ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ منگوا رہے تھے‘ کھا رہے تھے اور بل دے کر جا رہے تھے‘ نوجوان اکائونٹینٹ ریستوران کا مستقل گاہک تھا‘ وہ روز دیکھتا تھا گاہکوں کے درمیان درمیانی عمر کا ایک شخص آتا تھا‘ ناشتے کا آرڈر دیتا تھا‘ ناشتہ کرتا تھا اور بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر بل دیے بغیر چپ چاپ نکل جاتا تھا‘ یہ اس کے روز کا معمول تھا‘ اکائونٹینٹ کومحسوس ہوا یہ دکان دار کے ساتھ زیادتی ہے‘ اس بے چارے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔
لہٰذا ایک دن جب گاہک ناشتے کے بعد فرار ہونے لگا تو وہ اٹھا‘ سیدھا مالک کے پاس گیا اور اس شخص کی طرف اشارہ کر کے اسے بتادیا یہ روز بل دیے بغیر نکل جاتا ہے‘ مالک نے اکائونٹینٹ کی طرف دیکھا پھر ترچھی نظر سے مفت خور کو دیکھا اور مسکرا کر بولا ’’اسے جانے دیں‘ یہ ساری رونق اس کی وجہ سے ہے‘‘ نوجوان نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ مالک نے کائونٹر پر جونیئر کو بٹھایا ‘ اکائونٹینٹ کو سائیڈ پر لے کرکھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ’’بیٹا میرا ریستوران صبح کے وقت ویران ہوتا تھا۔
میں روز آتا تھا‘ ناشتہ تیار کرتا تھا لیکن گاہک نہیں آتے تھے ہاں البتہ دوپہر اور شام کے وقت تھوڑے بہت گاہک آ جاتے تھے اور یوں میرا دال دلیہ چل جاتا تھا لیکن پھر ایک دن کمال ہو گیا‘ میرے پاس صبح کے وقت بھی رش ہو گیا اور میرا سارا ناشتہ بک گیا‘ دوسرے دن بھی رش تھا‘ میں نے اس رش میں اس شخص کو دیکھا‘ اس نے کھانا کھایا اور رش کا فائدہ اٹھا کر نکل گیا‘ میں اس کے پیچھے بھاگا لیکن یہ گلیوں میں غائب ہو گیا‘ اگلے دن میرے پاس رش کم تھا‘ میں نے دیکھا‘ یہ آیا اور ریستوران کی سائیڈ پر سڑک پر کھڑا ہو گیا‘ یہ بار بار ریستوران کی طرف دیکھتا تھا۔
میں نے اس پر نظر رکھی ہوئی تھی‘ میں اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا‘ میرا خیال تھا یہ ناشتے کے بعد جوں ہی فرار ہونے لگے گا میں اسے دبوچ لوں گا‘ میری تیاری پوری تھی لیکن یہ اس دن ریستوران میں داخل نہیں ہو رہا تھا‘ میں نے دور سے محسوس کیا یہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا ہے‘ یہ بڑبڑاتا ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتا ہے‘ میں تجسس سے مجبور ہو کر اس کے پاس کھڑا ہو گیا‘ اس نے مجھے نہیںپہچانا‘ میں نے سنا‘ یہ باربار آسمان کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا ’’باری تعالیٰ بہت بھوک لگی ہے‘ تو اس دکان میں اتنا رش کر دے کہ میں کھانا کھا کر چپ چاپ نکل سکوں‘‘ یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے معلوم ہوا میں جس بھیڑ کو اپنی خوش قسمتی اور کمال سمجھ رہا تھا وہ اس ایک شخص کے کھانے کے لیے تھی‘ اللہ تعالیٰ روز اس کا پردہ رکھنے کے لیے میرے ریستوران میں بھیڑ کر دیتا تھا۔
