’اس نے بچوں کی ذبح شدہ لاشیں گود میں رکھ کر ویڈیو کال کی‘: کراچی میں ماں کے ہاتھوں قتل بچوں کے والد کا بیان آگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 16 August, 2025 سب نیوز

کراچی (آئی پی ایس)کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں 14 اگست کو پیش آئے ایک دل دہلا دینے والا واقعے نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ اس دن 37 سالہ طلاق یافتہ خاتون ادیبہ خالد نے مبینہ طور پر اپنے دو کمسن بچوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے ضرار اور چار سالہ بیٹی سامعہ کو کچن کے چاقو سے واش روم میں قتل کیا اور بعد ازاں لاشوں کو کمرے میں لا کر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گئی۔


ملزمہ کے سابق شوہر غفران خالد نے دعویٰ کیا کہ بچے والدہ کے پاس رہنے گئے تھے اور 14 اگست کی دوپہر تقریباً ڈھائی بجے ادیبہ نے اسے فون کر کے کہا، ’کیا تمہیں پتا چلا کہ میں نے کیا کیا ہے؟‘ شوہر کے ناں کہنے پر ادیبہ نے ویڈیو کال کی اور دونوں بچوں کی لاشیں دکھائیں۔ غفران خالد نے فوری طور پر مددگار 15 کو اطلاع دی لیکن جب پولیس پہنچی تو بچے قتل ہو چکے تھے۔


ڈی آئی جی ساوتھ سید اسد رضا کے مطابق بچوں کی لاشیں ڈی ایچ اے کے خیابانِ مجاہد کی 10ویں اسٹریٹ پر واقع ایک گھر سے برآمد ہوئیں۔


انہوں نے بتایا کہ واقعہ علیحدگی اور بچوں کی حوالگی کے تنازع کے باعث پیش آیا۔ والدین کی گزشتہ سال طلاق ہو چکی تھی اور عدالت نے بچوں کی حوالگی والد کو دی تھی تاہم ماں کو ملاقات کی اجازت تھی۔ بدھ کی رات بچے اپنی والدہ کے ساتھ ڈی ایچ اے کے گھر میں تھے جہاں یہ افسوس ناک واردات ہوئی۔


پولیس نے خاتون کو گرفتار کر لیا ہے اور واردات میں استعمال ہونے والا چاقو برآمد کر لیا ہے۔
سابق شوہر کے مطابق ملزمہ ذہنی مسائل کا شکار تھی۔ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزمہ اور غفران خالد کی ملاقات 2012 میں کراچی میں ہوئی تھی جس کے بعد شادی ہوئی۔


ادیبہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک تھی اور اس کے والدین بھی علیحدگی کا شکار تھے۔ اس کی تعلیم مکمل نہ ہو سکی اور وہ کبھی کبھار چھوٹے موٹے کام کرتی تھی تاہم کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ملزمہ نے اعترافی بیان میں کہا، ’قتل کے لیے کوئی منطقی یا معقول وجہ نہیں تھی‘، اور وہ اپنا دفاع نہیں کرنا چاہتی۔


ملزمہ نے پولیس کو دیے گئے بیان میںکہا کہ قتل سے قبل صبح کے وقت اس نے اپنے بچوں کو نانی کے ساتھ ناشتہ کرتے دیکھا، بعد ازاں اس نے انہیں ذبح کر دیا۔

ملزمہ نے دعویٰ کیا کہ بچے اسے کہہ رہے تھے کہ ’انہیں کہیں بھیج دو جہاں وہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کریں، جیسی ماں کر رہی ہے۔‘ تاہم جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا بچے والد کے کسی ناپسندیدہ رویے کا شکار تھے تو اس نے وضاحت نہیں کی۔

پولیس کے مطابق ملزمہ ذہنی مسائل کے علاج کے لیے دوائیں لے رہی تھی اور اس نے اپنی معالج خاتون ماہرِ نفسیات کا نام بھی بتایا۔ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ واردات کے وقت وہ ممکنہ طور پر نشہ آور ادویات کے زیرِ اثر تھی۔

پولیس نے خاتون کے خلاف سابق شوہر کی مدعیت میں تھانہ درخشاں میں مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ مقتول بہن بھائی کو ڈیفنس فیز 8 کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ڈی ایم اے نے پختونخوا میں بارشوں سے ہونے والے نقصان کے اعداد و شمار جاری کردیے جےیوآئی کا وفاقی وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور دیگر کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ فیلڈ مارشل کی پاک فوج کو سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے خصوصی ہدایات،پاک فوج کی ایک دن کی تنخواہ اور راشن خیبر پختونخوا کے.

