پاکستانی سیاست میں جوتے مارنا، سیاہی پھینکنا، انڈے مارنا اور پرتشددواقعات کا تسلسل سے رونما ہونا کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایسے واقعات کاتواتر سے پیش آنا ثابت کرتا ہے یہاں کی سیاسی جماعتیں سیاسی اورجمہوری کلچر کو فروغ میں دینے میں مکمل طور پر ناکام ہیں، حالیہ دنوںمیں اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی بہن علیمہ خان پر انڈوں سے حملہکیا گیا اسکے بعد اسی مقام پر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سےصحافیوں پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا، ان دونوں واقعات کے پیچھےمحرکات آپ کے سامنے رکھتے ہیں اسکے بعد مجموعی سیاسی رویوں پربھی بات کرینگے۔
5 ستمبر کی صبح اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ کے باہر پی ٹی آئیکارکنان بڑی تعداد میں جمع تھے، توشہ خانہ ٹو کیس کی تاریخ تھی عمرانخان کی ہمشیراہ علیمہ خان اپنی بہن عظمی خان کے ہمراہ سماعت میںشامل ہونے کیلئے جیل کے باہر موجود تھیں، علیمہ خان اپنی گاڑی سےاتریں تو صحافی اور یوٹیوبرز معمول کے مطابق ان سے گفتگو کیلئے ان کےآس پاس جمع ہوگئے ، چار پانچ منٹ گفتگو کے بعد علیمہ خان اپنی گاڑیکی طرف جانے لگی تو بول نیوز سے وابستہ رپورٹر طیب بلوچ اور انکےہمراہ آئے تین سے چار صحافیوں نے ان سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیاکی جانب سے ان سمیت دیگر صحافیوں کی ٹرولنگ اور دھمکیوں کی مذمتکرنے کا مطالبہ کیا، علیمہ خان نے طیب بلوچ اور انکے ہمراہ آئے صحافیوںکو نظر انداز کرتے ہوئے انکے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، مذکورہصحافیوں نے علیمہ خان کو انکی گاڑی تک فالو کیا اور ان سے مسلسلصحافیوں کی ٹرولنگ پر مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
اس دوران شورشرابا اور تو تو میں میں بھی ہوتی رہی، موقع پر موجود پی ٹی آئی کیخواتین اور کارکنان کو صحافیوں کا یہ رویہ اچھا نہیں لگا وہ صحافیوں پرچلانا شروع ہوگئے، پی ٹی آئی راولپنڈی کی خاتون رہنما سیمابیہ طاہر اورصحافیوں کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، سیمابیہ طاہر کا کہنا تھاصحافی سوال کرے جواب دینا نہ دینا علیمہ خان کہ صوابدید ہے لیکنعمران خان کی بہن کو ہراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔
اسدوران پی ٹی آئی کی خواتین نے صحافیوں کو دھکے بھی مارے معاملہ توتکرار یہاں پر ختم ہوگیا، علمیہ خان اپنی بہن کے ہمراہ توشہ خانہ ٹو کیسکی سماعت میں شامل ہونے کیلئے اڈیالہ جیل کے اندر چلی گئیں، سماعتتین سے چار گھنٹے تک چلی، سماعت کے بعد علیمہ خان معمول کے مطابقمیڈیا سے گفتگو کیلئے اڈیالہ جیل سے قریبا ایک کلو میٹر کے فاصلے پرداہگل کے مقام پر میڈیا سے گفتگو کیلئے پہنچ گئیں جہاں نیوز چینلز کی ڈیایس این جیز اور کیمرے لگے تھے، داہگل ناکے پر پہلے سے ایک احتجاججاری تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا احتجاجی مظاہرین سرکاری ملازمین ہیںاور وہ خیبرپختونخوا سے آئے ہیں، مبینہ سرکاری ملازمین کے پی حکومتاور وزیر اعلٰی علی امین گنڈا پور کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے جب انسے مطالبات کا پوچھا گیا تو مبینہ سرکاری ملازمین کا کہنا تھا انکیسیلریز، سروس اسٹرکچر کے مسائل ہیں اور صوبے میں اداروں کینجکاری ہورہی ہے علی امین گنڈا پور انکی بات نہیں سن رہے اسلئے وہاپنی آواز عمران خان تک پہنچانے آئے ہیں۔
