Islam Times:
2025-10-04@20:29:31 GMT

زائرین پر پابندی ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

زائرین پر پابندی ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

اسلام ٹائمز: زائرین پر پابندی سے دہشت گردوں کے مقابلے میں ریاست کی رِٹ مزید کمزور ہوئی ہے۔ اگر ریاست اپنے تافتان و ریمدان کے راستے کو زائرین کیلئے محفوظ اور فعال بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس سے نہ صرف ہماری سیکیورٹی فورسز مضبوط ہونگی بلکہ ان مناطق میں حکومتی رِٹ بھی عملاً دکھائی دے گی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تافتان و ریمدان بارڈرز کو بند کرنے کے بجائے ملک کو درپیش اسٹرٹیجک چیلنجز کا شفافیّت کے ساتھ مؤثر مقابلہ کیا جائے۔ اگر اسٹرٹیجک چیلنجز کو حل کرنے میں شفافیّت نہ ہو تو پھر ہر اینٹ کے نیچے میر جعفر اور ہر پتھر کے نیچے میر صادق چھپا ہوا ہوتا ہے اور ایسے میں وطن کا تحفظ ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ہم نے کئی سال پہلے زائرین کے مسائل کو سنجیدگی سے اٹھانا شروع کیا تھا۔ ہمارے نزدیک تافتان روٹ پر زائرین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک نہ صرف پاکستانی تہذیب و ثقافت کی تضحیک تھا بلکہ یہ آئین کے بھی خلاف تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں متعدد تحریری درخواستیں لکھیں، آن لائن سیشنز منعقد کیے، اور حکومتی اداروں تک اپنی تجاویز پہنچائیں۔ ہمارے تمام تر کوششوں کے باوجود، ہماری آواز  بدقسمتی سے نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔ جب ہم اپنی آواز بلند کر رہے تھے تو بعض احباب ہمیں خاموش کرانے کے لئے ریمدان بارڈر کی "خوشخبری" سنایا کرتے تھے، گویا تافتان کو چھوڑ کر ریمدان سے سفر کرنا اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ سچ کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے سماج کیلئے زبان نہیں ہِلا سکتے وہ اپنے سماج کے مسائل بھی حل نہیں کر سکتے۔

زائرین کے مسئلے پر کئی اہم شخصیات کی زبان پر تالے پڑے رہے۔ اسے مصلحت پسندی، غفلت، چاپلوسی، خوشامد یا سادہ دلی، جو بھی کہہ لیں یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج زائرین کیلئے پاکستان کے دونوں بارڈر بند کر دیے گئے ہیں۔ کبھی کبھار جب کسی کے ساتھ بہت زیادہ ہتک آمیز سلوک ہوتا تھا تو اُس کے شور ڈالنے سے کچھ دن سوشل میڈیا پر کوئی احتجاجی پوسٹ چلتی تھی، کبھی کبھار کوئی بول پڑتا تھا اور بس۔ اس مسئلے کے حل کو قومی سطح پر کسی  ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ خیر اب مسئلہ اگر  دہشت گردی کا ہے تو صرف زائرین پر ہی پابندی کیوں؟ اور مسئلہ اگر حکومتی رٹ کا ہے تو وہ تو زائرین پر پابندی کے باوجود کیوں قائم نہیں ہو رہی؟

13 اور 14 اگست 2025ء کی درمیانی شب خیبر پختونخواہ میں پولیس اسٹیشنوں اور چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا کہ ریاستی اداروں کی جغرافیائی اور عسکری پوزیشنیں دہشت گردوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں۔ ان حملوں کی نوعیت اور وقت نے واضح کیا کہ دہشت گرد گروہ نہ صرف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ریاستی طاقت کو چیلنج کرتے ہوئے مقامی سطح پر اپنی حکمت عملیوں کو کامیاب بنا رہے ہیں۔

بلوچستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں کی جغرافیائی ساخت اور قبائلی نظام نے حکومتی رٹ کو مزید کمزور کیا ہے، اور مقامی سطح پر حکومت کی موجودگی تقریباً مفقود ہو چکی ہے۔ دہشت گرد گروہ اور شدت پسند عناصر صوبے کے مختلف حصوں میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جس کا اثر پورے ملک کی سیکیورٹی پر پڑ رہا ہے۔ بلوچستان کے علاقے اور خیبر پختونخواہ کے سرحدی علاقے، جہاں ماضی میں ہمارے  ریاستی اداروں نے اپنے "مجاہد بھائیوں" کی جتھہ سازی کے مراکز بنائے تھے، وہی مراکز اب ملک و قوم کے خلاف کارروائیاں کرنے کے ٹھکانے بن چکے ہیں۔

دہشت گردوں نے یومِ آزادی جیسے اہم دن کو اپنی کارروائیوں کے لیے چنا تاکہ وہ نہ صرف عوامی سطح پر خوف و ہراس پیدا کریں بلکہ ریاستی رٹ کو چیلنج بھی کریں۔ ان حملوں کا مقصد حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کو اجاگر کرنا اور متعلقہ اداروں کی پروفیشنل تربیّت کو بے نقاب کرنا تھا۔ حملوں کے وقت اور دائرہ کار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ ہماری حکومتی فورسز کے مقابلے میں ایک بہترین و منظم حکمت عملی کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک اور اہم علامت یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ پشاور، لوئر دیر، دیر بالا اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے آپریشنز کو مؤثر طریقے سے نہ تو منظم کر پا رہے ہیں اور نہ ہی مقامی سطح پر عوامی حمایت حاصل کر پا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہ اپنی مرضی کے مطابق کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، اور ریاست کی عملداری مزید دھندلی پڑتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں حکومتی رٹ کے خاتمے کا اثر صرف سیکیورٹی فورسز اور عوامی اعتماد تک محدود نہیں رہا۔ اس کا نفسیاتی اثر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنے ہی علاقوں میں اپنی عملداری کو قائم نہیں رکھ پا رہی، تو ان میں حکومتی اداروں کے خلاف شک و شبہات بڑھتے ہیں اور وہ شدت پسند گروپوں کی حمایت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ نفسیاتی جنگ صرف فورسز کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے لیے ایک خطرہ ہے۔

اس صورتحال میں حکومت کے لیے ایک ٹھوس اسٹرٹیجک پلاننگ کی ضرورت یہ ہے۔ ایک ایسی پلاننگ جس کے تحت حکومتی اداروں اور عوام کے درمیان تعلقات مضبوط  اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز مؤثر ہوں۔ اس کے لیے حکومت کو سیکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان دوستی کے رشتے کو فروغ دینے کے لیے پروفیشنل ٹریننگ  پروگرامز شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے تربیتی پروگرامز جو عوام کو سیکیورٹی فورسز کے کام کاج، ان کے مقاصد اور حکومتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ عوام میں سیکورٹی عملے کے بارے میں ایک مثبت اور تعمیری جذبہ پیدا ہو۔ اسی طرح سیکیورٹی فورسز کو بھی عام  آبادی کے ساتھ مؤثر روابط کے طریقے سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عوام میں موجود بدگمانیوں اور بے اعتمادی کو دور کر سکیں۔

ہمیں امید ہے کہ عوام کو سرکاری اداروں سے قریب کرنے سے عوامی حلقوں میں شکوک و شبہات کو کم کرنے اور دہشت گردوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں تمام سرکاری اداروں کے بارے میں عوام سے فیڈبیک حاصل کرنے اور ان کی مشکلات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے دلوں کو جیتنے کیلئے ہر جگہ مقامی سطح پر سرکاری اداروں کی اصلاح  کو اہمیت دی جانی چاہیئے۔ عوام اور سرکاری اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا کیلئے  عوامی سطح پر سروے، جلسے، آنلائن سیشنز، کانفرنسز، ملاقاتوں، اور شکایات کی وصولی  کا  انتظام و اہتمام کیا جانا چاہیئے۔

عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو مقامی کمیونٹی  اور شکایت کنندگان کے ساتھ زیادہ قریبی روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی ضروریات اور مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کی جا سکے اور فوری طور پر ان پر کارروائی کی جا سکے۔ اس سے نہ صرف عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی عدمِ اعتماد کی فضا کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

