’بُنا‘ سے انضمام: حکومت نے صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگیوں میں بڑی سہولت دینے کا فیصلہ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
پاکستان نے عرب دنیا کے علاقائی ادائیگی پلیٹ فارم ’بُنا‘ (Buna) سے اپنے ڈیجیٹل ادائیگی نظام کو جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس انضمام کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم (Remittances) تیز، محفوظ اور جدید طریقے سے ملک میں منتقل ہو سکیں گی۔ تاہم، فی الحال اس نظام کے ذریعے پاکستان سے رقم باہر بھیجنے (Outflows) کی اجازت نہیں ہوگی۔
انگریزی اخبار سے وابستہ رپورٹر مہتاب حیدر کے مطابق یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سامنے آیا، جس کی صدارت سید نوید قمر نے کی۔ گورنر اسٹیٹ بینک، جمیل احمد، نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا مقامی ڈیجیٹل نظام ’راست‘ (Raast) بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ راست کے آغاز پر سالانہ لین دین کا حجم ایک کھرب روپے کے قریب تھا، لیکن اب یہ حجم صرف 9 دنوں میں ایک کھرب روپے سے بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے طلبا کے لیے خوشخبری، تعلیمی اخراجات کے لیے ڈیجیٹل فائنانسنگ کی جانب پیشقدمی
’بُنا‘ پلیٹ فارم کیا ہے؟بُنا عرب مانیٹری فنڈ (AMF) کے زیر انتظام ایک کراس بارڈر اور ملٹی کرنسی ادائیگی پلیٹ فارم ہے، جو 2020 میں شروع کیا گیا۔ یہ پلیٹ فارم عرب اور بین الاقوامی کرنسیوں میں لین دین کی سہولت فراہم کرتا ہے، مثلاً سعودی ریال اور اماراتی درہم۔ مستقبل میں دیگر کرنسیوں، مثلاً چینی یوآن، کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ خطے میں معاشی انضمام اور تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔
مرچنٹس سے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن فیس نہ لینے کا فیصلہ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اس نئے انتظام سے ترسیلات زر تیز اور محفوظ ہو جائیں گی۔ 2028 تک ہدف ہے کہ پاکستان کے 75 فیصد نوجوان ڈیجیٹل مالیاتی سہولیات استعمال کریں۔ جون 2026 تک وفاقی اور صوبائی سطح پر کیش لیس اکانومی (Cashless Economy) متعارف کروا دی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک نے اب تک 5 ڈیجیٹل ادائیگی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ہیں۔ ڈیجیٹل لین دین پر مرچنٹس سے 0.
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ کے مطابق ملک میں 9 کروڑ 50 لاکھ افراد موبائل بینکنگ ایپس استعمال کر رہے ہیں۔ 22 کروڑ 60 لاکھ بینک اکاؤنٹس میں سے 9 کروڑ 60 لاکھ اکاؤنٹس منفرد صارفین کے ہیں۔ 19 ہزار بینک برانچز اور 20 ہزار اے ٹی ایمز فعال ہیں۔ 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد QR کوڈ مرچنٹس نظام میں شامل ہیں۔
کمیٹی چیئرمین سید نوید قمر نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی معیشت کا 50 فیصد حصہ غیر دستاویزی ہے، اس لیے آف لائن ٹرانزیکشنز کی سہولت لازمی ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگی کے لیے ’گوگل والٹ‘ کا اجرا
حنا ربانی کھر نے کہا کہ انٹرنیٹ کی سست رفتار اور بار بار تعطل کی وجہ سے ڈیجیٹل معیشت کے فروغ میں رکاوٹ آئے گی۔
دیگر اموراجلاس میں کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (CSR) بل کا بھی جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین ایس ای سی پی نے بتایا کہ 2024 میں 447 کمپنیوں میں سے 315 نے CSR سرگرمیاں کیں اور 22 ارب روپے خرچ کیے۔ تاہم 199 کمپنیوں نے کوئی تفصیل نہیں دی اور 100 نے کچھ بھی خرچ نہیں کیا۔ تجویز دی گئی کہ CSR اخراجات کو لازمی قرار دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم شہبازشریف نے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا ہدف دوگنا کردیا
مزید برآں، اجلاس میں نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 2025–30 پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور وزارت صنعت و پیداوار کو اگلے اجلاس میں بریفنگ دینے کی ہدایت کی گئی۔
قرضوں کی ادائیگی اور بین الاقوامی مارکیٹگورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان 30 ستمبر 2025 کو یورو بانڈ کی 50 کروڑ ڈالر کی قسط بروقت ادا کرے گا اور اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ نہیں پڑے گا۔
ذرائع کے مطابق حکومت جلد ہی چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز (Panda Bonds) کے اجرا کی تیاری کر رہی ہے، جس کا پہلا اجرا دسمبر 2025 میں متوقع ہے، جس سے 20 سے 25 کروڑ ڈالر حاصل ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بزنس ڈیجیٹل ادائیگیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل ادائیگی
پڑھیں:
اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
وفاقی حکومت نے ٹیکس نیٹ کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے تحت نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور محصولات میں اضافے کیلئے نئے اقدامات تجویز کیے ہیں جو جلد نافذالعمل ہوسکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق نان فائلرز سے بینک سے نقد رقم نکلوانے پر ٹیکس کی شرح 0.8 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس مجوزہ اقدام سے حکومت کو سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہونے کی توقع ہے، تاہم اس سے لاکھوں نان فائلرز کو ہر اے ٹی ایم یا بینک ٹرانزیکشن پر دوگنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جس سے عام شہریوں کی جیب پر اضافی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز حکومت کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے پیش کی گئی ہیں، کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر اپنے محصولات کے ہدف سے پیچھے رہا۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہدف 3083 ارب روپے تھا، تاہم ایف بی آر صرف 2885 ارب روپے جمع کر سکا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نان فائلرز کے بینک سے رقوم نکلوانے پر ٹیکس کٹوتی میں اضافہ کیا گیا، یومیہ 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پرٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کیا گیا، اس سے پہلے یومیہ 50 ہزار سےزائد رقم نکلوانے پر0.6 فیصد ٹیکس عائد تھا۔