نظام انصاف میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال کیلئے ابھی تیار نہیں ہیں، چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ نظام انصاف میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کا استعمال ہونا چاہیے مگر ہم اس کے لیے ابھی فوری طور پر تیار نہیں ہیں۔
نئے عدالتی سال کے موقع پر سپریم کورٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ نئے عدالتی سال کی اس تقریب کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا، 2004 سے اس تقریب کو باقاعدگی سے منانا شروع کیا، یہ موقع ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اصلاحات کی ضرورت محسوس کی، ہم نے پانچ بنیادوں پر اصلاحات شروع کیں، ڈیجیٹل کیس فائلنگ کا نظام وضع کیا گیا، ای سروسز کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظام انصاف میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کا استعمال ہونا چاہئے، ہم مگر اس کیلئے ابھی فوری طور پر تیار نہیں ہیں، آج اعلان کر رہا ہوں کہ ہم نے اندرونی آڈٹ بھی کروایا ہے، ججز پر چھٹیوں میں کہیں جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، عدالتی کام کے دوران چھٹیوں کیلئے ضابطہ بنایا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریڈ زون میں ہوتے ہوئے ججز کو زیادہ پروٹوکول کی ضرورت نہیں، اسلام آباد یا ریڈزون سے باہر یا کسی خطرے کے پیش نظر اضافی سیکیورٹی مہیا کی جائے گی، تمام ججز نے سیکیورٹی سے متعلق ضابطے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ہر کوئی بات کرتا ہے، 61 ہزار فائلیں ڈیجیٹلی اسکین ہوں گی اور پراجیکٹ چھ ماہ میں مکمل ہوجائے گا، کیسز کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے مقرر کیا جائے گا، ڈیجیٹل اسکیننگ پراجیکٹ کامیاب ہونے پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال شروع ہوگا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ سب کی ہے، فیسیلیٹیشن سینٹر میں تمام انفارمیشن دی جائے گی، فیسیلیٹیشن سینٹر یکم اکتوبر سے مکمل طور پر کام شروع کردے گا، ٹیکنالوجی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو موثر بنانا ہے، مقدمات کو جلد نمٹانا ترجیحات میں شامل ہے، ہمیشہ قانون کی بالادستی کے لیے کام کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رولز کو ایک دن میں نہیں بنایا جاسکتا، پروپوزلز کمیٹی کے سامنے رکھے جائیں گے، کمیٹی جو تجویز کرے گی اس کے مطابق آگے چلیں گے، جلد کیس مقرر کرنے کی درخواست سال بھر چیف جسٹس کے کمرے میں پڑی رہتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ساتھ سیکیورٹی کی 9 گاڑیاں ہوتی تھیں، میں نے کہا ریڈ زون میں عدالت اور رہائش ہے اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں، اپنی سیکیورٹی کی گاڑیاں کم کر کے صرف دو رکھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ رولز میں ججز کی چھٹیوں کا معاملہ واضح کیا، عدالتی تعطیلات کے دوران کسی جج کو اجازت کی ضرورت نہیں، عام تعطیلات کے علاوہ چھٹی کیلئے بتانا لازمی ہوگا، جو سائل وکیل کرنے کی استعداد نہیں رکھے گا اسے مفت قانونی معاونت ملے گی، مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ تک یہ سہولت میسر ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کیخلاف 64 شکایات کا فیصلہ ہو چکا،
72 شکایات رائے کیلئے ممبرز کو دی گئی ہیں، باقی 65 کیسز رہ گئے ہیں، اس ماہ کے آخر تک سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ ہوگی، باقی 65 کیسز بھی ججز کو دے دیے جائیں گے، اس معاملے پر اسی ماہ کے آخر میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے آئے کیسز کو پہلے دیکھ رہے ہیں، ہم یہ نہیں کریں گے سب سے نیچے سے کوئی کیس اٹھا کر اوپر لے آئیں، رواں سال وکلا نے 56 ہزار التوا کی درخواستیں دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ چھٹیاں کرتے ہیں، ججز تین مہینے کی چھٹیاں نہیں کرتے، تین ماہ کا دورانیہ ہے جس میں وہ ایک ایک ماہ چھٹی کرتے ہیں، باقی عرصے میں ججز رجسٹری میں بیٹھے ہوتے ہیں، ہم دوپہر کے بعد بھی سماعتیں کرنے کو تیار ہیں، اس کے بعد لیکن کوئی التوا نہیں ہو گا۔
اس موقع پر سپریم کورٹ میں فسیلیٹیشن سینٹر کا افتتاح کر دیا گیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فسیلیٹیشن سینٹر کا افتتاح عام سائل سے کروایا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ضرورت
پڑھیں:
پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ ) سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پارا چنار حملہ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں۔پارا چنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔دورانِ سماعت سی ٹی ڈی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے میں 37 افراد جاں بحق ، 88 افراد زخمی ہوئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے کیا ؟ جو حملہ کرنے پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے 9 لوگوں کی ضمانت سپریم کورٹ نے خارج کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اب کیا صورت حال ہے، راستے کھل گئے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے دن 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سی ٹی ڈی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔بعد ازاں عدالت نے ملزم کو وکیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