اگر حکومت فوری طور پر اس بحران کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آگے چل کر یہ دونوں صوبے، اور بالخصوص ان کے سرحدی علاقے، ریاستی عملداری سے مکمل طور پر باہر ہو سکتے ہیں، جس سے نہ صرف داخلی سلامتی کی صورت حال مزید سنگین ہوگی، بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی سیکیورٹی کی قابلیت پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ نیز دہشت گرد گروہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے، جس کا اثر پورے ملک کی قومی سلامتی پر پڑے گا۔

ان مسائل کے حل کے لیے حکومت کو اپنی سیکیورٹی حکمت عملی میں فوری تبدیلی لانی چاہیئے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں فورسز کی پروفیشنل اور پبلک ریلیشن کی استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر نظارت و نگرانی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں پولیس کی تربیت اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ، مقامی عوام کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت قائم کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بلوچستان میں مقامی سطح پر سیاسی و اقتصادی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مقامی آبادی کو حکومت پر اعتماد ہو اور وہ شدت پسندی کے بیانیے سے ہٹ کر ریاست کے ساتھ جڑ سکے۔

زائرین پر پابندی سے دہشت گردوں کے مقابلے میں ریاست کی رِٹ مزید کمزور ہوئی ہے۔ اگر ریاست اپنے تافتان و ریمدان کے راستے کو زائرین کیلئے محفوظ اور فعال بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس سے  نہ صرف ہماری سیکیورٹی فورسز مضبوط ہونگی بلکہ ان مناطق میں حکومتی رِٹ بھی عملاً دکھائی دے گی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تافتان و ریمدان بارڈرز کو بند کرنے کے بجائے ملک کو درپیش اسٹرٹیجک چیلنجز کا شفافیّت کے ساتھ مؤثر مقابلہ کیا جائے۔ اگر اسٹرٹیجک چیلنجز کو حل کرنے میں شفافیّت نہ ہو تو پھر ہر اینٹ کے نیچے میر جعفر اور ہر پتھر کے نیچے میر صادق چھپا ہوا ہوتا ہے اور ایسے میں وطن کا تحفظ ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی یہی کہا تھا اور آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ زائرین ہمارا قومی اثاثہ ہیں، یہ ہمارے ملک میں روحانیت، نیکی، تربیّت، تجارت، معیشت اور ترقی کا وسیلہ ہیں، ان کی قدر کیجئے۔ ہماری اوّل  دِن سے یہی بات ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: زائرین پر پابندی کرنے کی ضرورت ہے اسٹرٹیجک چیلنجز کی ضرورت ہے تاکہ سیکیورٹی فورسز خیبر پختونخواہ سرکاری اداروں دہشت گردوں کے میں کامیاب ہو دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں بلوچستان میں کے بارے میں کے نیچے میر میں حکومتی کو حل کرنے کہ ریاستی میں حکومت فورسز کے حکومتی ر کے ساتھ عوام کے کرنے کے رہے ہیں یاد ہو کیا جا کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

خطبہٴ نکاح کا پیغام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہمارے ہاں نکاح کی مجالس میں خطبہ نکاح پڑھنے کی سنت ادا ہوتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطبے میں کیا کہا جارہا ہے اس کا بالکل بھی پتا نہیں ہوتا، حالانکہ اس کا سمجھنا خود عائلی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔

خطبہ نکاح کا حکم
خطبہ نکاح کا مجلس میں پڑھنا سنت عمل ہے اور خطبے کا سننا واجب ہے، اسی لیے اس دوران بات چیت کرنا یا شور مچانا انتہائی بے ادبی کی بات ہے۔

