WE News:
2025-09-18@21:27:22 GMT

پاکستان کا سب سے قیمتی نعرہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT

اس ملک میں بہت نعرے لگائے گئے۔ بعض نے یوں بھی کہا کہ یہاں نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور  نعرے تھے۔ کوئی نعرہ تاریخ کی بساط پر زندہ رہتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ لیکن کسی نعرے کی قبولیت کو پرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے نعرہ کون لگا رہا ہے؟ کب لگا رہے؟ کیسے لگا رہا ہے؟ کس وقت لگا رہا ہے؟ اور کس زمانے میں لگا رہا ہے؟ یہی عناصر فیصلہ کرتے ہیں کہ نعرہ زندہ رہا یا ردی کی ٹوکری کی ںذر ہو گیا۔

اپنے ہاں کچھ نعرے بے وقت لگے جس کی وجہ سے وہ وقت کے ساتھ اپنے معنی کھو گئے۔  جیسے ایوب خان کے دور میں ’سبز انقلاب‘ کا نعرہ لگا حالانکہ وہ زمانہ ’سرخ انقلاب‘ کا تھا۔اس وجہ سے ہمارا ’سبز انقلاب‘ اتنا معروف نہ ہو سکا ۔ ابھی ’سبز انقلاب‘ کی کامیابی کا جشن منایا ہی جا رہا تھا کہ ’سرخ انقلاب‘ ہمیں درپیش ہوا ۔ اس کے بعد نہ سبز انقلاب کا نعرہ رہا نہ نعرہ لگانے والے کا اقتدار ۔

کچھ نعرے صرف جذباتی ہوتے ہیں۔ جیسے بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑے اور مکان  کا نعرہ لگایا۔ وہ خود وڈیرے تھے۔ وسیع جائیدادوں کے مالک تھے مگر غریب کے حق میں نعرہ لگانے سے نہ چوکتے تھے۔ انہوں نے سرخ انقلاب کا بھی خیر مقدم کیا اور سبز انقلاب کو بھی زندہ رکھا۔ اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہمارا نظام کا نعرہ بھی اس دور میں تخلیق ہوا۔ مزدور یونینز اور طلبا یونینز بھی اس زمانے میں نعرے لگاتی پھرتی تھیں۔ پھر انقلاب میں بتدریج سرخی کم اور ہرا رنگ زیادہ نمایاں رہنے لگا۔ سرخ انقلاب کے نعرے بھٹو صاحب کے ساتھ ہی پھانسی پر جھول گئے۔  غریب کو نہ کبھی روٹی میسر آئی نہ تن پر کپڑا نصیب ہوا نہ ان کے سر پر چھت ملی۔

کچھ نعرے اس وجہ سے وقعت کھو گئے کہ وہ  بین الاقوامی ضروریات کے تحت لگے۔  ضیاءالحق آئے تو نظام شریعت کا نعرہ لگا۔ افغان جہاد کا غلغلہ بلند ہوا۔ افغان، پاکستان بھائی بھائی کا نعرہ لگا۔ انصار اور مہاجرین کی مثالیں دوہرائی گئی۔ گیارہ سال ضیا الحق  کی حکومت رہی۔ اس زمانے میں کیا کیا ہوا۔ ملک بدل گیا، سماج بدل گیا، روس تباہ ہو گیا، امریکا اکلوتی سپر پاور رہ گیا۔ اس زمانے میں افغانستان  کو پانچواں صوبہ بنانا ہمارا خواب تھا۔ آج دیکھیں تو وہ خواب ایک بھیانک تعیبر بن چکا ہے۔

افغان جنہیں ہم نے اپنے گھروں، شہروں میں جگہ دی اب احسان فراموش بن چکے ہیں۔ وہ جو دشمن کے لیے کمانیں کھینچ کر بیٹھتے تھے، اب اپنے محسنوں کے ملک میں دھماکے کر رہے ہیں۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ ایک جہاز کا حادثہ ہوا پھر اس دور کا ہر نعرہ بھی ایک مسجد کے احاطے میں دفن ہو گیا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اس دور کا نعرہ لگانا تو کجا اب کوئی مزار پر دعا کرنے بھی نہیں جاتا۔

