عراق میں امریکی منصوبے کی ناکامی
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عراق کے حالیہ الیکشن میں وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی کی وجوہات سمجھنے کے لیے موجودہ عراقی حکومت کے اہم اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ محمد شیاع السوڈانی نے جو سب سے اہم کام انجام دیا ہے وہ مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں جاری تمام منصوبوں پر براہ راست نظارت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے تمام حکومتی اداروں کو جدید وسائل سے لیس کیا ہے اور الیکٹرانک پاسپورٹ سے لے کر ای بینکنگ تک انفرااسٹرکچر کو ترقی دی ہے۔ کسٹم سے حاصل ہونے والی آمدن میں ان کی حکومت کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے اور حکومتی ادارہ جات میں کرپشن میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً پانچ سال پہلے کوئی بینک کے کارڈ سے واقف نہیں تھا لیکن اب عوام کی اکثریت بین کارڈ رکھتی ہے۔ 2024ء کی مردم شماری کے مطابق عراق کی کل آبادی 4 کروڑ 60 لاکھ ہے جس کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔ تحریر: علی احمدی
عراق میں جمہوریت نے ایک فیصلہ کن موڑ طے کیا ہے اور 11 نومبر 2025ء کے دن منعقد ہونے والی پارلیمانی الیکشن میں 1 کروڑ 20 لاکھ عراقی شہریوں نے شرکت کی جو کل ووٹرز کا تقریباً 56 فیصد ہے۔ عراق میں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد یہ کسی بھی الیکشن میں سب سے بڑا ٹرن آوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدام حسین کے بعد سے اب تک عراق بہت سے سیاسی اور سیکورٹی بحرانوں سے گزرا ہے۔ حالیہ الیکشن میں ٹرن آوٹ کی شرح 2021ء کے الیکشن کی نسبت 13 فیصد زیادہ رہی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی عوام ملکی امور میں شامل ہونے اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ الیکشن کا پہلا مرحلہ 9 نومبر کے دن انجام پایا جب صرف مسلح افواج اور سیکورٹی فورسز کے کارکنان نے ووٹ دیا۔ یہ ٹرن آوٹ بھی 82 فیصد رہا۔
وزیراعظم کے حامیوں کی کامیابی
شیعہ جماعتوں میں عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کے اتحاد نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس اتحاد کو 185 سیٹیں حاصل ہو جائیں گی۔ سابق عراقی وزیراعظم نوری مالکی کی سربراہی میں حکومت قانون دوسرے نمبر پر ہے جبکہ سید عمار حکیم کی سربراہی میں قومی حکمت تیسرے نمبر پر قرار پائی ہے۔ اسی طرح الصادقون اور بدر اتحاد بھی بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتدال پسند جماعتوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے نیز یہ نتائج موجودہ وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ عراق کی سنی سیاسی جماعتوں میں سے محمد الحلبوسی کی سربراہی میں اتحاد نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ العزم اور السیاسہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
الیکشن کے میدان میں اس شدید مقابلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہے لیکن آئندہ حکومت کی تشکیل میں محمد الحلبوسی کا کردار اہم ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ محمد شیاع السوڈانی کی سنی سیاسی جماعتوں سے ہم آہنگی اور اچھے تعلقات اس کی حکومت مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ کردستان میں ڈیموکریٹک کردستان پارٹی نے 29 سیٹیں حاصل کر کے پہلی پوزیشن لی ہے جبکہ وطن پرست کردستان اتحاد کو 18 سیٹیں ملی ہیں۔ گوران اور نئی نسل نامی اتحادوں نے بھی بالترتیب پانچ اور تین سیٹیں حاصل کی ہیں۔ بغداد میں محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی اور 2021ء میں حکومت مخالف تحریک چلانے والے سیاسی رہنماوں کی ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قومی اور علاقائی اتحاد تشکیل دینے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔
بغداد کی بہار
عراق کے حالیہ الیکشن میں وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کی کامیابی کی وجوہات سمجھنے کے لیے موجودہ عراقی حکومت کے اہم اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ محمد شیاع السوڈانی نے جو سب سے اہم کام انجام دیا ہے وہ مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں جاری تمام منصوبوں پر براہ راست نظارت کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے تمام حکومتی اداروں کو جدید وسائل سے لیس کیا ہے اور الیکٹرانک پاسپورٹ سے لے کر ای بینکنگ تک انفرااسٹرکچر کو ترقی دی ہے۔ کسٹم سے حاصل ہونے والی آمدن میں ان کی حکومت کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے اور حکومتی ادارہ جات میں کرپشن میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً پانچ سال پہلے کوئی بینک کے کارڈ سے واقف نہیں تھا لیکن اب عوام کی اکثریت بین کارڈ رکھتی ہے۔ 2024ء کی مردم شماری کے مطابق عراق کی کل آبادی 4 کروڑ 60 لاکھ ہے جس کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے۔
