ویب ڈیسک:  پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ نے 6 عالمی تعلیمی ریکارڈز اپنے نام کر لئے۔

لندن کی 18 سالہ ماہ نور چیمہ، جو پاکستانی نژاد برطانوی ہیں، نے تعلیمی تاریخ رقم کر دی، انہوں نے 24 اے لیول مضامین میں شاندار کامیابی حاصل کر کے چار نئے عالمی ریکارڈ توڑ دیئے۔

اس سے قبل اپنے جی سی ایس ای کے نتائج کے ساتھ وہ مجموعی طور پر 6 عالمی تعلیمی ریکارڈ اپنے نام کر چکی ہیں، جو کسی بھی سکول کے طالب علم کیلئے دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

جشن آزادی:پنجاب  کے 41 اضلاع میں بیک وقت آتشبازی

ماہ نور کو طب (میڈیسن) کی تعلیم کیلئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ بھی مل گیا ہے، جسے وہ اپنی بچپن کی خواہش کی تکمیل قرار دیتی ہیں۔

ماہ نور کے مطابق یہ سب کچھ ان کے والدین کی قربانیوں کی بدولت ممکن ہوا، وہ 2006 میں والدین کے ساتھ لاہور سے برطانیہ منتقل ہوئیں اور مختلف سکولوں میں تعلیم کے بعد آخری سال ہوم اسکولنگ کی۔

وہ موسیقی میں ڈپلومہ، اداکاری اور پبلک سپیکنگ میں گولڈ میڈلز اور دنیا کی اعلیٰ آئی کیو سوسائٹی ’مینسا‘ کی رکنیت بھی رکھتی ہیں، ان کی کامیابیوں کو پاکستان کے سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی سراہا، اور انہیں ’قوم کی بیٹی‘ قرار دیا۔
 

پنجاب میں جشنِ آزادی پر 41 اضلاع میں بیک وقت آتشبازی

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی

لندن: برطانیہ میں پولیس کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت ہائی پروفائل اور حساس مقدمات میں مشتبہ افراد کی قومیت اور نسلی پس منظر کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کی اجازت دی جا رہی ہے، تاکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

یہ فیصلہ پچھلے سال پیش آنے والے ایک بڑے واقعے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی و سماجی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔

جولائی 2024 میں برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں پیش آئے ایک ہولناک واقعے کے بعد یہ مسئلہ شدت سے سامنے آیا، جب تین کم سن لڑکیوں کو ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ 

اس واقعے کے بعد آن لائن افواہیں گردش کرنے لگیں کہ حملہ آور ایک کم عمر تارکِ وطن ہے۔ ان جھوٹی خبروں نے عوامی اشتعال کو بھڑکا دیا، نتیجتاً ملک کے مختلف حصوں میں شدید ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے۔

اس واقعے نے حکومت اور پولیس کو تنقید کے نشانے پر لا کھڑا کیا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ پولیس حساس کیسز میں جان بوجھ کر ملزمان کی قومیت یا امیگریشن اسٹیٹس کو چھپاتی ہے تاکہ عوامی ردعمل سے بچا جا سکے۔ 

گزشتہ ہفتے ریفارم یوکے پارٹی نے ایک اور کیس میں پولیس پر یہی الزام عائد کیا — وسطی انگلینڈ میں ایک 12 سالہ لڑکی کے مبینہ ریپ میں ملوث ملزمان کے بارے میں کہا گیا کہ پولیس نے ان کی امیگریشن حیثیت چھپائی۔ بعد ازاں، مقامی کونسل کے ایک رہنما نے عوامی طور پر دعویٰ کیا کہ ملزمان پناہ گزین ہیں، جس کے بعد ایک بار پھر امیگریشن مخالف احتجاج شروع ہو گیا۔

اس وقت برطانیہ میں پولیس کے لیے یہ اصول موجود ہے کہ وہ صرف اتنی معلومات شیئر کرے جو کسی ملزم کو منصفانہ ٹرائل فراہم کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قومیت اور امیگریشن حیثیت جیسی تفصیلات عام طور پر ظاہر نہیں کی جاتیں۔

تاہم، نیشنل پولیس چیفس کونسل (NPCC) اور کالج آف پولیسنگ کی جانب سے جاری کی گئی نئی ہدایات کے مطابق اب پولیس فورسز کو "ترغیب" دی جائے گی کہ جہاں کسی واقعے سے متعلق جھوٹی یا متضاد معلومات تیزی سے پھیل رہی ہوں، وہاں عوامی مفاد کے تحت نسلی یا قومیتی پس منظر جیسی تفصیلات شیئر کی جائیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قدم ایک طرف شفافیت اور عوامی اعتماد بڑھا سکتا ہے، مگر دوسری جانب خطرہ ہے کہ اس سے نسلی تعصب اور امیگریشن مخالف جذبات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کچھ کارکنان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا غلط استعمال مخصوص برادریوں کو نشانہ بنانے کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام جھوٹی خبروں اور افواہوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔


 

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ نے 6 عالمی تعلیمی ریکارڈ قائم کر دیے
  • برطانوی پولیس کو مشتبہ افراد کی نسلی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت مل گئی
  • پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ کا کارنامہ، 6 عالمی تعلیمی ریکارڈز اپنے نام کرلیے
  • ایران کے اسپیکر قومی اسمبلی کو پاکستان کے دورے کی دعوت
  • مقبوضہ کشمیر؛ یوم آزادی پر قائداعظم، علامہ اقبال اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تصاویر آویزاں
  • برج خلیفہ سبز ہلالی پرچم سے جگمگا اٹھا؛ پاک وطن کا یوم آزادی عالمی سطح پر بھی
  • پنجاب میں جشنِ آزادی پر 41 اضلاع میں بیک وقت آتشبازی
  • موڈیز کا پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار، ریٹنگ اور کریڈٹ آؤٹ لک بہتر کر دی
  • پاکستان کے تعلیمی و مہارتی ڈھانچے کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ چوہدری سالک حسین