کچھ نعرے صرف سیاسی مخاصمت میں لگے۔ ایک ایسا دور آیا کہ  دو، دو دفعہ سیاستدانوں کو سیاستدانوں کی ہی تذلیل کے نعرے لگانے پڑے۔ نواز شریف اور بے ںظیر کی حکومت کو دو، دو باریاں ملیں دونوں نے خوب ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک نے دوسرے پر مقدموں کی فائلیں کھلوائیں تو دوسرے نے کرپشن کا الزام لگایا۔ اسمبلی مچھلی بازار بن گئی۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے نعرے لگائے کہ خدا کی پناہ۔ نہ عورت ذات کا لحاظ رہا نہ پنجاب کی پگ سلامت رہی۔

ہر 2 سال کے بعد صدر مملکت کو کرپشن کے کیس نظر آتے اور اسمبلی تڑک کر کے ٹوٹ جاتی۔ اسی زمانے میں نواز شریف نے پنجاب بینک کا نعرہ لگایا۔ موٹر وے کا نعرہ لگایا۔ پیپلز پارِٹی کی حکومت میں یہ بھی نہیں ہوا وہ حکومتیں صرف نعروں تک محدود رہیں۔ اور لڑائی اس قدر بڑھی کی جنرل مشرف کو مجبوراً اقتدار میں آنا پڑا۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی دو، دو باریاں لینے والوں کے سب  نفرت انگیز نعرے تاریخ میں دفن ہو گئے۔

کچھ نعرے بین الاقوامی مصلحتوں کو مدںظر رکھ کر لگے۔ جنرل مشرف نے  روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ اکھٹے ہی لگا دیا۔ اپنے پالتو کتوں کےساتھ  ہاتھ میں گلاس تھام کر تصویر بھی کھنچوائی۔ ان کی کوشش تھی کہ ماضی کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ وہ جو افغان جنگ ہوئی تھی اس کے مضمرات کو کھرچ دیا جائے۔ اسی اثنا میں نائن الیون بھی ہوگیا۔

جنرل صاحب کے اقتدار کو مہمیز بھی ملی اور ہم نے خارجہ اور داخلہ کی سطح پر  ایک تاریخی یو ٹرن بھی لیا۔ المیہ یہ ہوا کہ قوم نے اس یو ٹرن میں جنرل صاحب کا ساتھ نہیں دیا۔ قوم وہیں کھڑی رہی اور جنرل صاحب، پہلے صدر بنے پھر دوبئی چلے گئے اور پھر دنیا سے چلے گئے مگر اس دور کا کوئی نعرہ اب کسی کو یاد نہیں۔ اب نہ ہم روشن خیال رہے نہ اعتدال پسند۔

کچھ نعرے آئینی بھی لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اٹھارہوں ترمیم کا نعرہ لگایا۔ صوبوں کے حق کی بات کی۔ وسائل کی تقسیم کا نعرہ لگایا۔ وسائل بھی تقسم  ہوگئے اور صوبے بھی خود انحصار ہو گئے مگر وفاق غریب ہوگیا۔ اتنا غریب کہ اس دور میں لوڈ شیڈنگ کے سوا  کوئی نعرہ نہیں بچا۔ میاں صاحب اقتدار میں آئے تو نعرہ دوسری جانب سے لگا۔ آواز کرپشن کی آئی اور نتیجہ پاناما کی صورت میں نکلا۔ اقتدار بھی گیا اور عزت بھی۔

 کارکردگی کا نعرہ فیل ہو گیا کیونکہ عمران خان کا آنا ٹھیر گیا تھا۔ پھر خان صاحب نے ہر وہ نعرہ لگایا جو ان کے حق میں تھا لیکن جب بڑوں کا  لاڈ پیار ختم ہوا تو پھر خان صاحب نے جو نعرے لگائے وہ سماعتوں پر بہت گراں گزرے۔  قصہ مختصر غلامی سے آزادی کا نعرہ لگانے والا آج کل  قید میں ہے اور قوم کو وہ نعرہ نہیں بس 9 مئی یاد ہے۔

