موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
پاکستان کئی قسم کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ہم اہم اور حساس نوعیت کے معاملات پر وہ توجہ نہیں دے پا رہے جو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ان میں ایک انتہائی اہم مسئلہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ہے۔
عالمی سطح پراس مسئلہ پر بہت زیادہ بات کی جارہی ہے اور ہمارے جیسے ملکوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ ان کی قومی پالیسی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل اور ان کا حل قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔اس وقت پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب کی بہت زیادہ تباہ کاریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ادھر کراچی میں صرف ایک دن کی شدید بارش کے نتیجے میں شہر کی سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں میں تبدیل ہوگئیں اور معمولات زندگی معطل ہوگئے، یہ مناظر تشویش ناک ہیں۔
جیسے جیسے ملک میں بارشیں یا سیلاب کے معاملات سامنے آرہے ہیں یا اس کے نتیجے میں جو تباہی کے مناظر دیکھنے کو ہمیں مل رہے ہیں، اس سے نہ صرف ملک میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے وہیں حکومت کی سطح پر مختلف طرز کی ناکامیوں اور ان کی نااہلیوں پر بھی ماتم کیا جا رہا ہے۔ وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتی ڈھانچوں یا اداروں میں موثر ہم آہنگی نہ ہونا یا موثر رابطہ کاری کا فقدان بھی دیکھنے کو ملا ہے۔
ایک طرف بادل کے پھٹنے کے معاملات پر ماہرین کی گفتگو ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں اور ادارے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اس طرح کی گفتگو کررہے ہیں تاکہ معاملات کو محض قدرتی یا خدائی آفت کے طور پر پیش کرکے اپنی نااہلی کو چھپایا جائے ۔کیونکہ کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ بارشیں غیر معمولی طور پر زیادہ ہوئی ہیں اوراس تناظر میں ہماری توجہ کمزور تھی اور ہم آنے والی صورتحال کا بہتر طور پر تجزیہ ہی نہیں کرسکے کہ اگر شدید بارشیں ہوتی ہیں تو ہم ان حالات سے کیسے نمٹیں گے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور اداروں کی حکمت عملی اور تیاری ردعمل یعنی حادثات یا سانحات وقوع پذیر ہونے کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔یہ ہی ہماری کمزوری ہے کہ ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں یا بارش سمیت سیلاب سے نمٹنے کے لیے کوئی قومی ،صوبائی یا مقامی سطح پر ایسا مشترکہ اور باہمی رابطوں کا میکنزم یا فریم ورک یا عملدرآمد کا موثر اور شفاف نظام نہیں اختیار کیا جو ہماری لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم سطح کی حکمت عملیوں کو واضح کرسکے ۔
ہم نے قومی سطح پر ان معاملات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے، صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے اور ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایم اے جیسے ادارے تشکیل دیے ہوئے ہیں ۔اصل کام بارشوں، سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایم اے اور ضلعی مینجمنٹ کا ہوتا ہے۔
کیونکہ فوری طور پر ان حالات سے نمٹنا اور لوگوں کو فوری مشکلات سے باہر نکالنا یا ریلیف دینے میں ان ہی ضلعی سطح کے اداروں کی اہمیت بھی ہوتی ہے اور ان ہی کے اقدامات کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے۔ان میں ایک اور اہمیت اضلاع کی سطح پر ایک مضبوط، خود مختار اور شفافیت پر مبنی مقامی حکومتوں کے نظام کی ہوتی ہے ۔
مقامی حکومتوں کا نظام مقامی منتخب عوامی سطح پر موجود نمایندوں ، شہریو ں کی شراکت اور مقامی مسائل اور وسائل کے بہتر ادراک سمیت مقامی لوگوں تک براہ راست رسائی کی وجہ سے اس نظام کی موجودگی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے اول تو ملک میں موثر مقامی حکومتوںکا نظام ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہے اور دوئم ہم نے اس نظام کو نظرانداز کرکے بیوروکریسی تک محدود کردیا ہے ۔ یوں ہم نے مقامی سطح کے مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں دنیا میں ہونے والے کامیاب تجربوں سے کچھ نہیں سیکھا۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بڑی بڑی کانفرنسوں اور حکومتی ایجنڈوں یا ترجیحات کے تناظر میں بہت زیادہ بات کی جاتی ہے ۔لیکن ان سے جڑے مسائل پر بنیادی معلومات یا آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
اسی طرح سے ہمیں ترقی کے مختلف منصوبوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے مسائل یا ان پر وسائل کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں بنیادی سوال داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ہم عملا موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی صلاحیت اور قابلیت بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے پاس کیا ایسی فوری طور پر تحقیق یا شواہد موجود ہیں جو ہمیں پہلے سے آنے والے خطرات کی نشاندہی کرسکیں ۔کیا ہم نے حکومتی سطح پر ایسا کوئی نیشنل فریم ورک بنایا ہوا ہے جو عملی طور پر تمام وفاقی ،صوبائی اور ضلعی اداروں کے ذمے داران کے درمیا ن موثر رابطے کاری اور فوری اقدامات کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو انتظامی اور مالیاتی خود مختاری دی ہے، صوبائی حکومت اور صوبائی ادارے بشمول پی ڈی ایم اے اپنی ناکامی پر کسی کو جوابدہ بھی ہیں یا یہ نااہلی کا تماشہ ایسے ہی چلتا رہا ہے۔
