حماس کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش، اسرائیل کا انکار
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع جنگ بندی معاہدے کی پیشکش کی ہے، جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا۔ تاہم، اسرائیل نے یہ پیشکش فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے اپنے سابقہ مؤقف کو دہرایا ہے۔
حماس کا مؤقف
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق، حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ غزہ میں مستقل اور مکمل جنگ بندی کے لیے تیار ہے، لیکن غیر مسلح ہونے کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی۔
حماس نے عالمی برادری، خصوصاً اقوامِ متحدہ سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی افواج کے حملے نسل کشی کے مترادف ہیں، اور ان کا سلسلہ روکا جانا چاہیے۔”
اسرائیل کا ردعمل
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ صرف ان شرائط پر ختم ہوگی جو اسرائیلی کابینہ نے طے کی ہیں، جن میں تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا شامل ہے۔
امریکی ردعمل
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یرغمالیوں کو آزاد نہ کیا گیا تو حالات میں تیزی سے تبدیلی آ سکتی ہے۔
یرغمالیوں کی صورتحال
اطلاعات کے مطابق، اس وقت غزہ میں تقریباً 48 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
جنگ بندی سے متعلق یہ تازہ ترین پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں انسانی بحران انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے، اور عالمی برادری کی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعہ کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جن میں 3 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ واقعات امریکی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی غزہ کے علاقوں میں اسرائیل نے گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر قائم ہیں۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخمی ہونے والا ایک اور فلسطینی شہری بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
امریکا کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی میں کئی اہم معاملات، جیسے حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی افواج کے انخلا کا شیڈول، ابھی تک حل طلب ہیں۔ یہ معاہدہ تین ہفتے قبل نافذ ہوا تھا، تاہم وقفے وقفے سے ہونے والے تشدد کے واقعات نے اسے بار بار پرکھا ہے۔
28 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز نے اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کے جواب میں غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق 104 افراد شہید ہو گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
جنگ بندی کے تحت، حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا، بدلے میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں اور نظر بند شہریوں کو رہا کیا گیا۔ اسرائیل نے بھی اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے، حملے روکنے اور امدادی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔
حماس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ تمام 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرے گی، جبکہ اسرائیل 360 فلسطینی جانبازوں کی لاشیں واپس کرے گا۔ اب تک حماس نے مجموعی طور پر 17 اسرائیلی لاشیں واپس کی ہیں، جبکہ 225 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ منتقل کی گئی ہیں۔ حماس کے مطابق باقی اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس تاخیر کر کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ جنگ میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور پورا علاقہ شدید تباہی کا شکار ہے۔