غزہ: خطرناک حالات میں انسانی خدمت کی اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ڈاکٹر کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 اگست 2025ء) ستر سالہ ڈاکٹر یونس عوض اللہ ماہر امراض بچگان ہیں جو ریٹائرمنٹ ترک کر کے غزہ میں بیمار اور زخمی بچوں کا علاج کر رہے ہیں۔ وہ اس کام کو اپنے پیشے، غزہ کے بچوں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ساتھ اپنی وفاداری کا پیغام قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر یونس اپنے 43 سالہ کیریئر میں سعودی عرب، فلسطینی وزارت صحت اور یونیسف کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
2021 کے آخر میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی تھی لیکن اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد علاقے میں پولیو وائرس ظاہر ہوا تو وہ کام پر واپس آ گئے۔وہ کہتے ہیں کہ جنگ میں لوگوں کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے انہیں ذمہ داری اور وابستگی کا احساس ہوا اور انہوں نے سوچا کہ ان کا طویل عملی تجربہ اس مشکل وقت میں لوگوں کے کام آ سکتا ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے لیے خاموش خطرہڈاکٹر یونس کی داستان 19 اگست کو منائے جانے والے امدادی کارکنوں کے عالمی دن پر یونیسف کی جاری کردہ فلم 'غزہ کے لیے خاموش خطرہ' میں بھی بیان کی گئی ہے۔
یہ فلم امدادی کارکنوں کے عزم اور مضبوطی کی گواہی پیش کرتی ہے جو جنگ کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔غزہ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی بہادرانہ مہم پر مئی میں ڈاکٹر یونس کا نام ٹائم میگزین کی جانب سے 100 نمایاں ترین ڈاکٹروں کی فہرست میں درج کیا گیا تھا۔ وہ یونیسف کی 32 منٹ پر مشتمل فلم میں مرکزی شخصیت کے طور پر نظر آتے ہیں۔
فلم میں ان کی ساتھی ڈاکٹر فیروز ابو وردہ کو بھی دکھایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ سال مختصر جنگ بندی کے دوران غزہ بھر میں بچوں کو ویکسین فراہم کی تھی۔ انتھک اور بے لوث خدماتیونیسف نے کہا ہے کہ دونوں معالجین کی جرات اس بنیادی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جب امدادی اصولوں کی پاسداری کی جائے، امدادی کارکنوں کو تحفظ اور محفوظ و بروقت رسائی ملے تو انتہائی مشکل حالات میں بھی زندگیوں کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر یونس اور ڈاکٹر وردہ کی ہمت نے اصولی اقدام اور بین الاقوامی جواب طلبی کی ہنگامی ضرورت کو واضح کیا ہے۔ڈاکٹر یونس نے یو این نیوز کو بتایا کہ فضا اور سمندر سے برستے بموں تلے کیسے تھکاوٹ، بھوک اور خوف ان کے روزمرہ معمول کا حصہ بن گئے تھے۔ تاہم انہوں نے ہر بچے کو ویکسین دینا اپنی ترجیح بنایا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ اس دوران ان کے ساتھ تھکاوٹ سے نڈھال ہو جاتے تھے لیکن جلد ہی دوبارہ کام پر واپس آ جاتے۔
قوت ارادی کی زندہ گواہیڈاکٹر یونس ویکسین لینے والے بچے کی مسکراہٹ سے لے کر طبی ٹیموں کی جانب سے خطروں اور مشکلات کی پروا نہ کرتے ہوئے دور دراز علاقوں میں جانے پر اصرار تک بہت سے واقعات سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ امدادی کام ہر عمر میں اور ہر طرح کے حالات میں جاری رہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ امدادی کام کرتے ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کا اطلاق اس کام پر نہیں ہوتا۔
'غزہ کے لیے خاموش خطرہ' محض فلم یا واقعات کا بیان نہیں بلکہ عزم اور امید کی طاقت کی جیتی جاگتی گواہی ہے۔
ڈاکٹر یونس سمجھتے ہیں کہ فلم کا ہر منظر دنیا کے لیے پیغام ہے کہ زخموں، موت اور مشکل زندگی کے باوجود غزہ اپنے بچوں کو تحفظ دینے کے قابل ہے۔ وہ اور ان کے ساتھ امدادی کارکن اپنی جان کو لاحق خطرات کے باوجود متواتر بمباری تلے اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔
وہ دھماکوں کی آوازیں سنتے اور پھر اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ وہ اپنے مقصد پر نظر رکھتے ہیں اور ہر طرح کے حالات کے عادی ہو چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ غزہ میں 350 طبی اہلکار ہلاک، سیکڑوں زخمی اور 1,300 گرفتار ہو چکے ہیں۔
