آزاد  کشمیر کی فضاؤں میں کتاب کی خوشبو کو کبھی قید نہیں کیا جا سکا لیکن اس بار خبر کچھ اور ہے۔ بھارت کے  زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 25 ایسی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی ہے جو تاریخ کی گواہی دیتی ہیں، سوال اٹھاتی ہیں اور حقیقت کی پرتیں کھولتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر آزاد کشمیر میں اظہار تشکر ریلیوں کا انعقاد

حکم براہِ راست بھارتی آئین کے نئے فوجداری قانون Bharatiya Nyaya Sanhita (BNSS) 2023 کے تحت جاری ہوا ہے جس میں کتابوں کو ’علیحدگی پسند بیانیہ‘ قرار دے کر نہ صرف ان کی اشاعت بلکہ ان کی تقسیم اور فروخت کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔

ان کتابوں میں Arundhati Roy کی Azadi، A.

G. Noorani کا The Kashmir Dispute 1947-2012، Sumantra Bose، Christopher Snedden، Victoria Schofield  اور David Devadas  جیسے عالمی شہرت یافتہ مؤرخین اور تجزیہ کاروں کے کام بھی شامل ہیں۔ حکم نامے میں ان کتابوں کو ’ضبط‘ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے اور قانون شکنی کی صورت میں مجرم کو 3 سال سے عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیے: آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے 6 سال مکمل، آزاد کشمیر کے شہریوں کے تاثرات

 آزاد کشمیر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ کتاب پر پابندی سوچ پر پابندی ہوتی ہے جو مستقبل کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کو دفنانے کی کوشش ہے مگر تاریخ مٹی میں بھی سانس لیتی ہے۔ دیکھیے فرحان طارق کی یہ ویڈیو رپورٹ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر بھارت کشمیر پر کتابوں پر پابندی کشمیر پر کتابیں کشمیر کی تاریخ مقبوضہ کشمیر

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت کشمیر پر کتابوں پر پابندی کشمیر پر کتابیں کشمیر کی تاریخ

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی (15 اگست) کو غلامی کی یاد قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کُل جماعتی حریت کانفرنس نے غیور اور بہادر کشمیریوں سے 15 اگست کو مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جس دن بھارت اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے، وہ دن کشمیریوں کے لیے غلامی، جبری تسلط اور مظالم کی سیاہ یاد ہے۔

حریت کانفرنس نے اعلان کیا کہ ہم اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ کشمیری قوم بھارتی تسلط کی قیدی نہیں بلکہ آزادی کی متلاشی ہے۔

حریت رہنماؤں کی اپیل کے فوری بعد بھارتی فورسز نے روایتی جبر کا استعمال کرتے ہوئے چھاپے مارے، درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کیا، اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی۔

اس کے باوجود وادی میں کشمیری نوجوانوں نے جگہ جگہ یومِ سیاہ کے بینرز، سیاہ جھنڈے اور پاکستانی پرچم آویزاں کرنا شروع کردیئے۔

مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں بھارت مخالف نعرے اور آزادی کے حق میں وال چاکنگ بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

دوسری جانب حریت رہنماؤں نے 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی یومِ تشکر کے طور پر منایا اور پاکستانی قوم کو دلی مبارکباد دی۔

 

متعلقہ مضامین

  • رافیل طیاروں کی ناکامی کے باوجود مودی سرکار کی فرانس سے معاہدے کی کوشش
  • سندھ طاس معاہدے سے ’فرار‘ اختیار کرنے کی بھارتی کوشش، پاکستان کی کڑی تنقید
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان
  • مقبوضہ کشمیر: بھارت کے یومِ آزادی پر یومِ سیاہ
  • آزادی کا اعلان 15 اگست کو ہوا لیکن پاکستان میں یوم آزادی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟
  • بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر اقوام متحدہ سے بھی پابندی لگوانے کی کوشش کریں گے، بلاول بھٹو
  • وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سیاسی و سماجی کارکن سید عامر سہیل کا خصوصی انٹرویو
  • کوشش ہوگی اقوام متحدہ سے بھی بی ایل اے، مجید بریگیڈ پر پابندی لگوائیں: بلاول بھٹو
  • اقوام متحدہ سے بھی بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر پابندی لگوائیں گے: بلاول بھٹو