چین: انسان میں خنزیر کے پھیپھڑے لگانے کاکامیاب ٹرانسپلانٹ
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
چینی سائنس دانوں نے تاریخ میں پہلی بار انسان میں خنزیر کے پھیپھڑے لگانے کا کامیاب ٹرانسپلانٹ انجام دے دیا۔
جینیاتی طور پر تبدیل کیے گئے یہ پھیپھڑے اسٹروک کے سبب مرنے والے ایک 39 سالہ مریض کو لگائے گئے۔ محققین کے مطابق ٹرانسپلانٹ کیے گئے پھیپھڑوں کو مریض کے نظامِ مدافعت نے فوری طور پر رد نہیں کیاِ اور پھیپھڑے نو دن تک فعال رہے۔
نتیجتاً سائنس دانوں نے کامیابی کے ساتھ خنزیر کے پھیپھڑوں کا انسانی جسم میں ٹرانسپلانٹ انجام دیا، جو کہ زینو ٹرانسپلانٹیشن (جسم کا ٹرانسپلانٹ کیے گئے اعضاء کو قبول نہ کرنا) کے ایک بڑے مسئلے سے نمٹنے میں اہم قدم ہو سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے اس سسٹم کو بطور تجربہ استعمال کیا لیکن ان بنیادی مقصد اس بات کا مشاہدہ کرنا تھا کہ انسانی مدافعتی نظام اس عمل پر کیا ردِ عمل دیتا ہے۔
پھیپھڑوں کے ٹرانسپلانٹیشن کے ساتھ ایک پیچیدگی یہ ہے کہ پھیپھڑوں پر مسلسل ہوا اور مائیکروبس منکشف ہوتے رہتے ہیں جو کہ مدافعتی نظام کو فعال کرسکتا ہے اور نتیجتاً جسم عضو کو قبول نہیں کرتا۔
سائنس دانوں کے مطابق جینیاتی تبدیلی کی بدولت عضو کے قبول نہ ہونے کو بچایا گیا اور اس کے لیے CRISPR/Cas9 ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی انسان کے مدافعتی نظام کو ٹرانسپلاٹ کیے گئے بافتوں کو باہر کا سمجھنے سے روکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیے گئے
پڑھیں:
سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔
عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔
قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔ فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