غیرمرئی قوت اور کائنات کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
کائنات اور اس کے اسرار پر تحقیق ہمیشہ انسانی عقل و شعور کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا سوال رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس نے اپنی بنیادیں بدلی ہیں، نئے نظریات سامنے آئے، پرانے خیالات رد ہوئے، اور بعض نے اپنے آپ کو وقت کی کسوٹی پر اس طرح منوایا کہ وہ انسانی فکروتحقیق کے ستون بن گئے۔
انہی میں سب سے نمایاں نام البرٹ آئن اسٹائن کا ہے۔ اس جرمن نژاد سائنس داں نے بیسویں صدی کے اوائل میں عمومی نظریۂ اضافیت پیش کیا، جب نہ جدید ٹیلی اسکوپس تھے، نہ کمپیوٹیشنل ماڈلز اور نہ ہی اربوں نوری سال پر محیط ڈیٹا دستیاب تھا۔ لیکن آئن اسٹائن نے محض ریاضیاتی بصیرت اور فکری تجزیے کی بنیاد پر یہ نقشہ کھینچا کہ کائنات میں کششِ ثقل محض ایک قوت نہیں بلکہ ایک ایسا ڈھانچا ہے جو زمان و مکان کو آپس میں باندھ کر رکھتا ہے۔
یہی وہ تصور تھا جس نے بعد میں فلکیات کی بنیادیں بدل ڈالیں۔ ابتدا میں آئن اسٹائن کے نظریات کو محض ریاضیاتی مشق سمجھا گیا۔
نیوٹن کی کششِ ثقل کو اس وقت ناقابلِ شکست مانا جاتا تھا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمومی نظریۂ اضافیت نہ صرف درست ہے بلکہ یہ ہمیں کائنات کے ہر پہلو کو سمجھنے کے لیے بنیادی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ 1919ء میں جب سر آرتھر ایڈنگٹن نے سورج گرہن کے دوران ستاروں کی روشنی کے جھکاؤ کا مشاہدہ کیا، تو دنیا کو پہلی بار احساس ہوا کہ آئن اسٹائن کا دعویٰ حقیقت رکھتا ہے۔ روشنی واقعی کششِ ثقل سے متاثر ہوتی ہے اور زمان و مکان ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
گذشتہ ایک صدی میں بارہا سائنس دانوں نے آئن اسٹائن کی مساواتوں کو پرکھا۔ کبھی بلیک ہولز کی دریافت کے ذریعے، کبھی کششِ ثقل کی لہروں کے ذریعے، اور کبھی کائنات کے پھیلاؤ کی پیمائش کے ذریعے۔ حیرت انگیز طور پر ہر بار آئن سٹائن کا نظریہ اور زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آیا۔
بیسویں صدی کے آخر تک یہ بات سامنے آ گئی کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ یہ پھیلاؤ تیز بھی ہوتا جارہا ہے۔ یہ انکشاف فلکیات کی دنیا میں زلزلے سے کم نہ تھا۔ 1998ء میں دو مختلف ٹیموں نے جب دور دراز سپرنووا ستاروں کی روشنی کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ کہکشائیں ہم سے تیزی سے دور جا رہی ہیں۔ سوال پیدا ہوا: یہ دھکیلنے والی قوت کون سی ہے؟ اور اسی وقت ’’ڈارک انرجی‘‘ کا تصور سامنے آیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس قوت کا سراغ آئن اسٹائن کی مساواتوں میں پہلے ہی موجود تھا۔ آئن اسٹائن نے اپنی مساواتوں میں ’’کاسمولوجیکل کانسٹنٹ‘‘ شامل کیا تھا تاکہ کائنات کو جامد دکھا سکیں، کیوںکہ اْس زمانے میں یہی خیال عام تھا۔ لیکن جب ہبل نے کائنات کے پھیلاؤ کی دریافت کی، تو آئن اسٹائن نے اس مستقل کو ’’اپنی سب سے بڑی غلطی‘‘ قرار دیا۔ تاہم، وقت نے ثابت کیا کہ شاید یہ کوئی غلطی نہ تھی بلکہ ایک ایسی پیش گوئی تھی جس کی تصدیق کئی دہائیاں بعد ہونی تھی۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ڈارک انرجی اسی کاسمولوجیکل کانسٹنٹ سے جُڑا ہوا ایک مظہر ہے۔