خطبہ نکاح کی تاریخ
خطبہ نکاح کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے، اہل عرب کے ہاں بھی نکاح سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا تھا، لیکن اس میں وہ اپنے خاندان، قبیلے اور آباؤ اجداد کے مناقب بیان کیا کرتے تھے، لیکن جب آپ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپ نے دیگر امور کی طرح خطبۂ نکاح کے مندرجات کو بھی تبدیل فرمادیا اور اس میں حمد باری تعالیٰ، رسالت و شہادت، قرآن کریم کی منتخب آیات و روایات کا ایسا حسین مجموعہ جمع فرمایا کہ یہ خطبہ زوجین اور فریقین کے لیے عائلی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت پیغام بن گیا جس میں گراں قدر ہدایات موجود ہیں۔

مضمون کا مقصد
عام طور پر ہمارے ہاں جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ اور مختصر سی تشریح پیش خدمت ہے، تاکہ اس خطبے کو سننے سمجھنے کا رواج پیدا ہو اور عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
خطبے میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کی تعریف اور شہادت رسالت کا بیان ہوتا ہے۔

مسلمان کی نظریاتی اساس
خطبے کے اس حصے میں اس سبق کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نظریاتی طور پر دو چیزوں کو سب سے پہلا درجہ دیتے ہیں:

1۔ توحید
2۔ رسالت
توحید یعنی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور تمام قسم کی تعریف اسی ایک ذات کے لیے ہے، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا، انسان کو پیدا فرمایا، زندگی موت، نفع نقصان، صحت بیماری، مالداری فقر فاقہ، اولاد و نعمت، ہدایت گمراہی، وغیرہ، سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اسی لیے ہمیں یقین اور بھروسہ ہے کہ دنیاو آخرت میں ہماری بخشش، معافی تلافی فقط وہی ذات کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری نظریاتی اساس یہ ہے کہ وہ اپنا پیغام انبیا کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور انہی انبیا کے سنہری سلسلے کی آخری کڑی آپ علیہ السلام کی ذات مبارک ہے، جو سید البشر، رحمت للعالمین اور ختم نبوت کا تاج لے کر آئے اور ان سے محبت اور ان کا طریقہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک قابل عمل و ناگزیر ہے۔

شادی اور تقوی
اس کے بعد خطبے میں قرآن کریم کے تین مختلف مقامات سے آیات پڑھی جاتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں آیات میں ”تقوی“ کا ذکر ہے۔ اس کی حکمت علما یہ بیان فرماتے ہیں کہ تقوی کا مطلب اللہ کا خوف و ڈر، خشیت الہی، قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہے اور جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو تب تک انسان کسی رشتے کو نبھا نہیں سکتا اور میاں بیوی چونکہ ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عرصے میں مزاج کا اختلاف عین ممکن ہے، اس اختلاف کے ساتھ ساری زندگی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اللہ رب العزت کی نگرانی اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے، یہ ہوا تو پھر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے گا کہ میرے کسی رویے سے وہ عظیم ذات، جو مجھے ہر آن ہر لمحہ دیکھ سن سمجھ رہی ہے، کہیں میری گرفت نہ کردے اور اس احساس میں آکر ہی زوجین ایک دوسرے کے جانی مالی حقوق کی پروا کرسکتے ہیں اور اگر یہ نہ رہے تو کوئی خاندان کا سربراہ، انجمن، پنچائت، کورٹ کچہری ان کو مکمل پابند نہیں کرسکتا۔

خاتمہ بالخیر کی فکر اور طریقہ
سب سے پہلی آیت میں بیان فرمایا۔ ترجمہ: ”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے“ (آل عمران)۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہیں ہر گز موت نہ آئے، مگر اسلام کی حالت میں۔ یعنی اپنے خاتمہ بالخیر کی فکر کرو اور ایک دوسری روایت میں خاتمہ بالخیر کا طریقہ یوں سمجھایا کہ: جیسے تم زندگی گزارتے ہو ویسے تمہیں موت آئے گی اور جیسے تمہیں موت آئے گی ویسے ہی تمہیں اٹھایا جائے گا اور تمہارا حشر ہوگا (روح البیان)۔
یعنی دارومدار سارا کا سارا آج کے عمل پر ہے، اگر کسی کا حال درست ہے تو خاتمہ بالخیر کا مستقبل بھی درست رہے گا اور اس سے آگے کی منزل بھی پار لگ جائے گی، لیکن آج متاثر ہے تو ہر طرح کا مستقبل خطرے میں ہے۔
اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین اپنے حالیہ رویے پر خصوصی نظر رکھیں اور مادی مستقبل کی جستجو کے علاوہ اپنے ایمانی مستقبل کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں۔