کچھ نعرے جبر کی حالت میں بھی لگے۔ زبردستی لگوائے گئے۔  ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بستیاں جہاں سیلاب کے بعد موت پانی پر ناچ رہی تھی۔ لاشیں دریا برد ہو رہی تھیں،  وہاں لیڈروں کے زندہ باد کے نعرے بھی لگے۔ وہ تو غنیمت ہوئی کسی کا دھیان نہیں گیا ورنہ ظالموں نے ہر تابوت پر بھی اپنی تصویر چھپوا دینی تھی۔

پاکستانی تاریخ کے مختصر سفر میں ان میں سے کوئی نعرہ دوام حاصل نہیں کر سکا۔ اپنے اپنے دور میں مقبول رہنے والوں سب نعروں پر وقت کی گرد پڑتی رہی۔ سب نعرے دھول ہوئے۔

 ہاں کچھ نعرے دلیری، شجاعت  کے بھی لگے۔ یہ نعرے ایک جنازے پر لگے۔ جنازہ، نعرے لگانے والے کے 31 سالہ شیر جوان بیٹے میجر عدنان شہید  کا تھا۔ جس کے جسد پر اس کی خاکی وردی رکھی تھی اور تابوت سبز پرچم اوڑھے ہوئے تھا۔  نعرے لگانے والا شہید کا باپ تھا جو بیساکھی کی مدد سے جنازے کے آگے چل رہا تھا۔  نہ اس کی آنکھ میں آنسو تھے نہ آواز میں لرزہ تھا۔ جوان بیٹے کی میت سنبھالے اس کی زبان پر بس ایک ہی نعرہ تھا۔

پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد۔

اس نے اس شدت سے یہ  نعرہ لگایا  کہ زمیں بھی کانپ گئی،  فلک بھی تھرا گیا۔ ایک باپ کی بہادری اور ایک شہید بیٹے کی دلیری نے اس لمحے کو ،اس نعرے کا دوام بخش دیا۔ یہ وہ نعرہ تھا جو کبھی وقت کی گرد میں گم نہیں ہو گا۔ جب تک اس نعرے کی گونج ہماری یاداشت میں باقی رہے گی، یہ وطن محفوظ رہے گا۔ یہ جذبہ  سلامت رہے گا۔ یہ وطن بھی سلامت رہے گا۔

ماضی کے ہر نعرے کی قیمت تھی یہ نعرہ انمول تھا۔ اس ایک نعرے کی قیمت پوری قوم  بھی نہیں چکا سکتی۔ یہ سب سے قیمتی نعرہ تھا۔ یہ ہماری بقا کا استعارہ تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کا نعرہ لگایا کا نعرہ لگا سرخ انقلاب نعرے لگائے نعرے لگانے سبز انقلاب لگا رہا ہے کوئی نعرہ کچھ نعرے کی حکومت نعرے کی بھی لگے کے ساتھ ہو گیا

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ

پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ جس کے بعد ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا۔ اس معاہدہ پر دستخط کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ریاض گئے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی اور پھر معاہدہ پر دستخط کی تقریب ہوئی۔

پاکستان و سعودی عرب کے درمیان آٹھ دہائیوں پر محیط برادرانہ، اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدہ کو ''اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے'' (SMDA) کہا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اور مشترکہ دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔وزیر اعظم پاکستان کی سعودی عرب آمد پر انھیں سعودی جنگی جہازوں نے سلامی دی ۔جو اپنی جگہ اہم ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس باہمی دفاعی معاہدہ نے عالمی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدہ کو کسی خاص واقعہ کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عرب دنیا میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط ہو گیا تھا۔ عرب دنیا میں یہ سوچ مضبوط ہو گئی تھی کہ اسرائیل کے خلاف شاید امریکا ان کا دفاع نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے سوا انھیں فی الحال کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو اپنے دفاع کے کمزور ہونے کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا باہمی دفاع کا معاہدہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نیٹو ممالک کے درمیان بھی یہی معاہدہ ہے۔ ایک نیٹو ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ شمالی کوریا اور روس کے درمیان بھی ایسا معاہدہ ہے، اور بھی ممالک نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ ایسے مشترکہ دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یہ معاہدے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ اب دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہم سعودی عرب کا ہر قسم کی جارحیت سے دفاع کرنے کے اب پابند ہیں۔ یہ صرف اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔ اگر یمن کے حوثی بھی اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں جیسے انھوں نے ماضی میں میزائیل داغے بھی ہیں۔ تو ہم تب بھی سعودی عرب کے دفاع کے پابند ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی بھارت کے خلاف ہمارے دفاع کا پابند ہوگیا ہے۔ اگر بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو یقیناً وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔ یقیناً یہ بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تو کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاشی تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور بھارت کے درمیان کافی معاشی تعلقات موجود ہیں۔ بھارت کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ اب پاکستان سے اس کی لڑائی سعودی عرب سے بھی لڑائی تصور ہوگی۔