یہاں ایک بنیادی فرق سمجھنا ضروری ہے۔ ’’ڈارک میٹر‘‘ اور ’’ڈارک انرجی‘‘ کو اکثر ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے، حالاںکہ یہ دو الگ مظاہر ہیں۔
ڈارک میٹر وہ پوشیدہ مادہ ہے جس کی کششِ ثقل کہکشاؤں کو بکھرنے سے بچاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کہکشائیں اپنے گرد گھومنے کی رفتار کے باعث ٹوٹ پھوٹ جاتیں۔ ڈارک انرجی اس کے برعکس ایک دھکیلنے والی قوت ہے جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرتی ہے اور کائنات کو وسعت دیتی ہے۔ سادہ الفاظ میں ڈارک میٹر کائنات کو جوڑنے والا گوند ہے، جبکہ ڈارک انرجی اسے پھیلانے والا ایندھن ہے۔
گذشتہ دہائی میں ڈیجیٹل آلات اور فلکیاتی مشاہدات نے اس موضوع کو نئی جہت دی۔ ’’ڈارک انرجی سروے‘‘ اور ’’ڈی ای ایس آئی‘‘ جیسے منصوبے اربوں نوری سال پرانے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ڈی ای ایس آئی نے چھے ملین سے زیادہ کہکشاؤں کی پیمائش کی، جن میں وہ بھی شامل تھیں جو کائنات کے بچپن میں وجود میں آئی تھیں۔ ان مشاہدات سے پتا چلا کہ آئن اسٹائن کا نظریہ اب بھی درست ہے اور کششِ ثقل طویل فاصلوں اور وقت کی وسعتوں میں بالکل ویسے ہی کام کرتی ہے جیسے اس نے کہا تھا۔
لیکن اس تحقیق نے ایک اور حیران کن امکان کو بھی جنم دیا: شاید ڈارک انرجی ایک مستقل قوت نہیں بلکہ وقت کے ساتھ کم زور ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کائنات کا مستقبل ہماری موجودہ پیش گوئیوں سے بالکل مختلف ہوگا۔ اگر ڈارک انرجی ہمیشہ یکساں طاقت ور رہے تو کائنات ایک دن ’’بگ رِپ‘‘ میں ختم ہوجائے گی، جہاں ہر کہکشاں، ہر ستارہ، حتیٰ کہ ہر ایٹم بھی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ لیکن اگر یہ قوت وقت کے ساتھ کم زور ہوتی گئی تو کائنات ایک متوازن مگر سست رفتار حالت کی طرف جا سکتی ہے، جہاں نہ مکمل انہدام ہوگا اور نہ لامحدود پھیلاؤ۔
اس منظرنامے میں انسانی بقا کا سوال بھی جُڑ جاتا ہے، کیوںکہ اگر کائنات بگ رِپ کی طرف بڑھ رہی ہے تو انسانی تہذیب کے لیے بقا کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ توازن کی طرف جاتی ہے تو شاید کھربوں سال بعد بھی کہکشانی ڈھانچے قائم رہیں۔ یہاں سائنس اور فلسفہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ فلسفہ کہتا ہے کہ انسان اپنی تقدیر کو سمجھنے کے لیے کائنات کو جاننے پر مجبور ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ کائنات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس پوشیدہ توانائی کی اصل فطرت کو کھولنا ہوگا۔
ڈی ای ایس آئی منصوبے کی قیادت امریکی محکمۂ توانائی کی لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری کر رہی ہے۔ اس میں دنیا کے 70 ادارے اور 900 سے زیادہ سائنس داں شریک ہیں۔ ان کا کام صرف فلکیات ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی ترقی بھی ہے، کیوںکہ اس پیمانے پر ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لیے نئی کمپیوٹیشنل طاقت اور الگورتھم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں وہ arXiv جیسے ریسرچ پلیٹ فارمز پر شائع ہوچکے ہیں، اور اگلے برسوں میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کی موجودگی نے ہمارے کاسمولوجیکل ماڈل کو کس طرح بدل دیا ہے۔ آج کا معیاری ماڈل — CDM اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ کائنات 5 فی صد نظر آنے والے مادے، 27 فی صد ڈارک میٹر اور تقریباً 68 فی صد ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ گویا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ حقیقت کا محض ہلکا سا عکس ہے۔ اصل حقیقت ان پوشیدہ قوتوں کے رحم و کرم پر ہے جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کے اثرات ہر طرف موجود ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آئن اسٹائن کا قول ہمیں یاد آتا ہے کہ ’’کائنات کے کچھ اسرار ہمیشہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہیں گے۔‘‘ روشنی کو ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگتے ہیں، اور کائنات کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں سے شاید کبھی روشنی زمین تک نہ پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی شعور کے سامنے ہمیشہ کچھ سوالات تشنہ رہیں گے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک صدی بعد بھی آئن اسٹائن کی مساواتیں زندہ ہیں اور کائنات کے رویے کو سب سے بہتر انداز میں بیان کر رہی ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج 2025 میں آئن اسٹائن کی پیش گوئیاں ایک بار پھر درست ثابت ہو رہی ہیں۔ کائنات کے پھیلاؤ کا راز ڈارک انرجی میں چھپا ہوا ہے، اور یہی راز ہماری بقا اور مستقبل سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ دریافت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کا مقام اس وسیع کائنات میں کیا ہے، اور کیا ہم واقعی اپنے انجام کو سمجھ پائیں گے؟ سائنس ہمیں راستے دکھا رہی ہے، لیکن فلسفہ ہمیں اس کا مفہوم سمجھنے پر اکساتا ہے۔ دونوں کے ملاپ سے ہی ہم شاید اس معمے کے قریب پہنچ سکیں کہ کائنات آخر کس سمت جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئن اسٹائن کی ا ئن اسٹائن کا ڈارک انرجی اور کائنات ڈارک میٹر کہ کائنات کائنات کے کائنات کو کائنات ا ہے کہ ا لیکن ا رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران برطانوی کوئین کمیلا کا مستقبل کی ملکہ کیٹ سے ’سردمہری‘ کا مظاہرہ
ونڈسر کیسل میں ایک رسمی ریاستی استقبالیہ تقریب کے دوران برطانوی بادشاہ چارلس سوم کی بیگم ملکہ کمیلا اور برطانوی ولی عہد کی اہلیہ شہزادی کیٹ کے درمیان ایک لمحہ ایسا بھی آیا جسے شاہی خاندان کے مداحوں نے ’کچھ عجیب‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی ولی عہد ولیم اور شہزادی کیٹ کا نیا گھر، ماہانہ کرایہ کتنا ہے؟
برطانوی میڈیا کے مطابق یہ لمحہ اس وقت پیش آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ برطانیہ کے دورے پر بدھ کو شاہی خاندان سے ملاقات کے لیے پہنچے۔
مستقبل کے ممکنہ بادشاہ ولیم اور مستقبل کی ملکہ کیٹ نے ونڈسر کیسل کے میدان میں صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ کا خیرمقدم کیا۔ بعد ازاں وہ شاہ چارلس اور ملکہ کمیلا سے ملنے کے لیے انہیں وکٹوریا ہاؤس کے باہر لے گئے۔
مزید پڑھیے: برطانیہ کے اگلے ممکنہ بادشاہ ولیم اپنی سلو موشن ویڈیوز کیوں جاری کر رہے ہیں؟
وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ صدر ٹرمپ اور میلانیا ٹرمپ کی شاہ چارلس اور ملکہ کمیلا سے گرم جوشی سے ملاقات کے بعد مرد حضرات ایک دوسرے سے بات کرنے لگے جبکہ ملکہ کمیلا نے میلانیا سے گفتگو شروع کی۔