میں چپ چاپ واپس آیا اور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ریستوران میں بھیڑ ہو ئی‘ یہ اس بھیڑ میں آیا‘ کھانا کھایا اور چپ چاپ نکل گیا‘ میں اب روز دیکھتا ہوں‘ یہ آتا ہے تو بھیڑ ہو جاتی ہے اور جس دن یہ نہیں آتا اس دن یہاں اُلو بول رہے ہوتے ہیں‘ آپ بھی اس دن ناغہ کر جاتے ہیں چناں چہ یہ میرا محسن ہے‘ یہ ساری بھیڑ اس کی برکت ہے‘ آپ اس پر توجہ نہ کریں‘ اپنا ناشتہ کریں اور نکل جایا کریں‘ اس کی طرف نہ دیکھیں‘ ہم بھی اسے نہیں دیکھتے‘ ہمیں خوف ہے یہ کہیں پکڑے جانے کے ڈر سے یہاں آنا بند نہ کر دے اوراگر یہ ہوگیا تو میرا سارا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔
یہ ایک کہانی ہے‘ اس کہانی کے اندر قدرت کا اہم ترین راز چھپا ہوا ہے‘ قدرت ہم سب کو کسی نہ کسی کا وسیلہ بناتی ہے‘ قدرت کے یہ وسیلے مائی حلیمہ ہوتے ہیں‘ آپ حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی کہانی پڑھیں‘ آپ کو ریستوران کے مالک کا فلسفہ سمجھ آ جائے گا‘ مائی حلیمہ غریب اور کم زور تھی‘ ان کی ساتھی دایوں کو قریش کے امیر اور خوش حال بچے مل گئے‘ وہ دایائیں کون تھیں اور انھیں قریش کے کون کون سے بچے ملے، کسی کو معلوم نہیں لیکن حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو ایک یتیم بچہ ملا اور اس یتیم بچے نے انھیں تاریخ بنا دیا۔
یہ اگر اس دن وہ بچہ چھوڑ جاتیں تو کیا آج ان کا نام تاریخ میں ہوتا؟ ہرگز نہ ہوتا اور اگر انھیںبھی اس دن کوئی خوش حال گھرانہ مل جاتا تو یقینا ان کی انکم میں اضافہ ہو جاتا لیکن ان کی گود رسول اللہ ﷺ سے محروم رہ جاتی اور یہ آج تاریخ کا حصہ نہ ہوتی لہٰذا مائی حلیمہ سعدیہؓ کی مسکینی اور غربت اللہ کو پسند آ گئی اور اس نے ان کی گود میں سرکارِ دوجہاں ﷺ ڈال کر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ قاہرہ شہر کی بنیاد بنا‘ حضرت عمر بن العاصؓ نے 640 ء میں مصر فتح کیا‘ آج جہاں قاہرہ شہر آباد ہے وہاں ان کا خیمہ ہوتا تھا‘ یہ اپنا خیمہ چھوڑ کر آگے نکل گئے‘ چند دن بعد واپس آئے تو خیمے میں فاختہ نے انڈے دے رکھے تھے‘ حضرت عمربن العاصؓ نے اپنا خیمہ فاختہ کے لیے چھوڑ دیا اور مدینہ واپس چلے گئے‘ عربی زبان میں خیمے کو فسطاط کہتے ہیں‘ حضرت عمر بن العاصؓ کے خیمے کی وجہ سے یہ علاقہ الفسطاط مشہور ہو گیا اور اس کے گرد آہستہ آہستہ لوگ آباد ہونے لگے بعدازاں فاطمیوں کے دور میں اس بستی کے گرد قاہرہ شہر آباد ہو گیا‘ الفسطاط آج بھی قاہرہ کے پرانے حصے میں موجود ہے اور اس فاختہ کو یاد کر رہا ہے جس کے چار انڈوں نے تاریخ کا شان دار ترین شہر آباد کر دیا۔
