سلامتی کونسل غزہ امن منصوبے کی توثیق کیلئے امریکی قرارداد منظور کرے: پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
نیویارک (ویب ڈیسک) پاکستان، امریکا اور متعدد عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی توثیق کرنے والی امریکی قرارداد کو جلد از جلد منظور کرے۔
عرب اسلامی ملکوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ پاکستان، سعودی عرب امریکا، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، اردن اور ترکی اس وقت زیر غور سلامتی کونسل کی قرارداد کے لیے اپنی مشترکہ حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔
ان ملکوں کا کہنا ہے کہ وہ قرارداد کی فوری منظوری چاہتے ہیں، گزشتہ ہفتے امریکا نے 15 رکنی سلامتی کونسل میں باضابطہ طور پر ایسے مسودے پر مذاکرات شروع کیے جو دو سال تک جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے بعد کے اقدامات سے متعلق ہے اور ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق کرے گا۔
عرب اور مسلمان ملکوں کا کہنا ہے کہ ہم زور دیتے ہیں کہ یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے اور یہ منصوبہ نہ صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور استحکام کی جانب ایک قابل عمل راستہ فراہم کرتا ہے۔
قرارداد کے ایک مسودے میں لکھا ہے کہ وہ بورڈ آف پیس کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہے، جو غزہ کے لیے ایک عبوری انتظامی ادارہ ہو گا اور جس کی اصولی طور پر سربراہی ٹرمپ کریں گے اور اس کا مینڈیٹ 2027 کے اختتام تک رہے گا۔
قرارداد رکن ممالک کو اختیار دے گی کہ وہ عبوری عالمی استحکام فورس (اتشکیل دیں جو اسرائیل، مصر اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مدد دے اور غزہ کی پٹی کو غیرفوجی بنائے، سابقہ مسودوں کے برعکس تازہ ترین مسودے میں مستقبل میں ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ مشترکہ بیان اس وقت سامنے آیا جب روس نے کونسل کے ارکان کو ایک متبادل مسودہ قرارداد پیش کیا جو متن کے مطابق نہ تو غزہ میں بورڈ آف پیس کے قیام کی سہولت دیتا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کی بات کرتا ہے۔
اس مسودے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امن منصوبے کی شقوں پر عمل درآمد کے لیے ممکنہ راستوں کی نشاندہی کریں اور جلد ایک ایسی رپورٹ پیش کریں جو اسرائیلی جارحیت سے تباہ حال غزہ میں کسی بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کے امکانات کو بھی بیان کرے۔
اب تک یوں محسوس ہوتا رہا ہے کہ کونسل کے ارکان امن منصوبے کے بنیادی اصولوں کی حمایت کرتے ہیں، لیکن سفارتی ذرائع نے اشارہ دیا کہ امریکی مسودے کے بارے میں متعدد سوالات موجود ہیں جو خاص طور پر کونسل کی جانب سے نگرانی کے کسی طریقہ کار کی عدم موجودگی، فلسطینی اتھارٹی کے کردار اور آئی ایس ایف کے مینڈیٹ کی تفصیلات کے حوالے سے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امن منصوبے کی سلامتی کونسل ہے کہ وہ کے لیے
پڑھیں:
عراق میں امریکی منصوبے کی ناکامی
اسلام ٹائمز: عراق کے حالیہ الیکشن میں وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی کی وجوہات سمجھنے کے لیے موجودہ عراقی حکومت کے اہم اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ محمد شیاع السوڈانی نے جو سب سے اہم کام انجام دیا ہے وہ مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں جاری تمام منصوبوں پر براہ راست نظارت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے تمام حکومتی اداروں کو جدید وسائل سے لیس کیا ہے اور الیکٹرانک پاسپورٹ سے لے کر ای بینکنگ تک انفرااسٹرکچر کو ترقی دی ہے۔ کسٹم سے حاصل ہونے والی آمدن میں ان کی حکومت کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے اور حکومتی ادارہ جات میں کرپشن میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً پانچ سال پہلے کوئی بینک کے کارڈ سے واقف نہیں تھا لیکن اب عوام کی اکثریت بین کارڈ رکھتی ہے۔ 2024ء کی مردم شماری کے مطابق عراق کی کل آبادی 4 کروڑ 60 لاکھ ہے جس کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔ تحریر: علی احمدی
عراق میں جمہوریت نے ایک فیصلہ کن موڑ طے کیا ہے اور 11 نومبر 2025ء کے دن منعقد ہونے والی پارلیمانی الیکشن میں 1 کروڑ 20 لاکھ عراقی شہریوں نے شرکت کی جو کل ووٹرز کا تقریباً 56 فیصد ہے۔ عراق میں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد یہ کسی بھی الیکشن میں سب سے بڑا ٹرن آوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدام حسین کے بعد سے اب تک عراق بہت سے سیاسی اور سیکورٹی بحرانوں سے گزرا ہے۔ حالیہ الیکشن میں ٹرن آوٹ کی شرح 2021ء کے الیکشن کی نسبت 13 فیصد زیادہ رہی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی عوام ملکی امور میں شامل ہونے اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ الیکشن کا پہلا مرحلہ 9 نومبر کے دن انجام پایا جب صرف مسلح افواج اور سیکورٹی فورسز کے کارکنان نے ووٹ دیا۔ یہ ٹرن آوٹ بھی 82 فیصد رہا۔
