فوج کی دہشتگردی کے نام پر معصوم عوام کی جان لینے میں دلچسپی نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
فوج کی دہشتگردی کے نام پر معصوم عوام کی جان لینے میں دلچسپی نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر WhatsAppFacebookTwitter 0 16 August, 2025 سب نیوز
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ فوج کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ دہشتگردی کے نام پر معصوم عوام کی جان لے، اگر کوئی شہری دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے یا گھر میں بارودی مواد رکھتا ہے تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
آئی ایس پی آر کے تحت جاری انٹرشپ پروگرام میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست کا انعقاد کیا گیا، نشست کے دوران پاکستان بالخصوص بلوچستان کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے سوالات کے مفصل جواب بھی دیے، بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف بڑے آپریشن کے مطالبے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارے ذہنوں میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے عوام اور نوجوانوں میں پاکستان کے لیے کچھ پنپ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پاکستان اور صوبے کے درمیان تعلق کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، میجر محمد انور کاکڑ شہید ہمارا بہت شاندار آفیسر اور اس دھرتی کا عظیم سپوت تھا، جنہوں نے پہلے بھی پی سی ہوٹل گوادر حملے میں کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، پاکستان کو آزاد رکھنے کیلئے ہر روز فوجی آفیسر، جوان اور شہری قربانی دے رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں آپریشن اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب عوام خود دہشت گردوں کی نشاندہی کریں، ایسا نہیں ہے کہ فوج کسی علاقے کوخالی کرائے، آپریشن کرے، ایسی صورت میں جب فوج واپس جائے گی تو دہشت گرد پھر آجائیں گے، ہمیں بڑی سمجھداری کے ساتھ سب کچھ کرنا ہوگا، اسی لیے اسے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ دہشتگردی کے نام پر معصوم عوام کی جان لے، اگر کوئی شہری دہشتگردوں کو پناہ دیتا ہے یا گھر میں بارودی مواد رکھتا ہے تو اسے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ہمیں بلوچستان کے عوام اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو بھی سامنے لانا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایک شخص کی دہشتگردی کی سزا پورے علاقے یا پورے گاؤں کو نہیں دی جاسکتی، دہشت گردی کیخلاف وہاں کی عوام نے خود کھڑا ہونا ہے اور وہ کھڑے ہو رہے ہیں، بلوچستان کے عوام اب بتا رہے ہیں کہ یہاں دہشتگرد ہیں یہ ان کا سہولت کار ہے، بلوچستان کے عوام بھی اب ان دہشت گردوں سے عاجز اور تنگ آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان جائیں اور دیکھیں کہ بلوچ عوام کس قدر سمجھدار اور دور اندیش لوگ ہیں، سیکڑوں مثالیں سامنے آئی ہیں جو بلوچی بچے پڑھے ہیں، وہ اپنے علاقے اور اپنی تقدیر کے مالک بن چکے ہیں، کیمبرج یونیورسٹی سے بلوچستان کے مایا ناز سائنسدان صمد یار جنگ بلیدہ اسکول کے فارغ التحصیل ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل شاہ زیب رند بھی بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے اور آج اپنی تقدیر کا مالک ہے، بلوچستان کی بچیاں اس وقت ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں، پاکستان تمام لسانی، علاقائی چیزوں سے ہٹ کر کلمہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نبی پاک نے فرمایا تھا کسی عجمی کو عربی، کسی عربی کو عجمی، کسی گورے کو کالے اور کسی کالے کو گورے پر فضلیت نہیں، بلوچستان کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے، اس میں 50 فیصد لوگ بلوچستان نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر حصوں سے رہتے ہیں، بلوچستان میں سارے بلوچ نہیں، 30 فیصد سے زائد پختون ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بلوچ بلوچستان میں رہتے ہیں اس سے زیادہ سندھ کے قبائل اور جنوبی پنجاب میں رہتے ہیں، پاکستان کا مطلب لاالہ الا اللہ، یہ آپ کے اندر رچ بس چکا ہے کیونکہ پاکستان کلمے کی بنیاد پر بنا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسوات: سیلابی ریلے سے مزید 8 لاشیں برآمد، ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی سوات: سیلابی ریلے سے مزید 8 لاشیں برآمد، ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف الیکشن کمشنر اور 2 ارکان کیخلاف شکایات خارج کر دیں ’اس نے بچوں کی ذبح شدہ لاشیں گود میں رکھ کر ویڈیو کال کی‘: کراچی میں ماں کے ہاتھوں قتل بچوں کے والد کا... پی ڈی ایم اے نے پختونخوا میں بارشوں سے ہونے والے نقصان کے اعداد و شمار جاری کردیے ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات یوکرین میں جنگ بندی معاہدے کے بغیر ختم جےیوآئی کا وفاقی وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور دیگر کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: دہشتگردی کے نام پر معصوم عوام کی جان ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر احمد شریف چوہدری بلوچستان کے عوام انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل دلچسپی نہیں فوج کی
پڑھیں:
100روپے رشوت لینے والاملزم39سال بعد باعزت بری
نئی دہلی(انٹرنیشنل ڈیسک) رائے پور کے اودھیا پاڑہ کی تنگ گلیوں میں ایک پرانا، بوسیدہ مکان ہے۔ تقریباً 84 سال کے جگیشور پرساد آودھیا اس گھر میں رہتے ہیں۔
اس گھر کی خستہ حال دیواروں پر نام کی تختیاں چسپاں نہیں ہیں۔ فتح کا کوئی نشان نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ دیواریں بول سکتیں تو یہ کہانی سناتیں کہ کس طرح ایک شخص نے 39 سال تک انصاف کے دروازے پر دستک دی اور آخر کار جب وہ دروازہ کھلا تو زندگی کی اکثر کھڑکیاں بند ہو چکی تھیں۔
غیر منقسم مدھیہ پردیش کے سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے جگیشور پرساد آودھیا کو 1986 میں 100 روپے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اب تقریباً 39 سال بعد عدالت نے انھیں باعزت بری کر دیا ہے۔
نظام کی بے حسی، انصاف میں تاخیر اور انسان کی ٹوٹی ہوئی امیدوں کی علامت بننے والے جگیشور پرساد آودھیا کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ اب بے معنی ہے۔ میری نوکری ختم ہو گئی۔ معاشرے نے مجھ سے منھ موڑ لیا، میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکا، میں ان کی شادی نہیں کر سکا، رشتہ داروں نے مجھ سے قطع تعلقی کر لی، مناسب علاج نہ کروانے کی وجہ سے میری بیوی کی موت واقع ہو گئی ہے۔ اب کیا کوئی مجھے یہ سب واپس دلا سکتا ہے؟‘
وہ کرب سے یہ بات بتاتے ہیں کہ اب ’ہائیکورٹ نے مجھے بے قصور تو قرار دیا ہے مگر عدالت کی طرف سے اس سرٹیفکیٹ کا وزن اس بھاری بوجھ کے مقابلے میں بہت کم ہے جو میں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ 39 سالوں تک اٹھایا ہے۔‘
رشوت لینے سے انکار
جگیشور پرساد آودھیا بات کرتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے برسوں کے غم پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ وہ ایک پرانی فائل کے صفحات دکھاتے ہیں۔ ہر پیلا صفحہ۔۔۔ پھٹے ہوئے یہ صفحے ایک تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں 39 سال کی کہانی درج ہے۔
وہ دھیمی آواز میں کہتے ہیں کہ ’میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن مجھے سب کچھ کھونا پڑا۔ اب میں کس سے کہوں کہ میں نے کچھ نہیں کیا؟ اب کوئی سننے والا نہیں بچا۔ میں نے ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں لگا دی کہ میں بے قصور ہوں۔ اب جب یہ ثابت ہو گیا ہے تو کچھ بھی نہیں بچا۔ میری عمر بھی نہیں ہے۔‘
عدالتی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں بل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے جگیشور پرساد آودھیا کو انسداد بدعنوانی کے ادارے کی ایک ٹیم نے ایک قریبی چوراہے پر مبینہ طور پر 100 روپے رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