تخلیق انسانی کا تسلسل
دوسری آیت میں فرمایا۔ ترجمہ: ”لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیے اور اللہ سے ڈرو ،جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو، بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے“ (النساء )۔
یہاں آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے ان کی تخلیق کا نقطہ آغاز بیان فرمادیا کہ تمہیں آدم علیہ السلام، جو کہ پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں، ان سے پیدا فرمایا اور وہ تمہارے آباو اجداد میں اول کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی سے تمہاری اول ماں بی بی حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے پوری انسانیت کی تخلیق کا ذریعہ بنا اور سمجھادیا کہ تم اس سرزمین میں کیسے آئے اور کہاں سے آئے، ساتھ میں اشارہ فرمادیا کہ اب تم نکاح کے ذریعے اسی سلسلے کا حصہ بننے جارہے ہو۔

رشتے داروں کا مقام
اس کے ساتھ رشتے داروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے خاص طور پر ڈرو، کیونکہ اب تم بھی ان رشتوں کا حصہ بن چکے ہو، ایک فرد سے جوڑے میں اور جوڑے سے فیملی اور فیملی سے ایک خاندان کا حصہ بننے جارہے ہو اور خاندان میں تم اور تمہارے والدین بیوی بچوں کے علاوہ بھی ایک خوب صورت رشتوں کا گل دستہ موجود ہے، ان کے حقوق کی خصوصی رعایت کرنا، خودغرضی کا شکار مت ہوجانا، ان کے ساتھ اپنے رویے کو درست کرلینا۔

سچائی کا رشتہ
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اس نے بڑی کام یابی پائی“ (احزاب)۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ سیدھی سچی کھری اور دوٹوک بات کرنے کی عادت پیدا کرو۔ انسان زندگی میں بہت سے معاملات اور لین دین کرتا رہتا ہے، لیکن نکاح کا معاملہ چونکہ ساری زندگی ساتھ رہے گا اسی لیے اپنی زبان کی خبرگیری کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے زبان کا ٹھیک استعمال کیا تو یہ رشتہ ایک خوب صورت تعلق میں بدل جائے گا اور اگر تم نے زبان کو قابو میں نہ رکھا تو پھر یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جو روایات عام طور پر خطبے میں پڑھی جاتی ہیں ان میں سب سے پہلی اور معروف روایت یہ ہے۔

نکاح کی عالی نسبت
النکاح من سنتی (ابن ماجہ)، ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے۔
فمن رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری)، ترجمہ: جس نے میرے طریقے کو نظر انداز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ یہ میرا طریقہ ہے اور آپ کا اتنا کہنا ہی اس عمل کے ضروری اور اہم ہونے کے لیے کافی ہے ،کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو آپ کا طریقہ ہے وہ یقینا کامیابی کا طریقہ ہے ۔

امت کے نوجوان
دوسری روایت میں فرمایا۔ ترجمہ: اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے (مسلم)۔
اس روایت میں آپ کے مخاطب امت کا نوجوان طبقہ ہے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نکاح بھرپور جوانی میں ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو! اگر مالی پوزیشن ضرورت کی حد تک درست ہے تو ضرور نکاح کرو، اس سے تمہیں دو فائدے حاصل ہوں گے:

1۔ نگاہ کی حفاظت
2۔ شرم گاہ کی حفاظت
نکاح کے فوائد
نکاح کے فوائد میں آپ نے نکاح کا مقصد بھی ذکر فرمادیا۔ چونکہ نوجوان اپنے شباب اور جذبات میں جی رہا ہوتا ہے اور اس کے پاس خدا کی دی ہوئی صحت کی نعمت اپنے جوبن میں ہوتی ہے تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس نعمت کا کہیں غلط استعمال کر بیٹھو اور اپنی صحت اور جوانی کو نقصان پہنچادو، تمہارے ارد گرد فحاشی کے مناظر، خواتین کا جال، موبائل کی سہولت یہ سب تمہیں اپنی قوت کو غیر فطری خرچ کی دعوت دے سکتے ہیں ،اسی لیے تمہارے لیے نکاح ضروری ہے، تاکہ تمہاری قوت صحیح وقت پر صحیح جگہ لگ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا ذکر خاص طور پر فرمایا، نگاہ اور شرم گاہ، یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، نگاہ کی غلطی شرم گاہ کی غلطی پر ختم ہوا کرتی ہے۔ اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہ نوجوان کے قیمتی جذبات کو ضائع کرنے کی راہ یہیں سے کھلتی ہے اور جب نکاح نہ ہو تو یہ دونوں سرپھرے آوارہ بن جاتے ہیں اور جب نکاح ہوجائے تو ان کی نگرانی آسان ہوجاتی ہے۔

رشتہ کرنے کا طریقہ
تیسری روایت میں فرمایا کہ: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا (ترمذی)۔
رشتہ کرنا کا ایک سنہری اصول بیان فرمایا کہ جب رشتہ کرو تو دو چیزیں خاص طور پر پرکھ لیا کرو۔

1۔ دین داری
2۔ اخلاق
جس مرد میں یہ دو جوہر پائے جائیں تو رنگ صورت، مال و متاع کی جنجھٹ مت پالو، بلکہ اللہ کا نام لے کر ہاں کردو، کیوں کہ دین داری ہوگی تو ایسا شخص ایمان، صوم و صلاۃ، رویہ سلوک، لین دین اور حقوق کا خیال رکھنے والا ضرور ہوگا اور ایسا رشتہ ملنا ایک غنیمت ہے۔
ساتھ میں تنبیہ فرمائی کہ ایسا رشتہ کسی مادی سبب کی وجہ سے اگر ٹھکرانے کا رواج بڑھ گیا تو معاشرہ فساد کا شکار ہوجائے گا۔

دین دار خاتون
چوتھی روایت میں ذکر فرمایا کہ: عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) (بخاری)۔
فرمایا کہ عام طور پر لڑکی کے انتخاب میں حسن و جمال، مال و دولت اور خاندانی وجاہت کو دیکھا جاتا ہے، جب کہ اصل چیز دین داری ہے، کیوں کہ باقی ساری چیزیں فانی ہیں اور زندگی کا سکون حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہیں، جب کہ دین داری اصل ہے اور زندگی بھر کا سکون دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے اور ایک دوسری روایت میں عورتوں کی دین داری کا مختصر اور خوب صورت نقشہ پیش کردیا فرماتے ہیں: جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، اپنے ماہ (رمضان) کا روزہ رکھ لے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرلے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں، اس کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے، داخل ہوجا (رَوَاہُ أَبُو نعیم فِی الْحِلْیة)۔

مولاناعبدالمتین

متعلقہ مضامین

  • قائم مقام صدر سردار ایاز صادق نے — خضدار میں 14 دہشت گرد ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • خضدار میں سکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، فتنۃ الہندوستان کے 14 دہشتگرد ہلاک، 20 سے زائد زخمی
  • خضدار میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، فتنہ الہندوستان کے 14 دہشتگرد ہلاک
  • خضدار میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن، فتنتہ الہندوستان کے 14 دہشتگرد ہلاک، 20 سے زائد زخمی
  • بلوچستان: سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں فتنہ الہندوستان کے 14 دہشتگرد ہلاک
  •  شیرانی میں سیکیورٹی فورسز کی بڑی کارروائی,بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد شیرانی میں انجام کو پہنچ گئے
  • بلوچستان کے ضلع شیرانی میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 7 دہشتگرد ہلاک
  • سیکیورٹی فورسز کا بلوچستان میں آپریشن، 7 بھارتی سرپرست یافتہ دہشتگرد ہلاک
  • بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، بھارتی حمایت یافتہ 7 دہشتگرد ہلاک
  • خطبہٴ نکاح کا پیغام