غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
پاکستان اس وقت قدرتی آفات،سیلاب کی تباہ کاریوں،شدید بارشوں کے ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ، خیبر پختونخوا ، اسلام آباد یا پنڈی اور پنجاب میں شدید بارشوں سمیت سیلاب کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں شدید بارش نے بھی شہر کی عملی تباہی کا منظر پیش کیا ۔
سیلاب پنجاب کے بعد سندھ میں داخل ہوگا ہے۔ بارش، سیلاب ، قدرتی آفات کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔لیکن ریاست، حکومت اور ادارہ جاتی نظام کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مختلف سطح کی حکمت عملیوں کی مدد سے ان سے نمٹنے کی نہ صرف صلاحیت پیدا کرتی ہے بلکہ عملی طور پر اپنے نظام کو اس انداز سے ترتیب دیتی ہے کہ وہ اس طرز کے چیلنج سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔
لیکن کیونکہ ہم مجموعی طور پر حکمرانی کی شفافیت کے بحران کا شکار ہیں تو یہاں حکمرانی سے جڑے کئی طرح کے مسائل اور چیلنجز کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری حکمت عملی ایک ردعمل سے جڑی ہوتی ہے اور ہم مجموعی طور پر دور اندیشی اور لانگ ٹرم ،مڈٹرم یا شارٹ ٹرم حکمت عملی کا موثر نظام نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہمیں ریاستی و حکومتی سطح پر ان مسائل سے نمٹنے کے نظام میں شفافیت کا فقدان نظر آتا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ چوہدری محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ2022کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ہم نے عالمی دنیا سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جو کمٹمنٹ کی تھی یا مالی وسائل کا دنیا نے ہم کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری اپنی ناکامی بھی تھی کہ ہم نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا یا مالیاتی اداروں کو جو منصوبے بنا کر دینے تھے وہ بھی ہم نہیں کرسکے۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ سیلاب،بارش ہو یا قدرتی آفات یا ماحولیاتی آلودگی سے جڑے مسائل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔ہم نے وفاقی ،صوبائی یا اضلاع کی سطح پر جن اقدامات کو یقینی بنانا تھا اس میں ہم نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
یہ ناکامی کسی ایک حکومت کی نہیں بلکہ ہر حکومت نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے اور یہ مجموعی طور پر حکومتوں سمیت ریاست کی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد جہاں ان مسائل سے نمٹنے کی بڑی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، وہیں ہمارے ضلعی مینجمنٹ نظام میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ بارشوں،سیلاب یا قدرتی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔کیونکہ ہماری صوبائی حکومتوں نے نہ تو اضلاع کی سطح پر عوامی نمایندگی کی بنیاد پر ایک مضبوط اور مربوط مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو اہمیت دی اور نہ ہی مقامی سطح پر مضبوط انتظامی ڈھانچہ ان کی ترجیحات کا حصہ رہا۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہم نے وفاقی سطح پر این ڈی ایم اے،صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے اور ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایم اے جیسے ادارے تشکیل دیے،لیکن یہ ادارے بھی اپنی فعالیت کی ساکھ قائم نہیں رکھ سکے ہیں ۔پی ڈی ایم اے کی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اضلاع کی سطح پر ڈی ڈی ایم اے کو فعال اور مضبوط ہی نہیں بنایا۔ بارشوں،سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے آپ کا اضلاع پر مینجمنٹ سسٹم ہی مسائل کے حل کے لیے بنیادی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر ہماری ترجیحات آج کی جدید دنیا اور نظام سے مختلف ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ہم نے جیسے دریا کے راستوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جو کھیل کھیلا ہے اس کے نتیجے میں دریا اپنی زمین ان سیلاب کے نتیجے میں خود حاصل کررہا ہے۔اس کھیل کی تباہ کاری میں مجموعی طور پر پورا ریاست کا نظام ملوث ہے اور ان کی ملی بھگت سے ان نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنایا گیا ۔
