WE News:
2025-11-03@18:59:19 GMT

پانی میں نیلی سبز کائی: انسان اور جانوروں دونوں کے لیے خطرناک

اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT

پانی میں نیلی سبز کائی: انسان اور جانوروں دونوں کے لیے خطرناک

ایک امریکی ویٹرنری ماہر نے خبردار کیا ہے کہ جھیلوں اور تالابوں میں پائے جانے والے زہریلی نیلی و سبز الگی پالتو جانوروں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر بروقت احتیاط نہ کی گئی تو ان کا اثر چند منٹوں میں جان لیوا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بدترین سیلابی صورت حال برقرار، مزید بارشوں کا الرٹ جاری کردیا گیا

ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کی ویٹرنری ماہر ڈاکٹر الیگزینڈرا ریڈی نے کہا ہے کہ یہ زہریلا سائنوبیکٹیریا، جسے عام طور پر نیلی سبز الگی (بیکٹریائی کائی) کہا جاتا ہے چند منٹوں میں جانور کی جگر اور اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

یہ الگی کہاں پائی جاتی ہے؟

یہ الگی زیادہ تر ٹھہرے ہوئے پانی، جھیلوں، تالابوں یا کم بہاؤ والے علاقوں میں پائی جاتی ہے اور ظاہری طور پر بے ضرر دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اس میں موجود زہریلے مادے نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں، خصوصاً بچوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ علامات میں قے، اسہال، جھٹکے، سانس لینے میں دشواری اور جلدی خارش شامل ہیں جب کہ شدید صورت میں جگر اور دماغی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔

نیلی سبز الگی انسانوں کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتی ہے خصوصاً جب یہ پانی کی سطح پر تیزی سے پھیلتی ہے اور لوگ اس آلودہ پانی میں نہاتے یا کھیلتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر کوئی انسان، خصوصاً بچہ، اس پانی سے رابطے میں آئے یا غلطی سے اسے نگل لے تو جلد پر خارش، سوزش، آنکھوں میں جلن اور نظام ہاضمہ کی خرابی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں سانس لینے میں دشواری یا متلی، قے اور اسہال کی شکایات بھی سامنے آتی ہیں جب کہ شدید زہریلے اثرات جگر اور اعصابی نظام کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: بارشوں کے بعد راول ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ، اسپل ویز کھول دیے گئے

بچوں کے لیے یہ الگی خاص طور پر خطرناک سمجھی جاتی ہے کیونکہ ان کا مدافعتی نظام نسبتاً کمزور ہوتا ہے اور وہ کھیل کود کے دوران پانی نگلنے کے امکانات رکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر کسی جھیل یا تالاب کے پانی میں سبز یا نیلی تہہ نظر آئے تو بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ اگر کسی بچے میں مشتبہ پانی کے استعمال کے بعد علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کرنا ضروری ہے۔

متاثرہ جانوروں میں علامات

اسی طرح اگر آپ کے پالتو جانور نے ایسی جگہ سے پانی پی لیا یا تیرنے کی کوشش کی تو اس مختلف علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جن میں تھوک بہنا، دورے پڑنا، کپکپی یا جھٹکے، سانس لینے میں دشواری اور اسہال شامل ہیں۔ کچھ صورتوں میں جانور کی اچانک موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

پالتو جانوروں کے مالکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جھیل یا پارک پہنچنے کے بعد پانی کا جائزہ لیں یہ خصوصاً یہ غور کرین کہ کہیں سطح پر سبز یا نیلے رنگ کی تہہ تو موجود نہیں۔ اگر الگی ہونے کا ذرا سا بھی شک ہو تو اپنے جانور کو پانی سے دور رکھیں۔

ماہرین کی تجویز

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ موسم گرما کے دوران جب پانی زیادہ دیر تک ساکت رہتا ہے اور درجہ حرارت بلند ہوتا ہے تو اس قسم کے الگی کے پھوٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے جانوروں کی حفاظت کے لیے فوری ردعمل اور احتیاط نہایت ضروری ہے۔

اگر آپ کے پالتو جانور کو ان علامات میں سے کوئی بھی علامت نظر آئے تو فوری طور پر قریبی ویٹرنری کلینک سے رجوع کریں۔

پاکستان میں نیلی سبز کائی

پاکستان میں بھی نیلی سبز الگی یعنی سائنوبیکٹیریا مختلف آبی ذخائر میں پائی جاتی ہے اور یہ خصوصاً ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں پانی ٹھہرا ہوا ہو اور نکاسی آب کا نظام ناقص ہو۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی، پی ڈی ایم اے نے ہائی الرٹ جاری کر دیا

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق منچھر جھیل، راول جھیل، ہالیجی جھیل اور دیگر چھوٹے تالابوں اور ڈیمز میں خصوصاً گرمیوں اور مون سون کے موسم میں ایسے حالات موجود ہیں جو الگی کی افزائش کے لیے سازگار ہوتے ہیں ۔

مقامی سطح پر ان الگی کے باعث ماہی گیری کو نقصان، پانی کے رنگ و بو میں تبدیلی اور حیاتیاتی نظام میں بگاڑ جیسے مسائل بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں پالتو جانوروں پر نیلی سبز الگی کے اثرات کے حوالے سے اعداد و شمار کم دستیاب ہیں تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ مویشی یا پالتو جانور ایسے آلودہ پانی سے رابطے میں آئیں تو ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جیسا کہ قے، اسہال، جھٹکے یا اچانک موت۔ اور یہ بچوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ڈیڑھ پونڈ کائی اور گونگھوں سے ڈھکے کچھوئے کو کیسے بچایا گیا؟

اس لیے دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں پانی کے ذخائر کے استعمال میں احتیاط، مقامی ماحولیاتی رپورٹس کا جائزہ اور بچوں و پالتو جانوروں کو جھیلوں یا تالابوں سے دور رکھنا ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیکٹریائی کائی زہریلی کائی نیلی سبز الگی نیلی سبز کائی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیکٹریائی کائی زہریلی کائی نیلی سبز کائی پالتو جانوروں پالتو جانور ضروری ہے سکتے ہیں جاتی ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔

پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔

ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • تین سال سے کم عمر بچوں کو فلورائیڈ گولیاں دینا خطرناک، امریکی ایف ڈی اے کی سخت وارننگ
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار
  • سندھ لائیو اسٹاک کے تحت 65 موبائل ایمبولینسز خریدنے کا فیصلہ
  • تلاش
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں