غزہ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی توثیق، سلامتی کونسل میں پیر کو ووٹنگ ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ کرے گی، یہ قرارداد اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ میں فائر بندی کے بعد کے انتظامات کی منظوری کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا غزہ کے لیے امن منصوبہ، حماس نے ترمیم کا مطالبہ کردیا
امریکا نے گزشتہ ہفتے 15 رکنی سلامتی کونسل میں قرارداد کے مسودے پر باضابطہ مذاکرات شروع کیے تھے۔ مسودے میں غزہ کے لیے ایک عبوری بورڈ آف پیس کے قیام کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جس کی سربراہی ٹرمپ کے پاس ہوگی اور اس کا مینڈیٹ 2027 کے اختتام تک ہوگا۔
قرارداد کے تحت رکن ممالک عارضی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس قائم کریں گے جو اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور غزہ کے غیر عسکری بنانے کے عمل میں حصہ لے گی۔ نئے مسودے میں مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کا بھی ذکر شامل ہے۔
امریکا کے علاوہ مصر، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، اردن اور انڈونیشیا نے قرارداد کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ قرارداد کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی جلد منظوری چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
دوسری جانب روس نے ایک متبادل قرارداد کونسل کے ارکان کو پیش کی ہے جس میں نہ تو بورڈ آف پیس کے قیام کی منظوری شامل ہے اور نہ ہی غزہ میں کسی بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کی تجویز موجود ہے۔ روسی مسودے میں فائر بندی کا خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن ٹرمپ کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
روس کا کہنا ہے کہ اس کا مسودہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے لیے 2 ریاستی حل کے اصول کو تسلیم کرتا ہے جبکہ امریکی مسودے میں اس کی واضح شمولیت نہیں ہے۔
امریکا نے خبردار کیا ہے کہ فائر بندی کمزور ہے اور قرارداد منظور نہ ہونے کی صورت میں خطے میں دوبارہ کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ امریکی سفیر مائیک والز کے مطابق قرارداد کی مخالفت یا تو حماس کے برقرار رہنے یا دوبارہ جنگ کے امکان کو بڑھا دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی، قطری وزیراعظم کا ردعمل آگیا
سلامتی کونسل میں رائے شماری سے قبل بعض ممالک امریکی مسودے کے چند نکات پر تحفظات رکھتے ہیں جن میں کونسل کی نگرانی کا طریقہ کار، فلسطینی اتھارٹی کا کردار اور نئی فورس کا مینڈیٹ شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ امریکی صدر امن منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ سیکیورٹی کونسل غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیکیورٹی کونسل سلامتی کونسل ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بی بی سی پر 5 ارب ڈالر تک ہرجانے کا اعلان
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے خلاف ایک سے پانچ ارب ڈالر تک کا مقدمہ دائر کریں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ اعلان صدر ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب بی بی سی نے ان کی 6 جنوری 2021 کی تقریر کے ایک حصے کی ایڈیٹنگ کو غلطی قرار دیتے ہوئے معافی تو مانگ لی ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ صدر ٹرمپ کے الزامات کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔
بی بی سی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس کی ایڈیٹنگ غلط تھی جس سے ادارے کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے وکلاء نے بتایا کہ ’’بی بی سی‘‘ کو قانونی نوٹس موصول ہوا تھا جس میں صدر ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا کر جمعے کے روز تک معافی مانگنے اور معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ تنازع بی بی سی کی اس ایڈٹ شدہ ویڈیو سے شروع ہوا جس میں ٹرمپ کی 6 جنوری کی تقریر کے تین مختلف حصوں کو ملا کر پیش کیا گیا تھا۔
امریکی صدر کی ٹیم کا مؤقف تھا کہ اس ایڈیٹنگ سے یہ تاثر گیا کہ صدر ٹرمپ اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر حملے کی ترغیب دے رہے تھے۔
اس تنازع نے بی بی سی کو بدترین بحران میں دھکیل دیا ہے اور ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبرہ ٹرنَس کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں بی بی سی کی ایڈٹ شدہ ویڈیو کو انخابی عمل میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ویڈیو نہ صرف جھوٹ بلکہ بدنیتی پر مبنی تھی۔
انھوں نے بی بی سی کی معذرت کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کلپس کو تقریباً ایک گھنٹے کے وقفے کے ساتھ پیش کیا گیا لیکن انہیں یوں جوڑا گیا جیسے وہ ایک مسلسل اشتعال انگیز خطاب تھا۔
یاد رہے کہ قانونی نوٹس ملنے پر بی بی سی کے چیئرمین نے وائٹ ہاؤس سے ذاتی طور پر معذرت کی اور برطانوی قانون سازوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ غلطی پر مبنی تھا۔ برطانیہ کی ثقافتی وزیر لیزا نینڈی نے بھی اسے درست اور ضروری قدم قرار دیا۔
تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر سے بات کریں گے جنھوں نے بی بی سی کی ادارہ جاتی خودمختاری کی حمایت کی ہے لیکن کھل کر کسی جانب داری کا اظہار نہیں کیا۔