آپ دیکھ لیں فاختہ کتنا بڑا وسیلہ ثابت ہوئی، اگر اس دن حضرت عمر بن العاص ؓ فاختہ کو اڑا دیتے اور خیمہ اکھاڑ لیتے تو کیا آج الفسطاط اور پھر قاہرہ ہوتا؟‘ یہ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہیں لیکن اگر ہم اپنی زندگی کو دیکھیں‘ اس پر غور کریں تو ہمیں اپنی زندگی میں بھی بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رنگ دیا جو ہمارے لیے وہ گاہک ثابت ہوئے جن کی وجہ سے ہمارے ریستوران میں رونق لگی رہتی ہے۔
میری زندگی میں بھی ایسے بے شمار واقعات ہیں‘ میں لاہور میں طالب علمی کے دور میں ایک دکان کے سامنے بہت رش دیکھتا تھا‘ وہ ایک تین منزلہ عمارت تھی‘ نیچے دکان تھی اور اوپر فلیٹ‘ ہم فلیٹ میں رہتے تھے‘ نیچے کریانہ کی دکان تھی اور وہ بہت چلتی تھی‘ دکانیں دائیں بائیں بھی تھیں لیکن شاہ صاحب کی دکان پر ہمیشہ رش رہتا تھا‘ میں نے ایک دن ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے مسکرا کر جواب دیا۔
میں اپنے ہر گاہک کو کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز دے دیتا ہوں‘ بچوں کو ٹافیاں اور بسکٹ دے دیتا ہوں اور بڑوں کو میوے اور سوہن حلوے کا ٹکڑا، یہ ساری برکت اس کی دین ہے‘ شاہ صاحب کا کہنا تھا یہ میری والدہ کی ہدایت تھی‘ امی جی مرحومہ کہا کرتی تھیں جس دروازے پر لوگوں کا منہ چلتا ہو وہاں اللہ خاص کرم کرتا ہے اور میں اس کا عملی تجربہ کر رہا ہوں‘ میں مدت بعد دوبارہ اس جگہ گیا تو میں نے دیکھا شاہ صاحب کی دکان کو تالہ لگا ہوا ہے اور وہ پورا کمپلیکس اجڑ چکا ہے‘ میں نے لوگوں سے پوچھا تو پتا چلا شاہ صاحب بیمار ہوگئے تھے جس کے بعد دکان پر ان کا بیٹا بیٹھنے لگا‘ اس کا خیال تھا والد سیل سے زیادہ لوگوں کو مفت چیزیں کھلا دیتے ہیں‘ اس نے یہ سلسلہ بند کر دیا اور یوں دکان اجڑ گئی‘ میری صحافت کے ابتدائی دنوں میں ہم چائے کے ایک چھوٹے سے کھوکھے سے چائے پیتے تھے۔
اس کا مالک بہت اچھا تھا‘ ہم اس سے ہاف سیٹ چائے لیتے تھے‘ یہ چائے بظاہر دو لوگوں کے لیے ہوتی تھی لیکن اس سے چار کپ نکل آتے تھے‘ ہم دو بندے یہ چائے دو بار پیتے تھے‘ ہم بعض اوقات دوسری مرتبہ بھی مانگ لیتے تھے اور وہ ماتھے پر شکن لائے بغیر ہمیں چائے دے دیتا تھا اور بل صرف ہاف سیٹ کا لیتا تھا‘ میں زندگی میں کھسک کر کہیں سے کہیں چلا گیا‘ چند برس قبل اپنے ماضی کے کھوج میں واپس گیا تو پتا چلا چائے کا وہ کھوکھا پورا کمپلیکس بن چکا ہے‘ اس کا مالک بزرگ ہو گیا ہے‘ صرف آتا اور جاتا ہے، باقی سارا کام اس کے بچے کرتے ہیں‘ وہ جس عمارت کے کونے میں کھوکھا لگاتا تھا وہ اس نے خرید لی ہے اور کھوکھے میں اب لمبا چوڑا ریستوران چل رہا ہے۔