جگیشور پرساد آودھیا کا کہنا ہے کہ ’ایک ملازم نے اپنی بقایا ادائیگی کے لیے بل تیار کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا، میں نے اسے بتایا کہ اعلیٰ دفتر سے تحریری ہدایات کے بعد ہی فائل مجھ تک پہنچے گی، اور تب ہی میں بل تیار کر سکوں گا۔ اس کے بعد ملازم نے مجھے 20 روپے رشوت دینے کی کوشش کی۔ میں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی اور اسے دوبارہ دفتر نہ آنے کو کہا‘۔
جگیشور پرساد آودھیا کا دعویٰ ہے کہ ملازم کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے پولیس اہلکار کے والد سے پتا نہیں کیا کہا ہو گا، واقعے کے تیسرے دن جب میں دفتر سے نکل رہا تھا، ملازم میرے پیچھے آیا اور میری جیب میں کچھ ڈال دیا۔
جگیشور پرساد آودھیا کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے کہ میں سوچ پاتا کہ کیا ہوا، سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والوں نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ ہم چوکس لوگ ہیں اور ہم آپ کو 100 روپے رشوت لیتے ہوئے گرفتار کر رہے ہیں۔‘
جگیشور پرساد کا کہنا ہے کہ وہ دن نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے ایک عذاب کا آغاز تھا۔
بچوں کی تعلیم کا خواب ادھورا رہ گیا
اس واقعے کے دو سال بعد جب عدالت میں چارج شیٹ پیش کی گئی تو 1988 میں انھیں معطل کر دیا گیا، وہ 1988 سے 1994 تک معطل رہے، پھر انھیں رائے پور سے ریوا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ تقریباً ڈھائی ہزار روپے کی نصف تنخواہ پر گھر چلانا ناممکن تھا۔
ان کی بیوی اور چار بچے رائے پور میں رہتے تھے، جب کہ جگیشور پرساد آودھیا خود ریوا میں رہتے تھے۔ ترقیاں روک دی گئیں، تنخواہ میں اضافہ روک دیا گیا۔ ایک ایک کر کے چاروں بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑا۔
ان کا چھوٹا بیٹا، نیرج، جو اس وقت صرف 13 سال کے تھے، اب ان کی عمر 52 ہو چکی ہے۔ انھیں افسوس ہے کہ ان کا بچپن وہیں، عدالت کی سیڑھیوں پر اپنے والد کی لڑائی کے دوران ضائع ہو گیا۔
اپنی آنکھوں کے کونوں کو پونچھتے ہوئے نیرج کہتے ہیں، ’مجھے تب رشوت کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا، لیکن لوگ کہتے، ’یہ رشوت لینے والے کا بیٹا ہے۔‘ بچے مجھے چھیڑتے تھے کہ میں سکول میں دوست نہیں بنا سکتا تھا، محلے کے دروازے بند تھے، رشتہ داروں نے تعلق توڑ لیا، فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے مجھے کئی بار سکول سے نکال دیا گیا تھا۔
اوادھیا کی بیوی اندو آودھیا نے یہ سارا بوجھ اٹھایا۔ مگر رفتہ رفتہ وہ بھی اس معاشرتی عذاب کا شکار ہو گئیں اور 24 دن سرکاری ہسپتال میں رہنے کے بعد ایک دن وفات پا گئیں۔ وہ اپنے پیچھے صرف ایک ٹوٹا ہوا خاندان چھوڑ گئی۔
جگیشور پرساد کہتے ہیں، ’میری بیوی کی وفات محض پریشانی کی وجہ سے ہوئی۔ وہ میرے رشوت خوری کے الزامات اور معطلی کی وجہ سے کافی عرصے سے افسردہ تھی، اور اس غم نے اسے توڑ دیا، میرے پاس اس کا مناسب علاج کروانے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن اس کی موت ہوئی، میرے پاس آخری رسومات کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ ایک دوست نے مجھے تین ہزار روپے دیے۔‘
انصاف ملا، باقی سب کچھ کھو گیا
سنہ 2004 میں ٹرائل کورٹ نے جگیشور پرساد کو قصوروار قرار دیا۔ اگرچہ تمام گواہ اپنے بیانات سے مکر گئے تھے لیکن عدالت نے انھیں ایک سال قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
لیکن جگیشور پرساد نے ہمت نہیں ہاری۔ انھوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ یہ مقدمہ 20 سال سے زائد عرصے تک چلا۔
اپنے خاندان کی کفالت کے لیے انھوں نے مختلف کام کیے۔ کبھی ٹریول ایجنٹ بنے تو کبھی بس ڈرائیور کے طور پر کام کیا۔ بڑھاپے میں بھی انھیں روزانہ آٹھ دس گھنٹے کام کرنا پڑا۔ 100 روپے رشوت کے الزام میں انھیں تقریباً 14,000 دن تک تاریک جیل میں قید رکھا گیا۔
پھر 2025 میں وہ دن آیا، جب ہائیکورٹ نے کہا کہ وہ بے قصور ہیں۔
جگیشور پرساد کہتے ہیں کہ ’انصاف مل گیا، لیکن وقت واپس نہیں آیا۔ بیوی واپس نہیں آئی، بچوں کا بچپن واپس نہیں آیا۔‘
