27 ستمبر کو بانیٔ پی ٹی آئی نے جلسے کی کال دی ہے: فیصل جاوید
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسکرین گریب
پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ 27 ستمبر کو بانیٔ پی ٹی آئی نے جلسے کی کال دی ہے، جلسے میں ہر شخص بانیٔ پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے آواز بلند کرے گا۔
پشاور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فیصل جاوید نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کے خاندان کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ایسے سیاسی انتقام کا نشانہ کسی کو نہیں بنایا گیا، ہم چاہتے ہیں عدالتیں جَلد کیسز سنیں اور ہمیں انصاف ملے۔
فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ سارے کیسز بے بنیاد ہیں، القادر ٹرسٹ کیس کو بہت پہلے اُڑ جانا چاہیے تھا، اِن کیسز میں کچھ نہیں، تیزی سے انصاف ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سزائیں دی گئیں، یہ بالکل نا انصافی ہے، اتنے ووٹ لے کر ایک نمائندہ منتخب ہوتا ہے، پھر اس کو بے بنیاد نااہل کردیا جاتا ہے۔
عدالت میں پیشی
اس سے قبل رہنما پی ٹی آئی فیصل جاوید پشاور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
فیصل جاوید کی مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے عدالت میں جمع درخواست پر جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس محمد فہیم ولی نے سماعت کی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت میں اپنے مؤقف میں کہا کہ فیصل جاوید کے خلاف ایف آئی اے کی کوئی انکوائری نہیں۔
اس پر جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی رپورٹ نہیں آئی؟ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کریں گے۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے فیصل جاوید کی حفاظتی ضمانت میں آئندہ سماعت تک توسیع کر دی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔
عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟
اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔
Post Views: 6