یہ لوگ کیٹرنگ کی کمپنی بھی چلاتے ہیں‘ میں نے دیکھا یہ لوگ آج بھی اسی وسعت قلبی سے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں‘ میں اسی طرح پاکستان کے ایک کھرب پتی کو جانتا ہوں‘یہ ان پڑھ ہے اور معاشرے کے انتہائی پسے ہوئے طبقے سے نکلا ہوا ہے‘ میں نے اس سے کام یابی کا گُر پوچھا تو اس نے ہنس کر جواب دیا‘ اللہ تعالیٰ کی ونڈ‘ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی‘ اس کا جواب تھا اللہ تعالیٰ جب کسی مظلوم اور بے سہارا کی سنتا ہے تو یہ اسے کسی خوش حال شخص کی پناہ میں دے دیتا ہے‘ وہ شخص اگر اسے اللہ کا مہمان یا نمایندہ سمجھ کر سنبھال لے تو اللہ تعالیٰ جواب میں اسے بہت نوازتا ہے اور اگر وہ اسے دھتکار دے تو اللہ اپنے مہمان کو کسی دوسرے شخص کے پاس بھجوا کر اپنے فضل کے دروازے اس پر بند کر دیتا ہے۔
میرے پاس آج تک اللہ نے جو بھی بندہ بھجوایا میں نے اسے مایوس واپس نہیں جانے دیا لہٰذا میرے اردگرد اللہ کے کرم کے ڈھیر لگے رہتے ہیں‘ یہ رکے اور پھر بولے‘ آپ کے اوپر اللہ کا جتنا بھی فضل ہوتا ہے، یہ کسی نہ کسی شخص کی دین ہوتا ہے‘ وہ شخص کون ہے ہم نہیں جانتے‘ وہ آپ کا ڈرائیور ہو سکتا ہے‘ آپ کا چوکی دار اور آپ کا مہمان ہو سکتا ہے یا وہ کوئی بیوہ عورت یا یتیم بچہ ہو سکتا ہے یا پھر زمانے کا ٹھکرایا ہوا کوئی مظلوم شخص‘ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا سمجھ کر اسے آپ کے پاس بھجواتا ہے، اگر آپ نے یہ ذمے داری قبول کر لی تو آپ کے گرد رونق کے ڈھیر لگ جائیں گے اور اگر آپ نے انکار کر دیا تو وہ شخص آپ کی ساری رونقیں لے کر کسی دوسرے کے دروازے پر چلا جائے گا اور آپ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے فضل کا انتظار کرتے رہ جائیں گے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریستوران میں اللہ تعالی بن العاص شاہ صاحب دے دیتا میں بھی اور اس بھی اس کی طرف کے بعد کے وقت کر دیا ہو گیا کے لیے ہے اور رہا ہے کے پاس
پڑھیں:
13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی بیداری دراصل طویل عرصے کی روشنفکری اور مظلوم قوموں کی ثابت قدمی کا نتیجہ ہے اور ان شاء اللہ یہ امریکہ کے زوال کو تیز کرے گی۔ بلا شبہ، مستقبل آزاد قوموں کا ہوگا اور دنیا ظلم، امریکی استکبار اور صہیونیت کے خاتمے کے سائے میں خوبصورت دور دیکھے گی۔ جامعہ مدرسین تمام لوگوں کو بھرپور شرکت کے لیے یومِ اللہ 13 آبان کی ریلی میں شرکت کی دعوت دیتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ مدرسینِ حوزه علمیہ قم نے امریکہ سے مذاکرات کو سازش اور رسوائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ استکبار کے خلاف دینی و ملی نقطہ نظر کی تشریح ضروری ہے۔ انہوں نے بیان میں پر زور دیا کہ حالیہ امریکی حملہ، جو کہ صہیونیت کی بچاﺅ کے لیے کیا گیا، نسلِ نو کے لیے 13 آبان کی تعلیمات کا ایک تازہ سبق ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی قم کے مطابق جامعہ مدرسین کا یومِ اللہ 13 آبان (یومِ ملیِ مبارزه با استکبار جهانی و روزِ دانشآموز) کے موقع پر جاری کردہ بیان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
13 آبان انقلابِ اسلامی کے اہم اور تاریخی دنوں میں سے ہے، ایسے واقعات جنہیں یاد رکھنا اور ان سے عبرت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس دن میں تین ایک اہم واقعات مجتمع ہیں: امام خمینیؒ کی گرفتاری و جلاوطنی (1343)، 1357 میں متعدد طلبہ و طالبات کی شہادت، اور 1358 میں امریکی سفارت خانے یعنی جاسوسی کے اڈے کا قبضہ اور ہر ایک واقعہ انقلاب کی راہ میں فیصلہ کن رہا۔ آج 13 آبان خاص طور پر امام خمینی کے پیروکار طلبہ کی جانب سے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور اس کے ذریعے امریکی سازشوں و بدعنوانیوں کے انکشاف کے باعث، بطورِ علامت استکبار ستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کے نمونے کے طور پر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
جامعہ مدرسین کے نزدیک، امریکہ کا حالیہ جارحانہ حملہ جو صہیونی عناصر کو بحال رکھنے کی کوشش تھا، آج کی نسل کے لیے 13 آبان کی تعلیمات کا ایک اور سبق ہے۔ اب وقت ہے کہ استکبار کے خلاف قرآنی اور عقلی دلائل، ظلم و استکبار کی مختلف جہات اور امریکہ کی مکاری و فریبکاری کی تشریح کی جائے، اور دینی و قومی ہر سطح پر استکبارِ مخالف نقطہ نظر کو سنجیدگی سے جاری رکھا جائے۔ جامعہ مدرسین قم امام خمینیؒ اور معزز شہید طلبہ و طالبات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ ملتِ ایران کبھی بھی امریکہ اور اس کے ایجنٹس کے جرائم کو فراموش نہیں کرے گی اور ظلم کے خلاف جدوجہد اور مظلومین کی حمایت کے راستے سے نہیں ہٹے گی۔
اگرچہ کچھ افراد یا سیاسی گروہ اپنے غلط افکار اور زہریلے تجزیوں کی وجہ سے استکبارِ مخالف منطق پر تنقید کرتے ہیں اور سازش و مذاکرات کی تجویز پیش کر کے ذلت آمیز نسخے لکھتے ہیں، مگر ملتِ ایران اب بھی اپنے اصولوں پر قائم ہے اور عزت و آزادی کے لیے ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ صہیونی حکومت اور اس کے حامی امریکہ کی غزہ میں دو سالہ وحشیانہ بمباری نے انہیں بے آبرو کیا ہے، پوری دنیا میں غم و غصہ بیدار ہوچکا ہے۔ آج عالمِ انسانیت بیدار ہو رہا ہے اور آزاد قومیں امریکہ کو دنیا میں ظلم و ستم اور جرم کا علمبردار سمجھتی ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کے اندر بھی لوگ اپنے حکمرانوں کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ عالمی بیداری دراصل طویل عرصے کی روشنفکری اور مظلوم قوموں کی ثابت قدمی کا نتیجہ ہے اور ان شاء اللہ یہ امریکہ کے زوال کو تیز کرے گی۔ بلا شبہ، مستقبل آزاد قوموں کا ہوگا اور دنیا ظلم، امریکی استکبار اور صہیونیت کے خاتمے کے سائے میں خوبصورت دور دیکھے گی۔ جامعہ مدرسین تمام لوگوں کو بھرپور شرکت کے لیے یومِ اللہ 13 آبان کی ریلی میں شرکت کی دعوت دیتی ہے اور امام خمینیؒ، رہبر معظم انقلاب اور معزز شہداء کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہوئے استکبار کے خلاف جد و جہد کے تسلسل پر زور دیتی ہے۔