ٹرمپ مچل گئے، ناروے سے نوبیل انعام کا تقاضا کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
ناروے کے ایک اخبار کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ماہ ناروے کے وزیرِ خزانہ جینس اسٹولٹن برگ کو فون کر کے نہ صرف تجارتی محصولات پر بات کی بلکہ کہا کہ وہ نوبیل امن انعام چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل انعام نہیں ملے گا‘، ٹرمپ اس قدر مایوس کیوں؟
ٹرمپ کو اسرائیل، پاکستان اور کمبوڈیا سمیت کئی ممالک نے امن معاہدے یا جنگ بندی کرانے پر اس انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس اعزاز کے حقدار ہیں، جو ان سے پہلے 4 امریکی صدور کو مل چکا ہے۔
ناروے کے وزیرِ خزانہ نے تصدیق کی کہ فون پر محصولات اور اقتصادی تعاون پر بات ہوئی، لیکن باقی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
وائٹ ہاؤس اور نوبیل کمیٹی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ نوبیل انعام کے فاتحین کا اعلان اکتوبر میں اوسلو میں کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ٹرمپ ناروے نوبیل انعام.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ناروے نوبیل انعام نوبیل انعام
پڑھیں:
پوٹن سے مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگائیں گے؛ ٹرمپ
مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کی بری طرح ناکام ہوگئی جس کے بعد امریکا نے بھارت پر مزید ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوگئے تو مزید اقتصادی پابندیاں اور ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔
اسکاٹ بیسنٹ نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ بھارت پر پہلے ہی 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیے جا چکے ہیں، اور روس سے تیل خریدنے کے باعث مزید 25 فیصد ٹیرف جلد نافذ کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ بھارت پر اس طرح مجموعی ٹیرف 50 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اگر پوٹن سے صدر ٹرمپ کے مذاکرات ناکام ہوگئے تو بھارت پر یہ ٹیرف مزید بڑھائے جائیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان سے بھارت کی تجارتی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی اور مودی سرکار کی معاشی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی اور روسی صدور کے درمیان اہم اور تاریخی مذاکرات الاسکا میں ہوں گے جس میں یوکرین جنگ اور روس پر عائد اقتصادی پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ ملاقات 2021 کے بعد پہلی براہ راست سربراہی ملاقات ہوگی۔ امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی اس میں شامل ہوں، بشرطیکہ دونوں فریق رضامند ہوں۔
اگر یہ ملاقات ناکام ہوئی، تو اس کے سب سے بڑے متاثرین میں بھارت شامل ہو سکتا ہے، جو روس سے ہیٹرول خریدتا ہے لیکن امریکا کا اسٹریٹجک اتحادی بھی بننے کی کوشش کرتا ہے۔