وکلا کو وکیلوں کیخلاف کیسز میں نمائندگی سے روکنا آئین کی خلاف ورزی ہے، سندھ ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے قرار دیا ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) اپنے ممبران کو وکلا اور ان کے اہل خانہ سے متعلق مقدمات میں مؤکلوں کی نمائندگی کرنے سے روک نہیں سکتی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں 2 رکنی آئینی بینچ نے کہا کہ اس طرح کی پابندی خاص طور پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق، انجمن سازی کی آزادی اور پیشہ اختیار کرنے کی آزادی کی مختلف آئینی دفعات کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کے بی اے وکلا کو ہراساں کرے یا انہیں ایسے مقدمات لینے سے روکے تو وکلا ہائی کورٹ میں شکایت درج کر سکتے ہیں اور عدالت ان شکایات کا جائزہ لے گی کہ آیا یہ پابندیاں آئین کے آرٹیکل 10-اے کی خلاف ورزی ہیں یا نہیں۔
بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ہم یہ حکم فریقین کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے دے رہے ہیں، کراچی بار ایسوسی ایشن کا کوئی بھی رکن اگر کسی ایسے مقدمے میں پیش ہونا چاہے جس میں کسی وکیل کے اہل خانہ کے قتل یا زیادتی کا معاملہ ہو تو اسے ایسا کرنے سے نہیں روکا جائے گا، کیوں کہ قانون کے تحت انہیں ایسے مقدمات کی نمائندگی کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ درخواست ایک وکیل نے کے بی اے اور دیگر کے خلاف دائر کی تھی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسے ایک ضمانت کی درخواست سے اپنا وکالت نامہ واپس لینے پر مجبور کیا گیا، کیوں کہ مقدمے میں شکایت کنندہ ایک وکیل تھا، اور کے بی اے سمیت دیگر وکلا نے اس پر دباؤ ڈالا۔
درخواست گزار نے الزام لگایا کہ یہ وکلا جھوٹی ایف آئی آر درج کرا کے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لیے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ کے بی اے نے مارچ 2024 میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس کے تحت اپنے ارکان کو وکلا اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات لڑنے سے روک دیا گیا تھا، یہ قرارداد غیر آئینی تھی، کیوں کہ اس سے ان سائلین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا جو وکلا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہے تھے۔
بینچ نے اپنے حکم میں یہ بھی نوٹ کیا کہ کے بی اے کے صدر عامر نواز وڑائچ عدالت میں پیش ہوئے اور تسلیم کیا کہ 12 مارچ 2024 کو منظور کی گئی قرارداد آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق، خصوصاً آرٹیکلز 10-اے، 17 اور 18 کی خلاف ورزی تھی۔
انہوں نے مزید زور دیا کہ کے بی اے کے ارکان کو ایسے مقدمات میں پیش ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر بار کا کوئی رکن کسی ایسے مقدمے میں پیش ہونے کا انتخاب کرتا ہے، جس میں دوسرے وکلا فریق ہوں تو انہیں ایسا کرنے سے روکا جا سکتا ہے نہ ہی محدود کیا جا سکتا ہے۔
بینچ نے قرار دیا کہ بار کا رکن اپنی مرضی اور آئین کے تحت دیے گئے حقوق کے مطابق کام کرنے میں آزاد ہیں، آئین کے آرٹیکل 10-اے میں واضح طور پر درج ہے کہ ہر ملزم کو اپنی پسند کے وکیل کرنے کا حق حاصل ہے، ہم کے بی اے کے صدر کے الفاظ پر اعتماد کرتے ہیں۔
عدالت نے کے بی اے کو یہ بھی ہدایت کی کہ آئندہ ایسی کوئی قرارداد منظور نہ کرے جو ارکان کو ایسے مقدمات میں پیش ہونے سے روکے جن میں کے بی اے کے دیگر ارکان شامل ہوں، اور نہ ہی کسی رکن کو دباؤ یا دھمکی دی جائے۔
کے بی اے کے صدر نے بینچ کو مزید یقین دہانی کرائی کہ اگر کوئی رکن ایسے وکیل کو ہراساں یا دباؤ میں لانے کی کوشش کرے جو مارچ 2024 کی قرارداد کے برخلاف کسی مقدمے میں پیش ہو رہا ہو، تو ایسوسی ایشن اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی۔
آئینی بینچ نے کہا کہ مندرجہ بالا حقائق اور حالات کے تناظر میں اور کے بی اے کے صدر کے بیان کی روشنی میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) اپنے ارکان کو ایسے مقدمات لینے سے نہیں روک سکتی، جن میں کے بی اے کے دوسرے ارکان شامل ہوں۔ ایسی پابندی خاص طور پر منصفانہ ٹرائل کے حق (آرٹیکل 10-اے)، انجمن سازی کی آزادی (آرٹیکل 17)، اور پیشہ اختیار کرنے کی آزادی (آرٹیکل 18) سمیت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔
کے بی اے کے صدر نے پچھلی قرارداد کے غیر آئینی ہونے کا اعتراف کیا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وکلا آزادانہ طور پر کام کر سکیں گے۔
انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ جو کوئی وکیل کو ایسے مقدمے میں پیش ہونے سے روکنے یا ہراساں کرنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے بی اے کے صدر مقدمے میں پیش کی خلاف ورزی میں پیش ہونے ایسے مقدمات ایسوسی ایشن ارکان کو کی آزادی کو ایسے کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ: کراچی میں ای چالان کے خلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-01-17
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر ای چالان کے خلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 25 نومبر تک جواب طلب کر لیا۔سندھ ہائی کورٹ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر ای چالان کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر عاید جرمانے زیادہ اور غیرمنصفانہ ہیں، دیگر حصوں میں جس خلاف ورزی پر جرمانہ 200 روپے ہے، کراچی میں 5 ہزار روپے ہے۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ حکومت سندھ نے جولائی 2025ء سے ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 40 ہزار روپے مقرر کی ہے، اس تنخواہ میں گروسری، یوٹیلیٹی بلز اور بچوں کی تعلیم ہی پوری نہیں ہوتی، ٹریفک قوانین کی اصلاحات صوبے کے دوسرے بڑے شہروں میں نافذ نہیں کی گئیں، ہدایت دی جائے کہ وہ عدالت کو ان جرمانوں کے منصفانہ ہونے کے بارے میں مطمئن کرے۔درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جرمانوں کے عمل کو فوری طور معطل کیا جائے۔ درخواست میں چیف سیکرٹری سندھ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ڈائریکٹر جنرل نادرا کو فریق بنایا گیا ہے۔