جنگوں کے بدلتے نظریات (دوسرا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) یہ سلسلہ قدیم تاریخ سے لے کر موجودہ دور تک جاری ہے۔ جب سلاؤ اور کروٹلس کے مابین جنگ ہوئی، تو اس میں بھی سلاؤ نے کروٹلس کی نادر کتابیں جلا کر تاریخ کو راکھ کر دیا۔ امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا تو اس کی آرکائیوز کو برباد کر دیا۔ برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کے مطابق تب عثمانی دور کی دستاویزات فرش پر بکھری پڑی تھیں۔
1914 کی جنگ سے پہلے یورپ کے لوگ جنگی جنون میں مبتلا تھے۔ اگر کوئی جنگ کی مخالفت کرتا تھا، تو مجمع اس پر حملہ کر دیتا تھا۔ جنگ کی مخالفت میں ایک سوشلسٹ لیڈر کو قتل کر دیا تھا۔ لارڈ رسل کو بھی جنگ کی مخالفت پر کیمبرج یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ لیکن جب پہلی عالمی جنگ 1919 میں تقریباً چار سال کے بعد ختم ہوئی اور اس جنگ کے دوران یورپ میں بری طرح تباہی ہو چکی تھی، تو اس کے نتیجے میں جنگ کے بارے میں لوگوں کے خیالات بدل گئے اور پورے یورپ میں مایوسی اور ناامیدی کے جذبات پھیل گئے تھے۔
(جاری ہے)
خاص طور سے اس ماحول میں ناول نگاروں نے یاسیت اور دنیا کی بے ثباتی کا ماحول پیش کیا۔ ایرش ماریا ریمارک نے اپنے ناول All Quiet on the Western Front میں جنگ سے تباہی کا نوحہ لکھا ہے اور ایلیاس کانیٹی نے اپنے ناول Auto-da-Fé میں ایک کردار کا ذکر کیا ہے، جس نے مایوس ہو کر اپنی لائبریری کو آگ لگا دی تھی۔ اسی مایوسی کا اظہار دوسرے ناول نگاروں نے بھی کیا ہے کہ جب دنیا تباہی کا شکار ہو رہی ہے، تو پھر ادب، آرٹ اور کلچر کی کیا ضرورت ہے۔
لیکن کچھ مفکرین نے جنگ کی بھرپور حمایت بھی کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جنگ معاشرے کو صحت مند رکھتی ہے۔ یوں معاشرے میں موت کا خوف نہیں رہتا اور روزمرہ زندگی میں ڈسپلن کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ایسے مفکرین کے مطابق، اس کے برعکس پرامن ماحول میں انسان سست اور کاہل ہو جاتا ہے اور اپنی توانائی کو استعمال نہیں کر پاتا۔ اس کے اندر موجود صلاحیتیں ابھر کر سامنے نہیں آتیں۔
جرمن فلسفی ہیگل جنگ کا سخت حامی تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ جرمن قوم اپنی نسلی برتری کو جنگ کے ذریعے ہی قائم رکھے گی اور جنگ اس کے خالص پن اور اعلیٰ صفات کے لیے ضروری ہے۔ ہیگل کو مستقبل کا علم نہ تھا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی وجہ سے جرمنی کو نہ صرف شکستیں ہوئیں بلکہ اس کی برتری کا بھی خاتمہ ہوا۔
ان دو جنگوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے قبل یورپی اقوام ہر مسئلے کا حل جنگ میں ڈھونڈتی تھیں۔
یورپی نوآبادیاتی نظام کی بنیاد بھی جنگوں پر ہی تھی۔ 1871 میں جرمن چانسلر بسمارک نے فرانس سے جنگ کر کے جرمنی کو متحد کیا تھا۔ اٹلی کا اتحاد بھی جنگوں کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا قوموں میں جنگی جنون پیدا کرنے کے لیے وطن پرستی، مذہب اور یوٹوپیائی تصورات کو میڈیا کے ذریعے ابھارا جاتا تھا۔جنگ کی وجہ سے طاقت کا تصور اسلحہ سازی اور فوجی قوت سے جڑا تھا۔
اسلحے کو مہلک بنانے کا کام سائنس دانوں نے کیا۔ یہاں تک کہ ایٹم بم کی ایجاد بھی سائنس دانوں ہی کا کارنامہ ہے۔ موجودہ دور میں بھی معاشرے اپنی حفاظت فلاح و بہبود کے بجائے اسلحے کی مدد سے کر رہے ہیں۔ جنگ کے فروغ کے لیے اور لوگوں میں اس کی حمایت کے لیے جنگی میوزیم قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں ہتھیاروں کی نمائش کی گئی ہے اور وہ کس قدر مہلک ہیں، یہ بھی واضح کیا گیا ہے۔اس کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے امن کے میوزیم قائم کیے ہیں۔ ایک میوزیم میں جنگ کے ہولناک مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ زخمیوں کو دکھایا گیا ہے کہ ان کے ہاتھ پیر نہیں ہیں۔ وہ زخموں سے چور ہیں اور ان کے چہروں پر اذیت کے آثار ہیں۔ امن میوزیم کی تحریک میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسائل کا حل جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے ہو۔ امن کی یہ تحریک افریقہ میں بھی کامیاب رہی کیونکہ وہاں قبائل میں مسائل کا حل آپس میں مل جل کر نکالا جاتا تھا۔
لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان میں امن کے لیے گنجائش بہت کم ہے۔طاقتور قوموں کے تسلط کے لیے جنگ ہی تاحال مؤثر ذریعہ ہے۔ جنگ نے انسانی زندگی کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ اس کی جگہ طاقتور اقوام اپنی برتری کے لیے قتل و غارت اور شہروں کی بربادی کے ذریعے اپنی برتری کا ثبوت دیتی ہیں۔ اس لیے جنگیں ہوتی رہیں گی، جو انسانوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کرتی رہیں گی۔ اب علم و دانش کے بجائے مہلک ہتھیاروں کو تباہی کے لیے فوقیت دی جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے ذریعے کر دیا جنگ کی جنگ کے کے لیے
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