خاص طور پر ہماری صوبائی حکومتوں نے اضلاع کی سطح پر اداروں کو کتنا موثر اور بنیادی سطح کی سہولیات فراہم کی ہیں تو اس کا جواب نفی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس عملی طور پر وہ بنیادی اعداد و شمار ہی نہیں ہیں جو ہمیں مقامی سطح پر موثر حکمت عملی یا منصوبہ سازی میں مدد کرسکیں ۔
یعنی ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہمارے سروں پر جو خطرناک خطرات منڈلارہے ہیں وہ کیا ہیں اور اگر اس پر کوئی سنجیدہ توجہ یا عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ کیسے ہم پر نئے عذابوں کو نازل کرسکتا ہے۔ہم ابھی بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے وہی پرانے اور فرسودہ خیالات یا پرانے ڈھانچوں پر ہی کھڑے ہیں اور نتائج جدیدیت پر مبنی نظام کی بنیاد پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اصولی طور پر ریاست اور حکومت کے نظام کو اپنے داخلی مسائل اور تضادات سے باہرنکلنا ہوگا۔ ہمیں اب موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے جدیدیت پر مبنی نظام،ڈھانچہ اور انتظامی سطح کی صلاحیت درکار ہے۔ ہمیں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے جدید ملکوں نے ان موسمیاتی سطح کی تبدیلیوں اور ان سے جڑے مسائل سے کیسے نمٹا ہے۔
اسی طرح یہ مسئلہ محض پاکستان تک محدودنہیںبلکہ بھارت،بنگلہ دیش،سری لنکا اور افغانستان سمیت دیگر ممالک کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں، بارشوں اور سیلاب کے بحران کا سامنا ہے ۔اس لیے ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر ان ممالک کے درمیان بھی باہمی رابطوں کے فورمز درکار ہیں جو حکومتی سطح پر بھی ہوں اور سول سوسائٹی کی سطح پر بھی یہ فورمز اپنی فعالیت رکھتے ہوں۔یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہماری ریاست اور حکومت کی ترجیحات میں موسمیاتی تبدیلیاں اہمیت رکھتی ہوں۔
اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں انتظامی اور ادارہ جاتی ڈھانچوں اور بجٹ کا نئے سرے سے تعین کرنا ہوگا۔کیونکہ جب تک وفاق سے لے کر صوبوں اور ضلعی سطح تک مالیاتی تقسیم اور وسائل کو ماحولیاتی یا موسمیاتی آلودگی سے نہیںجوڑیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں ۔ہمیں نوجوانوں کی ایسی رضاکارانہ فورس یا مقامی سماجی تنظیموں کو بھی اپنی منصوبہ بندی کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ مقامی لوگ اور تنظیمیں مختلف نوعیت کی آفات سے نمٹنے میں اہم یا کلیدی کردار ادا کرسکیں ۔لوگوں میں ان مسائل کے شعور یا آگاہی کے لیے میڈیا اور بالخصوص ڈیجیٹل میڈیا اور تعلیمی اداروں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناکر قومی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں سے سے نمٹنے کے لیے ترجیحات کا حصہ میں موسمیاتی مسائل اور دیکھنے کو ڈی ایم اے کی سطح پر اور ضلعی سے جڑے اور ان سطح کی ہے اور
پڑھیں:
آسٹریلیا : سطح سمندر بلند ہونے سے 15 لاکھ افراد خطرات کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-15
کینبرا (انٹرنیشنل ڈیسک) آسٹریلیا کی قومی موسمیاتی خطرات کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سمندر کی سطح بلند ہونے اور سیلاب سے 2050 ء تک آسٹریلیا کے 15 لاکھ شہری متاثر ہوں گے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک رواں ہفتے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف جاری کرنے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑھتا درجہ حرارت آسٹریلیا کی 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی پر مسلسل اور باہم جڑے ہوئے اثرات مرتب کرے گا۔ آسٹریلوی وزیر کرس باؤون نے کہا کہ ہم اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی پیش گوئی یا تخمینہ نہیں رہا، یہ ایک زندہ حقیقت ہے اور اب اس کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 ء تک ساحلی علاقوں میں مقیم 15 لاکھ افراد براہ راست خطرے سے دوچار ہوں گے جبکہ 2090 ء تک یہ تعداد بڑھ کر 30 لاکھ ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں جائداد کی مالیت کو 2050 ء تک 611 ارب آسٹریلوی ڈالر (406 ارب امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جو 2090 ء تک 770 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔مزید یہ کہ اگر درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا تو صرف سڈنی میں گرمی سے اموات کی شرح میں 400 فیصد سے زائد اضافہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوسل فیول برآمد کنندگان میں شمار ہونے والے آسٹریلیا پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے موسمیاتی اقدامات کو سیاسی اور معاشی بوجھ سمجھا تاہم بائیں بازو کی لیبر حکومت نے حالیہ برسوں میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی ہے۔ یہ رپورٹ پیر کو اس وقت سامنے آئی جب آسٹریلیا اپنے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف پیرس معاہدے کے تحت پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اہداف پہلے سے زیادہ بلند ہوں گے۔