وزیراعظم کے حامیوں کی کامیابی
شیعہ جماعتوں میں عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کے اتحاد نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس اتحاد کو 185 سیٹیں حاصل ہو جائیں گی۔ سابق عراقی وزیراعظم نوری مالکی کی سربراہی میں حکومت قانون دوسرے نمبر پر ہے جبکہ سید عمار حکیم کی سربراہی میں قومی حکمت تیسرے نمبر پر قرار پائی ہے۔ اسی طرح الصادقون اور بدر اتحاد بھی بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتدال پسند جماعتوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے نیز یہ نتائج موجودہ وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ عراق کی سنی سیاسی جماعتوں میں سے محمد الحلبوسی کی سربراہی میں اتحاد نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ العزم اور السیاسہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
الیکشن کے میدان میں اس شدید مقابلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہے لیکن آئندہ حکومت کی تشکیل میں محمد الحلبوسی کا کردار اہم ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ محمد شیاع السوڈانی کی سنی سیاسی جماعتوں سے ہم آہنگی اور اچھے تعلقات اس کی حکومت مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ کردستان میں ڈیموکریٹک کردستان پارٹی نے 29 سیٹیں حاصل کر کے پہلی پوزیشن لی ہے جبکہ وطن پرست کردستان اتحاد کو 18 سیٹیں ملی ہیں۔ گوران اور نئی نسل نامی اتحادوں نے بھی بالترتیب پانچ اور تین سیٹیں حاصل کی ہیں۔ بغداد میں محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی اور 2021ء میں حکومت مخالف تحریک چلانے والے سیاسی رہنماوں کی ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قومی اور علاقائی اتحاد تشکیل دینے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔
بغداد کی بہار
عراق کے حالیہ الیکشن میں وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی کی وجوہات سمجھنے کے لیے موجودہ عراقی حکومت کے اہم اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ محمد شیاع السوڈانی نے جو سب سے اہم کام انجام دیا ہے وہ مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں جاری تمام منصوبوں پر براہ راست نظارت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے تمام حکومتی اداروں کو جدید وسائل سے لیس کیا ہے اور الیکٹرانک پاسپورٹ سے لے کر ای بینکنگ تک انفرااسٹرکچر کو ترقی دی ہے۔ کسٹم سے حاصل ہونے والی آمدن میں ان کی حکومت کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے اور حکومتی ادارہ جات میں کرپشن میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً پانچ سال پہلے کوئی بینک کے کارڈ سے واقف نہیں تھا لیکن اب عوام کی اکثریت بین کارڈ رکھتی ہے۔ 2024ء کی مردم شماری کے مطابق عراق کی کل آبادی 4 کروڑ 60 لاکھ ہے جس کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔
الیکشن بائیکاٹ مہم کی ناکامی
عراق کے معروف اور اثرورسوخ رکھنے والے رہنما مقتدا صدر نے اپنے حامیوں کو حالیہ پارلیمانی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا تھا اور اسے توقع تھی کہ شیعہ عوام کی اکثریت ان کے اس مطالبے پر الیکشن میں شریک نہیں ہو گی۔ لیکن موجودہ حکومت کی اچھی کارکردگی اس بات کا باعث بنی کہ عراقی عوام نے بڑھ چڑھ کر الیکشن میں حصہ لیا اور یوں تاریخی ٹرن آوٹ سامنے آیا۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ موجودہ حکومت نے ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنایا اور بڑی سطح پر تعمیراتی پراجیکٹس بھی انجام دیے جس کے باعث عوام میں امید زندہ ہو گئی۔ دوسرا شیعہ سیاسی گروہوں میں شدید مقابلے کی فضا کے ساتھ ساتھ سنی اور کرد جماعتوں کی موجودگی نے بھی الیکشن کو چیلنجنگ بنا دیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کی نئی نسل جمہوریت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
نئی حکومت تشکیل پانے کا عمل
عراق کے آئین میں پارلیمانی الیکشن کے حتمی نتائج سامنے آ جانے کے بعد حکومتی اداروں کی تشکیل کے لیے مقررہ مدت معین کر دی گئی ہے تاکہ طاقت کی منتقلی کے بعد عوام کی نئی منتخب حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھال سکے۔ اس عمل کا پہلا مرحلہ نئی پارلیمنٹ کی تشکیل ہے۔ آئین کے مطابق حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ 15 دن میں نئی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہو جانا چاہیے۔ اس کم مدت کی اصل وجہ جلد از جلد نیا سیٹ اپ تشکیل پانا یقینی بنانا ہے۔ اگلے مرحلے میں اراکین پارلیمنٹ نئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور آئین کی رو سے اس اقدام کے لیے زیادہ سے زیادہ تیس دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ صدر منتخب ہو جانے کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کے اندر نئی کابینہ تشکیل دینے کا پابند ہوتا ہے۔