جل کر راکھ ہو چکا امریکی مہرہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں زلنسکی نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ خصوصی رپورٹ:
زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں اور واشنگٹن کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کے مستقل خوف میں زندگی گزار رہا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اخبار گارڈین سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں دوستانہ تھیں اور ان میں کوئی تنازع یا تناؤ نہیں تھا، اور بنیادی طور پر انہیں یعنی زلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
لیکن زلنسکی کا یہ تازہ دعویٰ کئی زاویے رکھتا ہے جنہیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ معاصر یوکرین کی تاریخ میں ولادیمیر زلنسکی کا نام سب سے زیادہ اس تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ وہ ایسا صدر ہے جو امریکہ کی دو بڑی سیاسی قوتوں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان فٹ بال بنا رہا، اور آخرکار واشنگٹن کی جیوپولیٹیکل شطرنج میں ایک مدت کے بعد ختم شدہ اور غیر مؤثر مہرہ بن کر رہ گیا۔
زلنسکی جب اقتدار میں آیا تو اس نے قومی خودمختاری اور یوکرین کی تعمیرِ نو کے وعدوں کے ساتھ سیاسی میدان میں قدم رکھا، مگر جو راستہ اس نے چُنا، وہ اسے ایک ایسے دلدل میں لے گیا جو عالمی استعمار نے اس کے لیے پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کا شکار ہوا، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت پسندانہ فیصلوں اور واشنگٹن کے بدلتے مؤقف کے مستقل خوف میں جی رہا ہے۔
یہ خوف خاص طور پر اُس وقت بڑھا جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کی سیاسی دوڑ میں سامنے آئے اور انہوں نے صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ علانیہ طور پر زلنسکی کو ایک جل کر راکھ ہو چکا مہرہ سمجھتے ہیں، ایسا مہرہ کہ جو اب یوکرین کی جنگ کے منظرنامے میں اپنا کردار پورا کر چکا ہے اور مزید امریکی مفادات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ لیکن زلنسکی کو اور راگنی الاپ رہے ہیں۔
زلنسکی کا ’’سب سے بڑا جھوٹ‘‘، خصوصاً اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور ٹرمپ سے نہ ڈرنے کے حوالے سے، اس المیے کی ایک المناک تصویر ہے، وہ بارہا دعویٰ کرتا رہا کہ اس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے اتحادی تک کییف اور یوکرین کے بڑے شہروں کے اوپر نو فلائی زون بنانے پر بھی آمادہ نہ ہوئے تاکہ شہریوں کی جان بچائی جا سکے۔
مغرب کی یہ بے عملی دوبارہ ثابت کرتی ہے کہ یوکرین اس کھیل میں پھنس چکا ہے، جس کے قواعد خود اس نے نہیں بلکہ دوسرے طے کرتے ہیں۔ آج کییف اُس آگ میں جل رہا ہے جو زلنسکی نے رضاکارانہ طور مغربی وابستگی اپنا کر خود بھڑکائی تھی۔ یوکرین کے عوام دراصل ایسے حکمران چاہتے ہیں جو بیگانی طاقتوں پر انحصار چھوڑ کر حقیقی معنوں میں قومی خودمختاری بحال کریں، لیکن یہ امید زلنسکی کی ذاتی پالیسیوں کے سائے تلے ماند پڑ چکی ہے۔
یوکرین کے موجودہ صدر زلنسکی نے اپنی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ یعنی خود زلنسکی اور کییف کے دیگر اعلیٰ حکام امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ ’’یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا!‘‘ ٹرمپ کے اسی جملے سے زلنسکی جھوٹ بھی ثابت ہوتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یوکرین کے امریکہ کی ٹرمپ کے کے ساتھ
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل میں غزہ امن و استحکام کیلئے قرارداد متعارف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ استحکام فورس کے قیام کے لیے نئی ترمیم شدہ قرارداد پیش کر دی ہے۔ اس قرارداد کے تحت غزہ استحکام فورس ایک بورڈ آف پیس کے تحت قائم کی جائے گی، جس کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔
اس بورڈ کا مقصد غزہ میں معاشی بحالی کے پروگراموں کی نگرانی اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے اقدامات کو منظم کرنا ہوگا۔ بورڈ کے تحت مختلف ذیلی ادارے بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ یہ کام مؤثر انداز میں انجام دیا جا سکے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، امریکی مسودے میں صدر ٹرمپ کا مکمل 20 نکاتی امن منصوبہ شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ مصر میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں غزہ کے انتظام کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس میں انتظامی امور فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے سپرد کرنے کی منظوری دی گئی تھی، لیکن فلسطینی تنظیم حماس نے اس پر اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ غزہ کا انتظام صرف فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے سپرد ہونا چاہیے۔
یہ قرارداد غزہ میں استحکام اور امن کے لیے امریکی کوششوں کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر باضابطہ شکل دینے کی کوشش ہے۔