’عزت؟ شاید وہ بھی واپس نہ مل سکی۔‘
جگیشور پرساد، جو اپنے دکھ اور درد کو بھی مسکراہٹ کے ساتھ بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اب ان کی زندگی میں صرف تھکاوٹ باقی رہ گئی ہے، اور یادیں دکھ سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں پھڑپھڑاتے عدالتی فیصلوں کے صفحات اب محض دستاویزات ہیں، زندگی کی وہ کتاب جس میں آدمی اپنا مستقبل لکھنا چاہتا تھا، بہت پہلے بند ہو چکی ہے۔
کیا کوئی معاوضہ ماضی کو واپس لا سکتا ہے؟
ہائیکورٹ کی وکیل پرینکا شکلا کہتی ہیں کہ جگیشور پرساد اس معاملے میں ہرجانے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پیسہ اس ٹوٹی ہوئی زندگی کو ٹھیک کر سکے گا؟ کیا کوئی معاوضہ ماضی کو واپس لا سکتا ہے؟ جگیشور پرساد کی کہانی صرف ایک شخص کا المیہ نہیں ہے، یہ ہمارے عدالتی نظام کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے، جو تاخیرِ انصاف کو بھی ناانصافی سمجھتا ہے۔۔ اور جب فیصلہ آتا ہے، بہت کچھ کھو چکا ہوتا ہے۔‘
پرینکا کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں پرانے مقدمات کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت ہونی چاہیے اور ان میں انصاف کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تاکہ لوگوں کو جگیشور پرساد آودھیا جیسی صورتحال سے نہ گزرنا پڑے۔
جگیشور پرساد کے مقدمے میں فیصلہ 39 سال بعد آیا ہے، لیکن چھتیس گڑھ میں ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں برسوں سے کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
چھتیس گڑھ کی مختلف عدالتوں میں گذشتہ 30 سالوں سے ایسے سینکڑوں کیس زیر التوا ہیں۔ کچھ مقدمات تقریباً 50 سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں، اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چھتیس گڑھ ہائیکورٹ میں آج تک 77,616 مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے 19,154 مقدمات پانچ سے 10 سال کے درمیان ہیں۔ 10 سے 20 سال کی عمر کے کیسز کی تعداد 4,159 ہے۔ مزید 105 مقدمات 20 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔
سرگوجا، بلاس پور، بلودابازار اور درگ ایسے اضلاع ہیں جہاں کچھ مقدمات مقامی عدالتوں میں 30 سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں۔
نہ شکایت کرنے والا بچتا ہے نہ ملزم
تارابائی بمقابلہ بھگوان داس کیس 1976 سے درگ ضلع کی مقامی عدالت میں زیر التوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کیس تقریباً 50 سال سے چل رہا ہے۔ نہ تو تارا بائی، جس نے مقدمہ درج کیا تھا، نہ بھگوان داس، جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، زندہ ہیں۔ تاہم، کیس زیر التوا ہی رہتا ہے۔
اسی طرح ایک مقدمہ سرگوجا ضلع کے امبیکاپور کی مقامی عدالت میں 1979 سے یعنی 46 سال سے زیر التوا ہے۔
نند کشور پرساد بمقابلہ جگن رام اور دیگر کے اس کیس کے بارے میں آن لائن دستیاب معلومات کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں یعنی 2015 سے 2025 کے دوران 291 بار تاریخیں دی جا چکی ہیں، لیکن ابھی تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
ایک بار حتمی فیصلہ آنے کے بعد اسے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقدمہ کئی سالوں تک وہاں زیر التوا رہ سکتا ہے۔
چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس یتندرا سنگھ نے افسوس کا اظہار کیا کہ چھتیس گڑھ کی عدالتوں میں اتنے عرصے سے مقدمات زیر التوا ہیں۔
انھوں نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی کئی وجوہات ہیں: فائدہ اٹھانے والی پارٹی نہیں چاہتی کہ مقدمات کا فیصلہ ہو۔ دوسرا، جج بھی پرانے مقدمات کو نہیں چھیڑتے جب تک کہ کسی فریق، چیف جسٹس یا قائم مقام جج کے ذریعے ایسا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔‘
جگیشور پرساد اب چاہتے ہیں کہ حکومت کم از کم انھیں ان کی پنشن اور واجبات ادا کرے۔ انھیں کوئی انصاف نہیں چاہیے، بس یہ راحت کہ جن ہاتھوں نے ساری زندگی اتنی محنت کی ہے وہ اب بھیک مانگنے کے لیے نہ اٹھ سکیں۔