الیکشن بائیکاٹ مہم کی ناکامی
عراق کے معروف اور اثرورسوخ رکھنے والے رہنما مقتدا صدر نے اپنے حامیوں کو حالیہ پارلیمانی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا تھا اور اسے توقع تھی کہ شیعہ عوام کی اکثریت ان کے اس مطالبے پر الیکشن میں شریک نہیں ہو گی۔ لیکن موجودہ حکومت کی اچھی کارکردگی اس بات کا باعث بنی کہ عراقی عوام نے بڑھ چڑھ کر الیکشن میں حصہ لیا اور یوں تاریخی ٹرن آوٹ سامنے آیا۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ موجودہ حکومت نے ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنایا اور بڑی سطح پر تعمیراتی پراجیکٹس بھی انجام دیے جس کے باعث عوام میں امید زندہ ہو گئی۔ دوسرا شیعہ سیاسی گروہوں میں شدید مقابلے کی فضا کے ساتھ ساتھ سنی اور کرد جماعتوں کی موجودگی نے بھی الیکشن کو چیلنجنگ بنا دیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کی نئی نسل جمہوریت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
نئی حکومت تشکیل پانے کا عمل
عراق کے آئین میں پارلیمانی الیکشن کے حتمی نتائج سامنے آ جانے کے بعد حکومتی اداروں کی تشکیل کے لیے مقررہ مدت معین کر دی گئی ہے تاکہ طاقت کی منتقلی کے بعد عوام کی نئی منتخب حکومت ملک کا نظم و نسق سنبھال سکے۔ اس عمل کا پہلا مرحلہ نئی پارلیمنٹ کی تشکیل ہے۔ آئین کے مطابق حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ 15 دن میں نئی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہو جانا چاہیے۔ اس کم مدت کی اصل وجہ جلد از جلد نیا سیٹ اپ تشکیل پانا یقینی بنانا ہے۔ اگلے مرحلے میں اراکین پارلیمنٹ نئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور آئین کی رو سے اس اقدام کے لیے زیادہ سے زیادہ تیس دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ صدر منتخب ہو جانے کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کے اندر نئی کابینہ تشکیل دینے کا پابند ہوتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی محمد شیاع السوڈانی کی سیٹیں حاصل الیکشن میں کی کامیابی کی اکثریت سے زیادہ حکومت کے ٹرن آوٹ عراق کی عوام کی عراق کے کے بعد ہے اور کے لیے
پڑھیں:
امریکا کا غزہ میں فوجی موجودگی سے انکار، مگر بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی تیاری
واشنگٹن:پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گزشتہ روز اس بات کی تصدیق کی کہ امریکا غزہ کی پٹی میں کوئی فوجی نہیں بھیجے گا۔
تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ بین الاقوامی افواج کو فلسطینی علاقے کے قریب تعینات کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
پینٹاگون کے عہدیدار نے کہا کہ اسرائیلی میڈیا میں گردش کرنے والی رپورٹیں غلط ہیں تاہم اس نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ امریکا اور اس کے عالمی فوجی اتحادی مل کر غزہ کے علاقے کے قریب بین الاقوامی فوجی دستوں کو تعینات کرنے کے آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔
ان افواج کو انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے تحت تعینات کیا جائے گا جو امریکی صدر کی غزہ امن منصوبے کی حمایت کریں گی۔
عہدیدار نے وضاحت کی کہ کسی امریکی فوجی کو غزہ میں تعینات نہیں کیا جائے گا، جو کچھ بھی اس کے برعکس رپورٹ کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔
اس سے پہلے اسرائیلی میڈیا میں یہ رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ امریکا غزہ کی سرحد کے قریب 500 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس میں کئی ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی گنجائش ہو گی۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ 10 اکتوبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کی بنیاد پر نافذ کیا گیا تھا۔
آئی ایس ایف اس منصوبے کا اہم حصہ ہے، جو غزہ میں اسرائیل کی واپسی کے دوران استحکام کی کوششوں میں مدد فراہم کرے گا۔
غزہ ہیلتھ وزارت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 2023 سے اب تک 69,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 170,600 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