خاتون کے گھٹنوں نے خالص سونے کے سینکڑوں دھاگے اگل دیے، یہ کیوں کر ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
جنوبی کوریا میں 65 سالہ خاتون کا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو اس کے گھٹنوں میں خالص سونے کے سینکڑوں دھاگے دریافت ہوئے۔ یہ خاتون گٹھیا کے مرض میں مبتلا تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مریخ پر زندگی کے آثار: نئے اور مضبوط سراغ مل گئے
خاتون، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کافی عرصے سے گھٹنوں کے درد اور اکڑن کا شکار تھیں۔ انہیں مختلف ادویات دی گئیں جن میں درد کش گولیاں، سوزش کم کرنے والی دوائیں اور یہاں تک کہ گھٹنوں میں براہ راست اسٹرائڈ انجیکشنز بھی شامل تھے۔ مگر ان سب کا کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا اور نہ ہی وہ ایک نارمل اور درد سے پاک زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
ان ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس بھی سامنے آئے، جیسے کہ شدید معدے کا درد، جس کے باعث انہوں نے متبادل علاج کا رخ کیا جس میں انہوں نے ایک متنازعہ طریقۂ علاج ’گولڈ تھریڈ ایکیوپنکچر‘ کا انتخاب کیا۔
مزید پڑھیے: پیٹو بھالو باز نہ آیا، بے تحاشہ پھل کھانے پر پھر اسپتال میں داخل
شروع میں وہ ہر ہفتے ایکیوپنکچر کے سیشنز کراتی رہیں جن میں ننھے سونے کے دھاگے ان کے گھٹنوں کے ارد گرد داخل کیے جاتے تھے لیکن اس سے ان کا درد اور بڑھ گیا تو انہوں نے ہفتے میں کئی بار جانا شروع کر دیا۔ آخر کار درد اتنا شدید ہو گیا کہ انہیں دوبارہ اسپتال جانا پڑا۔
ایکس رے کرنے پر ڈاکٹروں کو نہ صرف گٹھیا کی عام علامات جیسے ہڈیوں کی سختی اور اضافی نشوونما ملی بلکہ انہوں نے گھٹنوں کے ارد گرد کے ٹشوز میں سینکڑوں چھوٹے سونے کے دھاگے بھی دیکھے۔
گولڈ تھریڈ ایکیوپنکچرغیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ گولڈ تھریڈ ایکیوپنکچر کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں جو اس کے فائدے کو ثابت کرتا ہو لیکن اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ان ننھے دھاگوں سے جسم میں رسولیاں بن سکتی ہیں جو اندرونی اعضا میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ٹشوز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ دھاگے ایم آر آئی جیسے اہم اسکین کو ممکنہ طور پر ناممکن بنا دیتے ہیں کیونکہ دھات کی حرکت یا خون کی نالیوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ گولڈ تھریڈ ایکیوپنکچر والا طریقہ ایشیائی ممالک میں طویل عرصے سے مختلف اقسام کے درد کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور اب بھی خاص طور پر معمر افراد میں مقبول ہے۔
مزید پڑھیں: ایرانی خاتون نے 23 برسوں میں 11 شوہر قتل کردیے، وجہ کیا تھی؟
یہ سمجھا جاتا ہے کہ سونے کے ان دھاگوں کی موجودگی جسم کے اندر مسلسل تحریک فراہم کرتی ہے اور درد میں کمی لاتی ہے لیکن اس کا کوئی سائنسی یا طبی ثبوت موجود نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس سے (مبینہ طور پر) اکثر مریض اصل اور مؤثر علاج میں تاخیر کر دیتے ہیں جس سے حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خاتون کے گھٹنوں سے سونا برآمد سونے کے دھاگے گھٹنوں سے سونا برآمد گولڈ تھریڈ ایکیوپنکچر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سونے کے دھاگے گھٹنوں سے سونا برا مد کے گھٹنوں انہوں نے سونے کے
پڑھیں:
لاہور میں پہلا کوآبلیشن سینٹر قائم، کینسر کے مریضوں کا کامیاب آپریشن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پاکستان میں طب کے شعبے میں ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا ہے۔
پنجاب میں پہلی بار کینسر کے علاج کے لیے جدید “کوآبلیشن” طریقہ علاج باضابطہ طور پر شروع کردیا گیا ہے، جس کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کیا۔ یہ علاج چین کے ماہرین کی تیار کردہ محفوظ اور جدید مشینری کے ذریعے ممکن ہوا ہے، جسے لاہور کے میو اسپتال میں نصب کیا گیا۔
میو اسپتال کی ٹیم پہلے ہی اس نئی ٹیکنالوجی پر تربیت حاصل کرچکی ہے اور عملی طور پر اس کا استعمال بھی شروع کردیا گیا ہے۔ حال ہی میں پھیپھڑوں اور چھاتی کے کینسر کے 2 مریضوں پر کامیاب آپریشن کیا گیا، جس میں بجلی سے پیدا ہونے والی حرارت کے ذریعے ٹیومر اور متاثرہ ٹشوز کو ختم کیا گیا۔
یہ طریقہ علاج نہ صرف کم تکلیف دہ ہے بلکہ سرجری کے مقابلے میں مریض جلد صحت یاب ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق کوآبلیشن کینسر کے علاج میں ایک انقلابی قدم ہے کیونکہ اس میں بڑے آپریشن اور طویل بحالی کے بجائے مریضوں کو نسبتاً آسان اور تیز علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جگر کی شریانوں میں رکاوٹ اور چھاتی کے کینسر کے علاج میں یہ طریقہ نہایت مؤثر ثابت ہوا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے افتتاحی موقع پر کہا کہ پنجاب میں کینسر کے مریضوں کو عالمی معیار کا علاج فراہم کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے سے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے مریضوں کو سہولت میسر آئے گی۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پیش رفت کینسر کے علاج میں پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کردے گی۔