.. عوام کیلئے اچھی خبر، آئندہ 15 روز کیلئے پٹرول کی قیمت برقرار، ڈیزل 12 روپے 84 پیسے فی لیٹر سستا سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل تعاون کا اعادہ، صحت و توانائی منصوبوں کیلئے 121ملین ڈالر کے معاہدے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا علی امین گنڈاپور کو ٹیلیفون، تعاون کی یقین دہانی سینیٹر اعجاز چوہدری کی نااہلی سے خالی نشست پر الیکشن 9ستمبر کو ہوگا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے مطابق نے بچوں بچوں کی لیا ہے

پڑھیں:

اندھی گولیاں، خودکشیاں اور ہلاکتیں

روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق ٹریفک حادثات کے علاوہ گھر بیٹھے، راہ چلتے، ٹرین کی زد میں آ کر لاتعداد ہلاکتیں اورکمسن بچے تک موت کے منہ میں چلے گئے۔

فقیر کالونی میں نامعلوم اندھی گولیوں کی زد میں آ کر آٹھ سالہ بچہ ہلاک، شیر خوار بچی، بلدیہ میں کمسن لڑکا۔ 16 سالہ ارباز زخمی، ٹرین کی زد میں آ کر دو افراد ہلاک ایک زخمی، ناگن چورنگی پل سے گر کر ایک شخص ہلاک جب کہ روزانہ ہونے والے حادثات کا اندازہ سال رواں 697 لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دس ہزار چار سو افراد زخمی ہوئے۔ شہر میں بھاری تیز رفتار گاڑیوں سے دو سو پانچ اور تیز رفتار ٹرالروں کی زد میں آ کر 78 افراد لقمہ اجل بنے جب کہ لیاری ندی میں گر کر ڈوبنے والے بچوں کی تو لاشیں بھی نہیں ملتیں۔ لیاری ندی میں ایک لیڈی ڈاکٹر نے دو ماہ قبل چھلانگ مار کر جان دے دی تھی جس کی لاش اب تک نہیں ملی۔

شہر کے کھلے گٹروں میں بچوں کے ڈوبنے کی کوئی سرکاری تعداد اس لیے موجود نہیں کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کی لاشیں نکال کر دفنا دیتے ہیں۔ شہر میں جو بڑے گندے پانی کے نالے موجود ہیں ان میں آئے دن لاشیں ملنا معمول ہے جہاں لاشیں اتنی مسخ ہو جاتی ہیں کہ پہچان میں نہیں آتیں اور دفنا دی جاتی ہیں۔ لیاری ندی سے نوجوان خاتون کی جب دو ماہ میں لاش برآمد نہ ہو سکے تو بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا، کھلے ہوئے گٹروں میں چھوٹے بچے ڈوب جائیں تو ان کی لاشیں بہہ کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں یا ملتی نہیں، غائب ہو جاتی ہیں۔

کراچی کے سمندر میں نیٹی جیٹی پل سے لوگ چھلانگ مار کر خودکشیاں کرتے ہیں یا نہانے والے اپنی غلطیوں سے سمندر برد ہو جاتے ہیں اور اکثر کی لاشیں برآمد ہی نہیں ہوتیں یا سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتی ہیں جن کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ملتا، نہ کسی کو ریکارڈ رکھنے کی خواہش ہے اور اس طرح کراچی میں لوگ مختلف جگہوں پر حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں جن کی خبریں میڈیا میں آ جاتی ہیں یا بہت سی ہلاکتوں کا پتا ہی نہیں چلتا۔نامعلوم سمتوں سے آنے والی گولیاں کوئی تو چلاتا ہے جس سے اب کمسن بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

