سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق پر ووٹنگ متوقع، مسودے میں کیا کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق سے متعلق قرار داد پر ووٹ ڈالے گی۔
امریکا نے گزشتہ ہفتے 15 رکنی کونسل میں اس مسودے پر باضابطہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا، جو 2 سالہ اسرائیل–حماس جنگ میں جنگ بندی کے بعد کے اقدامات سے متعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی توثیق، سلامتی کونسل میں پیر کو ووٹنگ ہوگی
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسودہ ’بورڈ آف پیس‘ کے قیام کا خیرمقدم کرتا ہے، یہ غزہ کے لیے ایک عبوری حکومتی ادارہ ہوگا جس کی مدت 2027 کے آخر تک ہوگی، اور اس کی نظریاتی صدارت ٹرمپ کریں گے۔
مسودہ رکن ممالک کو ’عارضی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF)‘ قائم کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے، جو اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر غزہ کی سرحدوں کی سیکیورٹی اور غیر عسکری بنانے کا کام کرے گی۔
نئے مسودے میں پہلی بار ممکنہ مستقبل کے فلسطینی ریاست کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’صدر ٹرمپ غزہ منصوبے پر حماس کے لیے وقت کا تعین خود کریں گے‘
امریکا کے ساتھ مصر، سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ، قطر، انڈونیشیا، اردن اور متحدہ عرب امارات نے جمعے کو مشترکہ بیان میں اس قرار داد کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب روس نے ایک متبادل قرار داد گردش کرائی ہے، جو نہ تو بورڈ آف پیس کے قیام کی توثیق کرتی ہے اور نہ ہی ISF کی فوری تعیناتی کی۔ روسی مسودہ صرف جنگ بندی کے آغاز کی حمایت کرتا ہے، ٹرمپ کا نام نہیں لیتا، اور سیکریٹری جنرل سے ایک رپورٹ طلب کرتا ہے جس میں غزہ میں بین الاقوامی فورس کے امکانات کا جائزہ ہو۔
یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
امریکی سفیر مائیک والٹز نے خبردار کیا ہے کہ قرار داد کی مخالفت حماس کی حکمرانی کو جاری رکھنے یا دوبارہ جنگ کی طرف واپسی کے مترادف ہوگی، جس سے خطہ مسلسل تنازع میں الجھا رہے گا۔
سفارتکاروں کے مطابق امریکی مسودے میں نگرانی کے نظام، فلسطینی اتھارٹی کے کردار اور ISF کے مینڈیٹ سے متعلق سوالات برقرار ہیں، جب کہ روس کا کہنا ہے کہ اس کی تجویز دو ریاستی حل کے اصول کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امن فورس امن معاہدہ ٹرمپ سلامتی کونسل غزہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امن فورس امن معاہدہ سلامتی کونسل فلسطین سلامتی کونسل کی توثیق کے لیے
پڑھیں:
جل کر راکھ ہو چکا امریکی مہرہ
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں زلنسکی نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ خصوصی رپورٹ:
زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں اور واشنگٹن کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کے مستقل خوف میں زندگی گزار رہا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اخبار گارڈین سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں دوستانہ تھیں اور ان میں کوئی تنازع یا تناؤ نہیں تھا، اور بنیادی طور پر انہیں یعنی زلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
لیکن زلنسکی کا یہ تازہ دعویٰ کئی زاویے رکھتا ہے جنہیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ معاصر یوکرین کی تاریخ میں ولادیمیر زلنسکی کا نام سب سے زیادہ اس تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ وہ ایسا صدر ہے جو امریکہ کی دو بڑی سیاسی قوتوں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان فٹ بال بنا رہا، اور آخرکار واشنگٹن کی جیوپولیٹیکل شطرنج میں ایک مدت کے بعد ختم شدہ اور غیر مؤثر مہرہ بن کر رہ گیا۔
زلنسکی جب اقتدار میں آیا تو اس نے قومی خودمختاری اور یوکرین کی تعمیرِ نو کے وعدوں کے ساتھ سیاسی میدان میں قدم رکھا، مگر جو راستہ اس نے چُنا، وہ اسے ایک ایسے دلدل میں لے گیا جو عالمی استعمار نے اس کے لیے پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کا شکار ہوا، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت پسندانہ فیصلوں اور واشنگٹن کے بدلتے مؤقف کے مستقل خوف میں جی رہا ہے۔
یہ خوف خاص طور پر اُس وقت بڑھا جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کی سیاسی دوڑ میں سامنے آئے اور انہوں نے صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ علانیہ طور پر زلنسکی کو ایک جل کر راکھ ہو چکا مہرہ سمجھتے ہیں، ایسا مہرہ کہ جو اب یوکرین کی جنگ کے منظرنامے میں اپنا کردار پورا کر چکا ہے اور مزید امریکی مفادات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ لیکن زلنسکی کو اور راگنی الاپ رہے ہیں۔
زلنسکی کا ’’سب سے بڑا جھوٹ‘‘، خصوصاً اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور ٹرمپ سے نہ ڈرنے کے حوالے سے، اس المیے کی ایک المناک تصویر ہے، وہ بارہا دعویٰ کرتا رہا کہ اس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے اتحادی تک کییف اور یوکرین کے بڑے شہروں کے اوپر نو فلائی زون بنانے پر بھی آمادہ نہ ہوئے تاکہ شہریوں کی جان بچائی جا سکے۔
مغرب کی یہ بے عملی دوبارہ ثابت کرتی ہے کہ یوکرین اس کھیل میں پھنس چکا ہے، جس کے قواعد خود اس نے نہیں بلکہ دوسرے طے کرتے ہیں۔ آج کییف اُس آگ میں جل رہا ہے جو زلنسکی نے رضاکارانہ طور مغربی وابستگی اپنا کر خود بھڑکائی تھی۔ یوکرین کے عوام دراصل ایسے حکمران چاہتے ہیں جو بیگانی طاقتوں پر انحصار چھوڑ کر حقیقی معنوں میں قومی خودمختاری بحال کریں، لیکن یہ امید زلنسکی کی ذاتی پالیسیوں کے سائے تلے ماند پڑ چکی ہے۔
یوکرین کے موجودہ صدر زلنسکی نے اپنی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ یعنی خود زلنسکی اور کییف کے دیگر اعلیٰ حکام امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ ’’یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا!‘‘ ٹرمپ کے اسی جملے سے زلنسکی جھوٹ بھی ثابت ہوتا ہے۔