علیمہ خان کے بیٹے شاہریز خان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے بھانجے شاہریز خان کو 9 مئی 2023 کو جناح ہاؤس حملے کے مقدمے میں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
پولیس نے شاہریز، جو عمران خان کی بہن علیمہ خان کے بیٹے ہیں، کو 21 اگست کو لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کیا تھا جبکہ ان کے بھائی شیرشاہ خان کو اگلے روز اسی نوعیت کے الزامات پر حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: کسی کو نہیں مارا مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا، فرحان غنی کا عدالت میں بیان
شاہریز کو 8 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر اے ٹی سی کے جج منظر علی گِل کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ رانا مدثر عمر اور پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ استغاثہ کی نمائندگی امتیاز احمد سپرا نے کی۔
امتیاز احمد سپرا نے عدالت سے شاہریز کے مزید 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تاہم وکیل دفاع نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل کو مقدمے سے خارج کیا جائے کیونکہ کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔ عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔
یہ بھی پڑھیے: علیمہ خان کے بیٹے شیر شاہ اور شاہریز کون ہیں؟
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ شاہریز کے قبضے سے ایک ڈنڈا برآمد ہوا ہے اور ان کا فوٹوگرامٹری ٹیسٹ بھی مکمل ہوچکا ہے، مزید کہا گیا کہ ملزم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی بھی جانچ ضروری ہے۔
دوسری جانب وکیل دفاع نے شاہریز کی ضمانت کی درخواست بھی دائر کردی جس میں کہا گیا کہ تفتیش مکمل ہوچکی ہے، کسی قسم کی برآمدگی نہیں ہوئی اور گرفتاری غیر قانونی ہے، لہٰذا عدالت ان کی رہائی کا حکم دے۔
شاہریز کے وکیل نے اس موقع پر ملزم کے لاہور کے بجائے چترال میں ہونے سے متعلق دستاویزات بھی عدالت میں پیش کیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی چترال شاہریز خان عدالت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چترال شاہریز خان عدالت خان کے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