احتجاجی مظاہرین کی تعداد 50 سے زائد نہیں تھی، مظاہرین نے پہلے علیمہ خان کا راستہ روکا اور ان سےعلی امین گنڈا پور کی شکایتیں لگانے لگے لیکن علیمہ خان احتجاجیمظاہرین کو نظر انداز کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کیلئے آگے بڑھ گئیں،علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں تقریبا وہ اپنی گفتگو ختم کرنےوالی تھیں کہ اچانک کیمروں کے عقب سے ایک انڈا گولی کی رفتار سے آیااور علیمہ خان کے منہ پر لگ کے انکے کپڑوں پر گرا، علیمہ خان پر دو انڈےپھینکے گئے تھے لیکن ایک انڈا نشانے پر لگنے کے بجائے زمین پر گر پڑا،انڈا لگنے کے بعد علیمہ خان سمیت موقع پر موجود سبھی لوگ ایک دم شاکہوگئے کہ یہ کیا ہوا۔
علیمہ خان کے ساتھ پی ٹی آئی خواتین نے شور شراباکیا سب کی توجہ کیمروں کے عقب میں موجود نقاب کئے ہوئے دو خواتین پرمرکوز ہوگئی، پی ٹی آئی کارکنان ان دو خواتین کے پیچھے دوڑ پڑے انکوپکڑنے کی کوشش کی، لیکن رش اور بھگدڑ کی وجہ سے دونوں خواتین موقعسے نکلنے میں کامیاب ہوکر قریب ہی ایک سفید رنگ کی گاڑی میں جاکربیٹھ گئیں، کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ کون لوگ ہیں؟ یہاں تک کیسے آئے وغیرہوغیرہ جیسے سوالات سب کی زبان پر تھے، اتنے میں پی ٹی آئی کارکناننے اس سفید رنگ کی گاڑی کو گھیر لیا اور ان خواتین کو نیچے اتارنے کیلئےشور مچایا، موقع پر موجود پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کا غصہ دیکھ کرانڈا پھینکنے والی دونوں خواتین کو ریسکیو کرکے اڈیالہ جیل پولیس چوکیمنتقل کردیا، پولیس تحویل میں دو خواتین کے بارے صحافی ابھی اپنے اپنےذرائع سے معلومات کر ہی رہے تھے کہ راولپنڈی پولیس کے ترجمان کی جانبسے ایک بیان جاری ہوا جس میں بتایا گیا علیمہ خان پر انڈوں سے حملہکرنے والی دونوں خواتین کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے یہ خواتینخیبرپختونخوا سے آئے سرکاری ملازمین کے احتجاج میں شریک تھیں،ترجمان پولیس کا کہنا تھا دونوں خواتین نے علیمہ خان سے اپنے مطالباتسے متعلق سوال پوچھنا چاہا لیکن موقع نہ دئیے جانے پر دونوں خواتین نےعلیمہ خان پر انڈے پھینکے، پولیس تحویل میں خواتین سے مزید پوچھ گچھکی جارہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ علیمہ خان پر انڈا پھینکنے والیخواتین کی شناخت تاحال سامنے نہیں آئی، انڈا پھینکنے والے واقعہ کے دودن بعد یعنی پیر 8 ستمبر کو اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ٹو کیس کی اگلیتاریخ تھی، پی ٹی آئی کارکن، وکلاء اور خواتین کافی تعداد میں اڈیالہ جیلپہنچے تھے، اڈیالہ جیل کے باہر ماحول بتارہا تھا کوئی نہ کوئی نیا واقعہرونما ہونے والا ہے، اطلاعات تھیں کہ صحافی طیب بلوچ اور انکے ساتھدیگر دو چار صحافیوں کو ٹارگیٹ کیا جاسکتا ہے، کچھ پی ٹی آئی ورکرزنے بتایا چند صحافیوں کی آج پھینٹی لگنے والی ہے، پولیس نے ماحول دیکھکر پی ٹی آئی کارکنان کو اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ سے ہٹا کر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھنے کی اجازت دے دی، آج علیمہ خان دونوں بہنوںنورین نیازی اور عظمی خان کے ہمراہ اڈیالہ جیل پہنچیں تھیں لیکن جیلآتے وقت انہوں نے صحافیوں سے کوئی گفتگو نہیں کی، پولیس نے بھیانکی گاڑی سیکورٹی وجوہات کے باعث گھیرے میں لیکر جیل کے اندر روانہکردی۔