انہوں دنیا سے اپیل کی ہے کہ لوگوں کو مدد پہنچانے والوں کو تحفظ دینا انہیں تعیش کی فراہمی نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کی زندگی اور امید قائم رہے۔
یہ انسانی فریضہ اور امداد فراہم کرنے جتنا ہی اہم کام ہے۔امید پھیلانے کا کامڈاکٹر یونس کا کہنا ہے کہ دہائیوں کے تجربے سے انہوں نے یہ سیکھا ہے کہ انسان بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ مضبوطی درد اور تکلیف محسوس ہونے کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب المیوں کے باوجود خود کو قائم رکھنا اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے۔
وہ ماؤں کو شدید تکالیف کے عالم میں اپنے بچوں کے ساتھ ہنستا اور مریضوں کو مسکراہٹ اور امید کے ساتھ مشکلات جھیلتا دیکھ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امدادی کارکن کی حیثیت سے ان کا کام لوگوں کو علاج اور مادی مدد کی فراہمی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امید جگاتے ہیں، انہیں نفسیاتی مدد فراہم کرتے ہیں اور مشکلات کا مضبوطی سے سامنا کرنے کی ہمت دلاتے ہیں۔
اخلاقی و امدادی فریضہامدادی کارکنوں کے عالمی دن پر ڈاکٹر یونس ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے خطرات سے دور جانے کے بجائے لوگوں کو مدد پہنچانے کی خاطر ان کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ امدادی کارکن دوسروں کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔غزہ سمیت ہر جگہ امدادی کارکن اس بات کی گواہی ہیں کہ ہمدردی کی کوئی حدود نہیں ہوتیں اور انسانی یکجہتی دوران جنگ یا ملبے پر بھی فروغ پا سکتی ہے۔
ڈاکٹر یونس کو امید ہے کہ وہ بہت جلد اپنے خاندان سے دوبارہ ملیں گے۔ وہ پیغام دیتے ہیں کہ امدادی کام محض پیشہ نہیں بلکہ اخلاقی اور امدادی فریضہ بھی ہے۔ انہوں نے دو سال سے اپنے اہلخانہ کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ اس کام پر یقین رکھتے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ امدادی کارکن ڈاکٹر یونس کہ امدادی نہیں بلکہ کرتے ہیں انہوں نے لوگوں کو رہے ہیں کے ساتھ کو تحفظ غزہ کے اور ان کام پر ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
مدینہ بس حادثہ: بھارتی خاندان کی ایک ساتھ موت، آخری لمحے کی دردناک کہانی سامنے آئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت کے 35 سالہ شہری سید راشد نے بتایا کہ سعودی عرب جانے والی عمرہ بس کے حادثے میں ان کے 18 قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔ یہ افسوسناک واقعہ مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کے دوران پیش آیا، جس میں 45 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جاں بحق افراد میں راشد کے والدین، 65 سالہ شیخ نصیر الدین، 60 سالہ اختر بیگم، امریکا سے عمرہ پر آئے 38 سالہ بھائی، 38 سالہ بھابھی اور ان کے تین بچے شامل ہیں۔ اس حادثے نے خاندان کو ناقابل تلافی صدمے میں مبتلا کر دیا۔
حادثے کی وجہ ایک آئل ٹینکر تھا جس نے بس سے ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں 42 افراد موقع پر جاں بحق ہوئے۔ یہ واقعہ مقامی اور بین الاقوامی ذرائع میں بڑی خبر کے طور پر سامنے آیا۔
راشد نے کہا کہ وہ 9 نومبر کو حیدرآباد ایئرپورٹ سے اپنے تمام رشتہ داروں کو خدا حافظ کہہ کر بھیج رہا تھا اور بچوں کے ساتھ سب کو ایک ساتھ سفر نہ کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اگر یہ بات مانی جاتی تو کچھ جانیں بچ سکتی تھیں۔ راشد نے کہا کہ یہ آخری ملاقات ہرگز متوقع نہیں تھی، اور اس کی یاد ہمیشہ ان کے دل میں رہے گی۔
اسی حادثے میں ایک اور بھارتی خاندان کے 5 افراد بھی ہلاک ہوئے، جن میں دو سالہ بچے، ساس اور بھانجی شامل ہیں۔ اس واقعے نے متعلقہ خاندانوں میں شدید غم و صدمہ پیدا کر دیا ہے۔
یہ المناک واقعہ سعودی عرب میں عمرہ زائرین کی حفاظت اور بسوں کی نقل و حمل کے معیار پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے، اور بھارت میں دیگر عمرہ زائرین کے خاندان اس خبر سے پریشان ہیں۔