اب حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں اس کی بھاری قیمت عوام اور حکمرانی کے نظام کو دینی پڑرہی ہے۔اس کھیل میں جو بھی حکمران یا ادارے ملوث ہیں اور جن کی منظوری سے یہ سب کچھ ہوا کیا ہم ان کو احتساب کے دائرے کار میں لاسکیں گے۔یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ ہم بارشوں، سیلاب اور قدرتی آفات سمیت اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں یا انسانی زندگیوں کے ضیاع میں کیوں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور کیونکر ہم اس ریاستی نظام میں اس ناکامی اور نااہلی پر جوابدہ نہیں ہوتے۔ایسا نہیں کہ ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا نے مالی وسائل نہیں دیے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہم نے ان مالیاتی وسائل کی ذاتی طور پر بندربانٹ کی بلکہ ان تمام اہم کاموں کو نظرانداز کیا جو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ بنتا تھا۔
ہمارا انتظامی یا بیوروکریسی کا ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے اور اس فرسودہ نظام یا ڈھانچے کی بنیاد پر ان اہم مسائل سے نمٹنے میں ہمیں ناکامی کا سامنا ہے۔یہ الزام تو ہم بھارت پر لگادیتے ہیں کہ اس نے پانی چھوڑا جس کی وجہ سے ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔اس حقیقت کو تسلیم بھی کرلیں تو پھر بھی ہماری ریاست اور حکومت سمیت حکمرانی کا نظام وہ خود کچھ کیوں نہیں کرسکا جو اسے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کرنا چاہیے تھا۔خیبر پختونخوا کے دریاؤں کے قریب بڑی عمارتوں ،ہوٹلوں سمیت ریسٹورنٹ کی تعمیر کیسے ہوئی اور کیوں ان کو اجازت دی گئی اور کیوں ان کو احتساب کے دائرہ کار میں نہیں لایا گیااور کیوں ان طاقت ور افراد کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کیے گئے، متعلقہ سرکاری اداروں کی افسرشاہی کو کیوں جوابدہ نہیں بنایا گیا، سرکاری فنڈز کدھر خرچ ہوئے، اس کا حساب کیوں نہیں لیا گیا، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ، وزراء اور صوبائی کے ارکان کو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔
کالا باغ ڈیم سے ہٹ کر ہم نے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں کیونکر کوتاہی کا مظاہرہ کیا؟ اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک بار پھر نظام دنیا کے امیر ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف امداد کے حصول کے لیے دیکھ رہا ہے۔مگر اس سے قبل جو ہماری حکومتوں کو مالیاتی امداد ملی، اس سے ہم نے کیا کیا اور اس کا کون حساب دے گا۔بنیادی طور پر عدم شفافیت ہمارا اہم مسئلہ ہے اور ہم نے شفافیت کو کبھی اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں غیر اہم ترقیاتی منصوبے یا رعب اور موج مستی پر مبنی حکمرانی کا نظام ہے اور اسی بنیاد پر ہم ترقیاتی اخراجات کے بجائے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں جو حکمرانی کے نظام کو مزید خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔
یہ سوال بنتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر وسائل کے باوجود این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے کی کارکردگی کہاں ہے ۔ وفاقی،صوبائی اور اضلاع کی حکومتوں اور اداروں کے درمیان جو باہمی رابطوں اور عملدرآمد کے نظام کی کمی ہے، اسے کیسے دور کیا جائے۔ایک طرف جہاں ہمیں بری حکمرانی کا سامنا ہے تو اسی طرح سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی سطح پر بھی ماحولیاتی آلودگی سے جڑے مسائل بھی ان کی ترجیحات کا اہم حصہ نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم ان موجود برے حالات کو تسلیم کریں اور خود بھی جاگیں اور دوسروں کو بھی جگائیں کہ ہمیں جہاں اپنی ترجیحات کو قومی ضرورتوں یا عوامی مفاد کے ساتھ جوڑنا ہے وہیں ان قدرتی آفات یا سیلاب سے نمٹنے کے لیے وہ کچھ کرنا چاہیے جو کچھ دنیا کے دیگر ممالک میں ہورہا ہے۔
کیونکہ جدید دنیا سے سیکھنے میں کوئی برائی نہیں۔لیکن شاید ہم سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور فرسودہ یا پرانے خیالات یا طور طریقوںسے ہی حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔یقیناً اس فرسودہ نظام سے ہی حکمرانی کے نظام سے جڑے افراد کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں ،جو ہمیں شفافیت سے آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔اس لیے ان غیرمعمولی حالات میں ہم غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمرانی کے نظام ترجیحات کا حصہ تباہ کاریوں قدرتی آفات کے نظام کو ڈی ایم اے کی سطح پر کا سامنا اضلاع کی بنیاد پر کی تباہ اور اس ہے اور سے جڑے
پڑھیں:
جمہوریت کو درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