دبئی میں ایشیا کپ 2025 کی ٹرافی کی شاندار رونمائی، ایونٹ کے بارے میں ٹیم کپتان کیا کہہ رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
دبئی میں ایشیا کپ 2025 کی ٹرافی کی رونمائی ہوئی جس میں ایونٹ کی ٹیموں کے کپتان اور ایشیا کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی بھی موجود تھے۔
اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے کپتان محمد وسیم کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ ایک ماہ سے اس ایونٹ کی تیاری کررہے ہیں، ہم نے اچھی کرکٹ کھیلی ہے لیکن اس کرکٹ کو لے کر اس ٹورنمنٹ میں نہیں جاسکتے۔ آئی ایل ٹی20 میں بڑے پلیئرز کے ساتھ کھیلے ہیں جس سے ہمیں فائدہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: ایشیا کپ: سابق کرکٹرز کا ٹیم کو سپورٹ کرنے پر زور، بولنگ اور بیٹنگ کمبینیشن پر تحفظات
پاکستان کے کپتان سلمان علی آغا نے کہا کہ ہم اچھی کرکٹ کھیلتے آرہے ہیں، تمام کھلاڑی ایشیا کپ کے لیے تیار ہیں، ہمارے چند پلیئرز کے لیے یہ بڑا ایونٹ ہے تاہم ہم اس چیلنج کے لیے تیار ہیں۔
انڈیا کے کپتان سوریا کمار یادیو نے کہا کہ دبئی آکر ہماری بہتر تیاری ہورہی ہے اور تمام ٹیموں کے ساتھ بیٹھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ ٹیم کے طور پر ہم نے جنوری فروری میں کرکٹ کھیلی، اس کے بعد آئی پی ایل بھی ہوئے لیکن جون کے بعد کرکٹ نہیں کھیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ چیلنجز کا نام ہے، دیکھتے ہیں اس بار کس طرح کھیلتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ایشیا کپ کے ٹی20 مرحلے میں بننے والے اہم ریکارڈ، پاکستانی کھلاڑی کہیں موجود نہیں
افغانستان کے کپتان راشد خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اچھی کرکٹ کھیلنے پر توجہ دے رہے ہیں، فی الحال سیمی فائنل کے بارے میں نہیں سوچا، ہم ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچے تھے، محنت کرنا ہمارا کام ہے۔
عمان کرکٹ ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ ہم نے 3 دفعہ ورلڈ کپ کھیلا ہے لیکن ایشیا کپ پہلی بار کھیل رہے ہیں، تاہم اس ایونٹ کے لیے تیار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے کپتان ایشیا کپ کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