سماعت ختم ہونے کے بعد علیمہ خان ہمیشہ کی طرح دیگر دو بہنوں نوریننیازی اور عظمی خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کیلئے اڈیالہ جیل کے گیٹنمبر ایک پر پہنچیں تو کارکنان کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی، کارکنانمسلسل نعرے لگارہے تھے، علیمہ خان کارکنوں کے درمیان سے گزر کرمشکل سے کیمروں تک پہنچی، دلچسپ بات یہ ہے کہ صحافی طیب بلوچ پرتشدد کا چرچا تو ہر طرف ہوا، ٹی وی اسکرینوں پر بریکنگز بھیچلیں،پروگرام بھی ہوئے لیکن یہ جھگڑا شروع کہاں سے ہوا کسی نے نہیںبتایا۔
علیمہ خان کی میڈیا سے گفتگو کے دوران جب شور شرابا اور کارکنانکا جم گٹھا ہوا تو جی این این سے وابسطہ سینئر صحافی اعجاز احمدمشکل سے کارکنان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کسی طرح علیمہ خان تک پہنچگئے، اعجاز احمد علیمہ خان کو بتارہے تھے کارکنان کو پیچھے کروائیں آپنے تقریر نہیں میڈیا سے بات کرنی ہے ہم نے آپ کی گفتگو رپورٹ کرنی ہےآپ نے رپورٹرز کے سوالات بھی لینے ہیں لہذا کارکنان کو کنٹرول کریں،صحافی اعجاز احمد کی بات ادھوری تھی کہ علیمہ خان کی موجودگی میںموقع پر موجود چند کارکنان نے صحافی اعجاز احمد کو کھینچ کر اوپراٹھاکے مجمعے سے باہر پھینک دیا، شکر ہے انکو زیادہ چوٹ نہیں لگیکیونکہ ایک تو انکی عمر زیادہ ہے شوگر کے بھی مریض ہیں، جب اعجازاحمد کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا اسکے بعد موقع پر موجود صحافیوں نےکہا اب حالات قابو سے باہر ہیں لہذا علیمہ خان کی گفتگو کا بائیکاٹ کرناچاہیے۔
اسی دوران بول نیوز سے وابسطہ صحافی طیب بلوچ نے علیمہ خانسے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ٹرولنگ اور دھمکیوں پرمذمت کا مطالبہ کیا، علیمہ خان نے پہلے نظر انداز کیا لیکن طیب بلوچمسلسل پوچھتے رہے ایسے میں علیمہ خان کے ہمراہ پاکستان تحریکانصاف کے نامور وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے طیب بلوچ کو مخاطب کرکےکہا تمہاری جرات کیسے ہوئی سوال کرنے کی، تمہاری اوقات کیا یے، تمٹاوٹ ہو اور ساتھ گندی گالیاں دینا شروع کردیں، نعیم حیدر پنجوتھہ نےکارکنان کو ہدایت کی طیب بلوچ کو اٹھا کر مجمعے سے باہر پھینک دو،اسکے بعد کارکنان طیب بلوچ اور اسکے ہمراہ آئے دو تین صحافیوں پر چڑھدوڑے، طیب بلوچ کو گھسیٹتے ہوئے پی ٹی آئی کارکنان مجمعے سے باہر لےگئے اور ان پر تشدد کیا، ماحول خراب ہوگیا تو میڈیا نے بھی علیمہ خان کیگفتگو کا بائیکاٹ کردیا، اس واقعہ کے بعد پولیس بھی حرکت میں آگئی،صحافیوں پر تشدد کے خلاف تھانہ صدر بیرونی نے علیمہ خان اور نعیمحیدر پنجوتھہ سمیت 40 نامعلوم کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے،مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے طیب بلوچ سمیت تین سے چار صحافی اڈیالہ جیلباقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت آرہے ہیں اور ان صحافیوں نے علیمہ خان پرپہلا حملہ منگل 2 ستمبر کو کیا جب طیب بلوچ اور دیگر دو صحافیوں نےعلیمہ خان سے انکی امریکہ میں جائیداد اور بشری بی بی کے ساتھ لڑائیسے متعلق سوالات کئے اور بدتمیزی کی، علیمہ خان نے بعد میں صحافیوںکو بھی بتایا آپ سوال کریں ہم جواب دینگے لیکن بدتمیزی اور تماشا نہلگائیں، علیمہ خان کا کہنا تھا طیب بلوچ سمیت انکے ساتھ آنے والےصحافی دو سال میں کبھی اڈیالہ جیل نہیں آئے نہ انکو کسی نے یہاںدیکھا، ہمیں معلوم ہے انکو کس نے بھیجا ہے کیوں بھیجا ہے کس لئے بھیجاہے، لیکن انکی بدتمیزیوں کے باوجود ہم اپنی بات عوام تک پہنچائیں گے، پیٹی آئی کی یہ بات اگر تسلیم کی جائے کہ طیب بلوچ اور انکے ساتھ آنےوالے دو تین صحافی کسی ایجنڈے پر ہیں اور وہ کوئی سین create کرناچاہتے تھے تو اسکا جواب کیا مار پیٹ اور تشدد سے دیا جانا چاہیئے تھا؟اس سوال کا جواب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے صحافیوں سےمعذرت کرکے دیا۔
