یہ پرانا نوٹ اگر آپ کے پاس ہے تو آپ کروڑ پتی بن سکتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں جاری ہونے والا 1948 کا 100 روپے کا نوٹ آج کلیکٹرز کے لیے قیمتی سرمایہ بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ نوٹ اچھی حالت میں “اسمال پری فکس” (ایک یا دو حروف والے سیریل نمبر) کے ساتھ محفوظ ہو تو اس کی موجودہ قیمت 8 سے 12 لاکھ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ نوٹ اس وقت جاری کیے گئے تھے جب پاکستان نوزائیدہ ملک تھا اور اس کی کرنسی کا انتظام عارضی طور پر ریزرو بینک آف انڈیا کے پاس تھا۔ ان نوٹوں پر “Government of Pakistan” اردو اور انگریزی میں درج تھا، جو انہیں تاریخی طور پر بے حد اہم بناتا ہے۔
کیوں خاص ہے 1948 کا 100 روپے کا نوٹ؟
* آزادی کے فوراً بعد محدود تعداد میں چھاپا گیا۔
* “اسمال پری فکس” جیسے A یا AB سے شروع ہونے والے سیریل نمبر سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔
* اگر نوٹ بالکل نئی حالت (Uncirculated) میں ہو تو قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
* ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنرز (جیسے سی ڈی دیشمکھ یا ایچ وی آر آئینگر) کے دستخط والے نوٹ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
* غلط پرنٹنگ (Misprints) یا کم سیریل نمبر (000001) والے نوٹ سب سے مہنگے مانے جاتے ہیں۔
موجودہ مارکیٹ قیمت (2025)
* عام حالت والے نوٹ: 50 ہزار سے 1.
* ان سرکولیٹڈ (UNC) نوٹ: 5 سے 8 لاکھ روپے تک۔
* اسمال پری فکس یا اسٹار مارک نوٹ: 8 سے 12 لاکھ روپے تک۔
* مس پرنٹ نوٹ: 15 لاکھ روپے تک۔
بیچنے کا طریقہ
ماہرین کا مشورہ ہے کہ ایسے نوٹ بیچنے سے پہلے ان کی اصلیت کسی ماہر یا گریڈنگ سروس (Paper Money Guaranty – PMG) سے تصدیق کرائی جائے۔ اس کے بعد یہ نوٹ آن لائن پلیٹ فارمز جیسے CoinBazzar.com، BidCurios.com یا eBay پر فروخت کیے جا سکتے ہیں۔
یہ نایاب کرنسی نوٹ پاکستان کی تاریخ کا قیمتی ورثہ ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت کے ابتدائی دنوں کی یاد دلاتا ہے بلکہ دنیا بھر کے کلیکٹرز کے لیے ایک انمول خزانہ سمجھا جاتا ہے۔
Post Views: 6ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: لاکھ روپے تک
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