوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو روکنے سے متعلق قابض صیہونیوں کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ 

فلسطینی خبر رساں ایجنسی صفا کے مطابق حماس نے کہا کہ یہ مجرمانہ منصوبہ؛ انتہا پسند استعماری قابض ریاست کے طور پر غاصب صہیونی کابینہ کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے کہ جو صرف اور صرف قتل و غارت، نسل کشی، جبری نقل مکانی اور مزید زمینوں پر قبضے کی زبان کو ہی سمجھتی ہے نیز بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو یکسر نظرانداز کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ حماس نے کہا کہ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فاشسٹ قابض کابینہ کے یہ منصوبے فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور اپنی زمین و جائز حقوق کے تحفظ پر مبنی ان کے پختہ ارادے کے سامنے ناکام ہو کر رہیں گے۔ 

حماس نے تاکید کی کہ ہم عالمی برادری، اس کے تمام اداروں، انسانی حقوق کی تمام تنظیموں اور دنیا بھر کے آزاد انسانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی و اخلاقی ذمہ داریاں ادا کریں اور اس خطرناک استعماری منصوبے کو روکنے کے لئے فوری کارروائی کرتے ہوئے قابض صیہونی کابینہ اور اس کے دہشتگرد وزراء پر سخت پابندیاں عائد کریں۔ حماس نے مزید کہا کہ ہم تمام فلسطینی گروہوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطرناک منصوبے کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے متحرک اور مزاحمت کے واحد آپشن پر متحد ہوجائیں نیز ہم اپنے صابر و مزاحمت پیشہ عوام سے بھی تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی استقامت و مزاحمت میں اضافہ کریں اور فسطائی قابضوں کی شکست، آزادی کے حصول اور اپنی سرزمینوں کی واپسی تک مزاحمت کو تیز سے تیز تر کرتے رہیں!

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: منصوبے کا ریاست کے ہیں کہ

پڑھیں:

ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر جلد ردعمل دیں گے، حماس رہنما ابو نزال

حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیم جلد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جاری اسرائیل کی تقریباً 2 سالہ جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کیے گئے منصوبے پر اپنا ردعمل دے گی۔

 الجزیرہ  ٹی وی کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ گروپ اس منصوبے پر غور کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کی جنگ کو روکا جا سکے اور جلد ہی اپنے مؤقف کا اعلان کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور فلسطینی مزاحمت کی نمائندہ جماعت، حماس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسا مؤقف اپنائے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو۔

یہ بھی پڑھیں:

’ہم اس منصوبے کو اس منطق کے تحت نہیں دیکھ رہے کہ وقت ہماری گردن پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔‘

اس ہفتے کے آغاز میں وائٹ ہاؤس نے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا، جس میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور ایک عبوری بین الاقوامی حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو حماس کو تین سے چار دن کی مہلت دی کہ وہ اس منصوبے پر فیصلہ کرے۔

مزید پڑھیں:

اگرچہ فلسطینی عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے حق میں زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔

ماضی کی بات چیت میں حماس نے مکمل اسرائیلی انخلا، مستقل جنگ بندی اور بے گھر خاندانوں کی واپسی کی ضمانت پر زور دیا ہے۔

دوسری جانب مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالطیف نے پیرس میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ ان کا ملک قطر اور ترکی کے ساتھ مل کر حماس کو اس منصوبے کی منظوری پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں:

انہوں نے اسرائیل کی روزانہ کی جارحیت کو ’نسلی تطہیر اور نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔

ادھر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ توقع کرتے ہیں کہ حماس اس منصوبے کو قبول کرے گی، بصورت دیگر اس کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔

امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ جنگ بندی میں رکاوٹ کی اصل وجہ حماس ہے۔

مزید پڑھیں:

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کاجا کالاس نے بھی حماس سے منصوبے کو قبول کرنے، یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کا ملک صرف اسی صورت منصوبے کی حمایت کرے گا جب یہ دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کرے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئیل بارو نے کہا کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہییں کیونکہ وہ یہ جنگ ہار چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ کو بیرونی قوتوں کے ذریعے نئے انداز سے تشکیل دینے کی مغربی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی میں عراق جیسے ممالک میں ناکام ہو چکی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے میں ٹونی بلیئر جیسے متنازع کرداروں کی شمولیت خطے کے عوام کے خدشات میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اسرائیلی انخلا امریکی صدر بے دخلی حماس خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ محمد نزال مشرق وسطیٰ نسل کشی نسلی تطہیر وائٹ ہاؤس یورپی یونین

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کیجانب سے امن منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا
  • اسرائیلی فوج کے انخلا اور جنگ بندی کی شرط پر تمام یرغمالیوں کی رہائی کےلئے تیار ہیں؛ حماس
  • اسرائیلی فوج کے انخلا اور جنگ بندی کی شرط پر تمام یرغمالیوں کی رہائی کیلیے تیار ہیں؛ حماس
  • صمود فلوٹیلا کے امدادی کارکنوں کی عدم رہائی انسانیت سوز ظلم و جبر ہے، شاداب نقشبندی
  • ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے جائزے کے لیے مزید وقت درکار، اعلیٰ حماس عہدیدار
  • آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں چھوڑیں گے، حماس کا دو ٹوک اعلان
  •  آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں چھوڑیں گے، حماس کا دو ٹوک اعلان
  • ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر جلد ردعمل دیں گے، حماس رہنما ابو نزال
  • غزہ سٹی کے تمام فلسطینی وہاں سے نکل جائیں، اسرائیلی وزیر دفاع
  • صمود فلوٹیلا دنیا میں مزاحمت کی ایک بہت بڑی علامت بن گیا: حافظ نعیم الرحمان