یہاں تو سرعام دن دہاڑے فائرنگ کرکے فرار ہو جانے والے ہی کو پولیس گرفتار نہیں کر پاتی تو اندھی گولیاں چلا کر بے گناہوں کو جانی نقصان پہنچانے والے کیسے پولیس کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ دن دہاڑے سرعام لوگوں کو قتل کرنے والے ملزمان باآسانی فرار ہو جاتے ہیں اور ان فرار ہونے والوں کے چہرے سڑکوں کنارے یا گھروں کے باہر لگے سی سی ٹی وی میں آ جاتے ہیں وہ شناخت ہی نہیں کیے جاتے تو پکڑے کیسے جائیں۔ شہر بھر میں پولیس ان کو پکڑنے پر کم ہی توجہ دیتی ہے کیونکہ شہر میں گشت پر مصروف کہلانے والوں کو تھانوں کے محرروں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریڑھی پتھاروں سے بیٹ وصول کرنا ہوتی ہے۔

ہر ہفتے کے روز کباڑیوں کے پاس جا کر خرچہ وصول کرنے کے لیے یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کہاں گھر بنائے جا رہے ہیں یا چھتوں کی بھرائی کی جگہ پہنچ کر مٹھائی وصول کرنی ہوتی ہے، کوئی فراہمی و نکاسی آب کے پائپ بدلنے یا نئے ڈالنے والے کے پاس واٹر بورڈ اہلکاروں سے پہلے علاقہ پولیس پوچھ گچھ کے لیے پہنچ جاتی ہے کہ انھوں نے یوسی سے اجازت لی یا نہیں؟روزانہ اخباروں میں خودکشیاں کرنے والوں کی خبریں شایع ہو رہی ہیں اور 18 سال سے کم عمر بچے بھی اب خودکشیاں کر رہے ہیں جن کی وجوہات اکثر والدین ظاہر نہیں کرتے اور اپنے بچوں کی دائمی جدائی پر رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔مہنگائی، بے روزگاری، قرضوں کی ادائیگی کے مسائل کا سامنا کیسے کریں، اس لیے خودکشی کا آسان حل ڈھونڈ لیا گیا ہے، اب خودکشیاں کراچی ہی نہیں چھوٹے شہروں میں بھی ہو رہی ہیں جن سے حکمرانوں کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ حالات سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے والوں کو ان کے اپنے ہی نہیں پوچھتے تو حکومت کو کیا پڑی کہ معلوم کریں کہ ملک میں خودکشیاں کیوں ہو رہی یا بڑھ رہی ہیں؟

حکمرانوں کا کام عیش و آرام سے وقت گزارنا، سرکاری مراعات سے فیض یاب ہونا رہ گیا ہے یا وہ اپنے سرکاری اقدامات سے نئے نئے ٹیکس لگانے، مہنگائی و بے روزگاری اور اپنوں کو نوازنے ہی میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ معلوم کر لیں کہ ان کے اقدامات سے غریبوں پر کیا گزر رہی ہے کیونکہ مختلف وجوہات میں مرنا صرف غریبوں کا مقدر بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: خواتین کے موبائل ہیک کرکے زیادتی کرنے، ویڈیو بناکر بلیک میل کرنیوالا ملزم پکڑا گیا
  • کراچی ، بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑے، 19 سالہ نوجوان قتل،4 ملزمان گرفتار
  • کراچی میں بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑے، 19 سالہ نوجوان چھریوں کے وار سے جاں بحق
  • کراچی، خواتین کے موبائل ہیک کرکے زیادتی کرنے، ویڈیو بناکر بلیک میل کرنیوالا ملزم پکڑا گیا
  • کراچی: ڈیفنس میں نئی نویلی دلہن کی موت پر شوہر کا کزن زیرِ حراست
  • پانچ بچوں کی ماں نے نہر میں چھلانگ لگا دی
  • علیمہ خان کے نام موجودجائیداد کی تفصیل عدالت میں پیش، 11ویں مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
  • علیمہ خان پھر غیر حاضر، جائیدادوں کی رپورٹ عدالت میں پیش
  • اندھی گولیاں، خودکشیاں اور ہلاکتیں
  • چلڈرن ڈے پر سلمان خان کی بچوں سے دل موہ لینے والی ملاقات، ویڈیو وائرل