صحافی کے سوال پوچھنے کا طریقہ اور سلیقہ غلط ہوسکتا ہے لیکن ہرسوال کو ذاتی حملہ تصور کرنا بھی عقلمندی نہیں، صحافیوں پر تشدد کےواقعہ کے تمام صحافتی تنظیموں نے مذمت کی ہے، چیئرمین پی ٹی آئیبیرسٹر گوہر خان نے صحافیوں پر تشدد کے واقع پر اڈیالہ جیل کے باہرصحافیوں سے نہ صرف معذرت کی ہے بلکہ اس واقعہ کی بھرپور مذمت کیہے، بعد می، علیمہ خان نے امریکہ میں جائیداد سے متعلق سوال پر کہا وہٹیکسٹائل امپورٹ کا کاروبار کرتی ہیں، انکی کمپنی پاکستان سے ٹیکسٹائلامپورٹ کرتی ہے، یہ بات درست نہیں امریکہ میں انکی جائیداد شوکت خانمکی فنڈ ریزنگ سے حاصل کی گئی ہے اور بشری بی بی سے انکی کوئیلڑائی نہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا پاکستانی سیاست میں تسلسل کےساتھ پر تشدد واقعات کا رونما ہونا کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایسے واقعاتتواتر سے پیش آنا ثابت کرتا ہے یہاں کی سیاسی جماعتوں نے تاحال کچھنہیں سیکھا خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف نے جس کے سربراہسمیت بیشتر مرکزی قیادت یا تو جیلوں میں ہے یا روپوش ہے، باقی سیاسیجماعتیں بھی ملک میں سیاسی اور جمہوری کلچر کی روایات ڈالنے میںناکام ہیں، جارحانہ سیاسی رویہ کبھی کبار شاید کسی کو فائدہ دیتا ہولیکن ہمیشہ نہیں اسکی بیشمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: طیب بلوچ اور انکے پی ٹی آئی کارکنان کے بعد علیمہ خان صحافیوں پر تشدد سرکاری ملازمین اڈیالہ جیل کے دونوں خواتین علیمہ خان کی خان کے ہمراہ علیمہ خان نے نے علیمہ خان علیمہ خان پر پی ٹی آئی کا جیل کے باہر کا کہنا تھا صحافیوں نے نے صحافیوں کارکنان کو خواتین نے نے صحافی خان اپنی اسکے بعد کے ساتھ سے باہر رہے تھے کی گاڑی سے ایک تین سے کہ میں
پڑھیں:
علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ مجھ پر انڈوں سے حملہ کرنے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، جن 2 خواتین نے مجھ پر انڈا پھینکا ان کو پولیس نے بچایا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس نے کہا کہ دونوں خواتین کو حراست میں لیا گیا ہے بعد میں دونوں کو چھوڑ دیا گیا۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ دو سال سے ہم جیل آتے ہیں کبھی کوئی بدتمیزی کا واقعہ پیش نہیں آیا، دو چار لوگوں کو باقاعدہ طور پر اب ماحول خراب کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پولیس نے بتایا 4 بندے بدتمیزی کرنے کے لیے آپ کے پیچھے ہیں، کسی کی بھی ماں بیٹی پر اس طرح حملہ ہوگا کوئی برداشت نہیں کرے گا، ہمارا معاشرہ اور دین خواتین سے اس طرح کی بدتمیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کل بھی ہمارے ساتھ جیل کے باہر اسی خاتون نے بدتمیزی کی کوشش کی جس نے انڈا پھینکا، جیل کے باہر کل ہمارے اوپر کسی نے پتھر بھی مارے، پہلے انڈا پھینکا، پھر بدتمیزی کی، کل پتھر مارے اب چھرا بھی مار سکتے ہیں۔ علیمہ خان نے کہا کہ ہمارا کام بانی پی ٹی آئی کا پیغام پہنچانا ہے وہ ہم پہنچائیں گے، ہم پر حملہ ہوا ہماری ایف آئی آر پولیس درج نہیں کر رہی۔ ہمارے وکلاء جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اے ٹی سی منتقل کرنے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کریں گے۔ قانون اور انصاف تو یہاں ہے نہیں، یہ بانی پی ٹی آئی کی آواز بند کرنا چاہتے ہیں۔