Islam Times:
2025-11-19@04:27:50 GMT

غزہ میں بچوں کیلئے کوئی مقام بھی محفوظ نہیں، یونیسیف

اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT

غزہ میں بچوں کیلئے کوئی مقام بھی محفوظ نہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینی بچے ہر روز پناہ گاہوں میں، سڑکوں پر اور یہانتک کہ خوراک، پانی اور طبی امداد کی تلاش میں بھی مسلسل قتل کئے جا رہے ہیں! اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) نے تازہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی بچے ہر روز جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور مسلسل زخمی ہو رہے ہیں۔ اپنے بیان میں فلسطینی بچوں کی جانوں اور ان کے تحفظ کو ترجیح دینے پر زور دیتے ہوئے یونیسف نے لکھا کہ غزہ کی پٹی میں بچوں کے لئے کوئی مقام بھی محفوظ نہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے بیان میں یونیسیف نے لکھا کہ غزہ میں ہر روز کمسن بچے قتل اور زخمی ہو رہے ہیں، چاہے وہ کہیں بھی ہوں؛ ان کے خلاف انسانیت سوز تشدد جاری ہے جبکہ انسانی امداد انتہائی ناکافی ہے! بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی نے تاکید کی کہ غزہ کے بچوں کو اب مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے!
  یونیسیف نے لکھا کہ فلسطینی بچوں کو ان اسکولوں تک میں مسلسل قتل کیا جا رہا ہے کہ جنہیں "پناہ گاہوں" میں تبدیل کیا گیا تھا درحالیکہ وہ باہر کھیل رہے ہوتے ہیں یا خوراک، پانی و غذائی اشیاء کے حصول کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یونیسف نے مزید لکھا کہ غزہ کے بچوں کو حتی طبی امداد کے حصول کے دوران بھی (بمباری کے ذریعے) قتل کر دیا جاتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک جاری غاصب و سفاک اسرائیلی رژیم کی انسانیت سوز جنگ میں غزہ کے 2 لاکھ 17 ہزار سے زائد شہریوں کو قتل و زخمی کیا جا چکا ہے جن میں زیادہ تر تعداد بچوں و خواتین کی ہے۔ علاوہ ازیں اس انسانیت سوز اسرائیلی جنگ میں اب تک 9 ہزار سے زائد فلسطینی شہری لاپتہ بھی ہو چکے ہیں جبکہ غزہ کی 90 فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے بچوں بچوں کے رہے ہیں لکھا کہ کہ غزہ

پڑھیں:

کیا نظام بدل گیا ہے؟

27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔

قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔

اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔

کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔

دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔

افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔

اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔

عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردی، مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے، محسن نقوی: پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین، قائم مقام امریکی سفیر
  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • بچے میری ریڈلائن، جنسی استحصال اور تشدد قبول نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے، امریکی قرارداد پر چین و روس کا سخت اعتراض
  • ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب  
  • کراچی کی کوئی جگہ محفوظ نہیں ٗپارکس‘ گراؤنڈز وسرکاری زمینیں مافیا زکے رحم و کرم پر ہیں ٗ منعم ظفر