ایک رائے یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی میزائیل ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہم اپنے میزائیل سعودی عرب میں لگا سکتے ہیں، یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ اسرائیل کو پہلے یہ خطرہ تھا کہ ہمارے میزائل اسرائیل پہنچ سکتے ہیں۔ اس نے امریکا کو کئی بار شکایت لگائی ہے کہ ہم بڑی رینج کے میزائل بنا رہے ہیں جو بھارت کی بجائے اسے بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن اب تو ہم یہ میزائل سعودی عرب میں بھی لگا سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ خطہ کی صورتحال بھی دلچسپ ہو گئی ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے درمیان پہلے ہی دفاعی تعلقات موجود ہیں۔ اسرائیل بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی دیتا ہے لیکن بھارت اور اسرائیل کے درمیان کوئی باہمی دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہم نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا پاکستان کے خلاف استعمال دیکھا ہے۔اسرائیلی ڈرون پاکستان پر آئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کے لیے زیادہ پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ کیا دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کریں گے۔ کیا متحدہ عرب امارات بھی ایسا معاہدہ کرے گا۔ کیا قطر، بحرین اور دیگر عرب دنیا بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کرے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عرب دنیا نے مل کر پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں نہیں کیا۔ ایسا معاہدہ عرب اجلاس کے موقع پر بھی ہو سکتا تھا۔ویسے تو سعودی عرب عرب دنیا کا لیڈر ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عرب دنیا سعودی عرب کے پیچھے چلتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان دفاعی تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان ایسے معاہدے اور عرب دنیا کے ساتھ کرے گا۔ مشترکہ دفاع کا معاہدہ صرف سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوگا۔ لیکن دیگر عرب دنیا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھے گا جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب ترکیہ کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ وہ روس چین کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ نہیں ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ترکیہ نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہے جب کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا دفاعی تعاون پہلے ہی امریکا کے ساتھ موجود ہے۔ وہ امریکا اور روس کے درمیان جاری کسی تناؤ کا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ آگے چین اور امریکا کے درمیان بھی تنازعات ہوں گے۔ چین اگلی سپر طاقت ہے۔

اس لیے سعودی عرب چین اور امریکا کے درمیان کسی لڑائی کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ سعودی عرب ایک ایسے دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ معاہدے سے عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ وہ ایک غیر جانبدار دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جو پاکستان سے بہتر میسر نہیں تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان پہلے ہی سعودی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔

پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے پہلے ہی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ تعاون صرف دفاع تک محدود رہے گا۔ تعان بڑھے گا تو سب شعبوں میں بڑھے گا۔ اس لیے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خوشحالی کی نوید بھی لائے گا۔ مسلم دنیا کی سیاست بھی بدل گئی ہے۔ پاکستان کی مسلم دنیا میں پہلے ہی بہت اہمیت تھی۔ اب تو پاکستان اور سعودی عرب اکٹھے نظر آئیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
  • مصر کے میوزیم سے فرعون کا 3 ہزار سال پرانا سونے کا قیمتی کڑا غائب
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • کامن ویلتھ رپورٹ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے
  • چلڈرن غزہ مارچ”ہزاروں طلبہ و طالبات کی شرکت، اسرائیلی جارحیت کیخلاف نعرے
  • ریلوے ڈویژن پشاور کا تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن، اربوں روپے مالیت کی قیمتی ریلوے زمین واگزار کرالی گئی
  • جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا ہر لمحہ قیمتی، اینالینا بیئربوک
  • بدین: سیاف کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ میں شرکاء نعرے لگا رہے ہیں
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • کراچی؛ اسٹیل مل سے لوہا، تانبا و قیمتی سامان چوری کرنے والا ملزم گرفتار