خیبر پختونخوا اسمبلی کے 25 مخصوص نشستوں کے ارکان کے حوالے سے حلف برداری کے معاملے نے آئینی بحران کو جنم دے دیا   جس میں اسپیکر و گورنر کے درمیان ٹکراو واضح طور پر سامنے آ رہا ہے۔
کیا ہوا تھا؟
20 جولائی کو پی ایم ایل این، پی پی پی، جے یو آ ئی ایف اور دیگر جماعتوں کے 25 خواتین و اقلیتی ارکان نے گورنر ہاؤس میں، عدالتِ عالیہ کے حکم پر حلف اٹھایا۔ تاہم اسپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی نے یہ حلف غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلف صرف اسمبلی فلور پر لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ نشستوں پر حلف اس وقت نہ لینا اور اجلاس کا کرونا کی وجہ سے ملتوی ہونا قرار دیا۔
اب کیا ہو رہا ہے؟
اسپیکر نے ہدایت کی کہ تمام 25 اراکین آئین کے مطابق آج (پیر، 25 اگست) اسمبلی میں دوبارہ حلف اٹھائیں۔
تاہم اپوزیشن نے اس ہدایت کو مسترد کیا ہے، ان کا موقف ہے کہ حلف پہلے ہی لیا جا چکا ہے اور اس کی تکرار غیر ضروری ہے۔
اپوزیشن کے ارکان کا دعویٰ ہے کہ حلف چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر لیا گیا، اور یہ اقدام آئین کے مطابق آرٹیکل 255 اور 26ویں ترمیم کے تحت تھا۔
حکومت کا مؤقف اور آئینی جنگ
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر ہاؤس میں حلف لینا آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آرٹیکل 65 کے مطابق حلف صرف اسمبلی فلور پر لیا جا سکتا ہے۔ حکومتی موقف میں کہا گیا اگر اسپیکر حلف دینے سے قاصر ہیں، تب بھی قانونی طریقہ اپنا کر عمل ہونا چاہیے۔
اسپیکر نے یہ حلف عدالت کے عمل میں مداخلت قرار دیا اور چیف جسٹس سے اپنے موقف کی وضاحت کی درخواست کی ہے کہ عدالت آئین کی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔
یہ آئینی تنازع اپنی نوعیت میں سنگین ہے، کیونکہ اس سے سینیٹ انتخابات کی قانونی حیثیت کو خطرہ لاحق ہے — اگر ارکان آئینی طریقے سے حلف نہ اٹھائیں، تو پورے الیکشن کا عمل مشکوک ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین نے ایسے پیچیدہ حالات کے لیے باقاعدہ متبادل انتظامات کیے ہیں، جن میں گورنر کی سمبھالی گئی صورت میں آئینی شفافیت برقرار رہتی ہے۔

Post Views: 8.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی

پنجاب حکومت نے گندم کے معاملے پر کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرادی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں کسانوں کے گھر چھاپوں کا معاملہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسانوں کی گندم نہیں خریدی جس سے کسان کا نقصان ہوا، پھر حکومت نے کہا اپنی گندم اسٹور کر لیں اور اب جب کسان نے گندم جمع کرلی تو کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

اس پر اسپیکر اسمبلی ملک احمد خان نے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک کسان نے کسی جگہ گندم رکھی ہے وہاں ظاہر ہے کئی کسانوں نے رکھی ہوگی، اب اسی جگہ کو ذخیرہ اندوزی کہا جائے تو یہ مسئلہ ہے۔

اسپیکر اسمبلی نے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں کسان کہاں جائیں؟ انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کسانوں کے مسائل کو حل کرے اور صوبائی وزیر ذیشان رفیق معاملے کو دیکھیں کیونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسان سے بائیس سو میں گندم خریدی گئی اور آج قیمت چار ہزار پر چلی گئی ہے، اس کو حکومت کو دیکھنا چاہیے اور گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہیں پڑنے چاہیں۔

اس پر پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود رانجھا نے کسانوں کے گھروں پر گندم جمع کرنے کے معاملے پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرائی۔

 

متعلقہ مضامین

  • سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر کی اچانک طبیعت ناساز ،آئی سی یو میں داخل
  • سپیکرقومی اسمبلی سے مالدیپ کی عوامی مجلس کے سپیکر کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال
  • پنجاب اسمبلی: سکولوں میں موبائل فونز پر پابندی، فلسطینیوں سے یکہجہتی سمیت 7 قراردادیں منظور
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
  • لاہور، سپیکر پنجاب اسمبلی سے نئے ترک قونصل جنرل کی ملاقات
  • احتجاج کیس، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی درخواست ضمانت خارج
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟
  • پی ٹی آئی کے 3 ارکان قومی اسمبلی کی ضمانت کی درخواستیں خارج