کیا واقعہ پیش آیا؟اسی دوران شہزادی کیٹ نے میلانیا کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔ کچھ لمحے بعد ملکہ کمیلا نے ایک ہلکی سی ہاتھ کی جنبش سے شہزادی کیٹ کو اشارہ کیا کہ وہ آگے بڑھ جائیں۔ شہزادی نے مؤدبانہ انداز میں میلانیا سے رخصت لی اور اپنے شوہر، شہزادہ ولیم کے پاس چلی گئیں۔
یہ منظر اس وقت خاص طور پر نمایاں ہوا جب سب مہمان شاہی گھوڑا گاڑیوں کی آمد کے لیے قطار میں کھڑے تھے اور راستہ صاف کرنے کی ضرورت تھی۔
بعد ازاں ملکہ کمیلا اور میلانیا ٹرمپ ایک ساتھ اسکاٹش اسٹیٹ کوچ میں روانہ ہوئیں جہاں انہیں مزید بات چیت کا موقع ملا۔ جبکہ شاہ چارلس اور صدر ٹرمپ آئرش اسٹیٹ کوچ میں اور شہزادہ و شہزادی آف ویلز امریکی سفیر وارن اسٹیفنز اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ سیمی اسٹیٹ لینڈاؤ میں روانہ ہوئے۔
مزید پڑھیں: شہزادہ ولیم و اہلخانہ کا ایڈیلیڈ کاٹیج چھوڑ کر فاریسٹ لاج منتقل ہونے کا اعلان، نئے پڑوسی پریشان
یہ رسمی تقریب ایک ریاستی ضیافت پر اختتام پذیر ہوئی جس میں صدر ٹرمپ نے شہزادہ اور شہزادی آف ویلز کی خوب تعریف کی۔
یہ لمحہ عجیب کیوں محسوس ہوا؟یہ لمحہ اس لیے غیر معمولی محسوس ہوا کیونکہ شاہی تقریبات میں ہر حرکت اور گفتگو پہلے سے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق ہوتی ہے جہاں درجہ بندی، آداب اور باہمی احترام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
اب ایسے میں ملکہ کمیلا کی جانب سے شہزادی کیٹ کو ہاتھ کے اشارے سے گفتگو ختم کرنے کا کہنا کچھ ناظرین کو اچانک اور بے تکلفی سے ہٹ کر لگا۔
شہزادی کیٹ شاہی خاندان کی ایک سینیئر اور مقبول شخصیت ہیں اس لیے اس انداز میں بات روکنے کو کچھ لوگوں نے سرد مہری یا بیزاری کا اشارہ سمجھا۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ملکہ کمیلا صرف تقریب کے نظم و نسق کو یقینی بنا رہی ہوں لیکن چونکہ یہ سب کچھ کیمروں کے سامنے ہوا اس لیے سوشل میڈیا پر اسے عجیب طرز عمل قرار دیا گیا۔
کیا ملکہ کمیلا اور شہزادی کیٹ کے درمیان کوئی چپقلش ہے؟شاہی تقریبات میں ہر اشارہ اور انداز توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور مذکورہ تقریب میں ملکہ کمیلا کا شہزادی کیٹ کو گفتگو کے دوران اچانک اشارے سے ہٹانا کچھ ناظرین کو غیر معمولی محسوس ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: برطانوی شاہی خاندان کی معمر ترین رکن شہزادی کیتھرین انتقال کرگئیں
سوشل میڈیا پر اس لمحے نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا کہ شاید دونوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی ہے۔
تاہم اب تک کسی مستند یا قابل اعتماد ذریعے نے یہ تصدیق نہیں کی کہ شہزادی آف ویلز اور ملکہ کمیلا کے درمیان کوئی اختلافات موجود ہیں۔
دونوں شاہی خواتین اکثر اہم مواقع پر ایک ساتھ بھی دیکھی گئی ہیں اور بظاہر اپنے شاہی فرائض روایتی و باہمی احترام کے ساتھ ادا کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: حقیقی زندگی میں طلسماتی کہانی جیسا سماں باندھتی مشہور شاہی شادیاں
البتہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اندرونی سطح پر باہمی فاصلے یا اختلاف رائے ممکن ہے جو شاذ و نادر ہی تقریبات میں جھلک دکھا دیتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانوی شاہی خاندان برطانیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہزادی کیٹ ملکہ کمیلا