کیا پاکستان کے نئے صوبے بننے چاہئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
پچھلے ماہ12 اگست کو صوبہ پنجاب کی سرحدیں ازسرنو تشکیل دینے کا منصوبہ بہ عنوان’’ مغربی پنجاب‘‘ قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔
رکن اسمبلی،ریاض حسین فتیانہ اِسے آئینی ترمیمی بل 2025ء کے طور پر سامنے لائے۔مجوزہ بل میں کہا گیا ، پنجاب میں بڑھتی آبادی اور انتظامی مسائل کے پیش نظر نئے صوبے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مجوزہ منصوبے کے تحت فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژن کو مغربی پنجاب صوبے میں شامل کرنا مقصود ہے۔یہ نیا صوبہ پنجاب کے دوسرے بڑے جنگل، ایک بڑی زرعی یونیورسٹی اور اہم صنعتی مرکز پر مشتمل ہو گا۔بل میں دلیل دی گئی کہ اس خطّے میں وہ تمام خصوصیات موجود جو بطور علیحدہ صوبہ بقا کے لیے ضروری ہیں۔
بل میں آئین کے آرٹیکل 51، 59، 95، 106، 154، 175 اے، 189 اور 218 میں ترامیم کی بھی تجویز دی گئی جن کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں تبدیلی ہو سکے۔مجوزہ ترمیم کے مطابق پنجاب میں 114 جنرل نشستیں ہوں گی۔24 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص جس سے کل 138 نشستیں ہو جائیں گی۔سندھ کی کل 75، خیبرپختونخوا کی 55، بلوچستان کی 20 اور وفاقی دارالحکومت کی 3 نشستیں ہوں گی۔نئے صوبے ،مغربی پنجاب کے لیے 27 جنرل نشستیں اور خواتین کی 8 نشستیں مختص کرنے کی تجویز ہے۔
اس اقدام سے پاکستان میں صوبوں کی تعداد بڑھ جائے گی جبکہ وفاقی دارالحکومت الگ حیثیت برقرار رکھے گا۔سپیکر قومی اسمبلی نے بل مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ریاض فتیانہ2019 ء میں بھی جنوبی پنجاب، بہاولپور اور ہزارہ صوبوں کے قیام کا بل پیش کر چکے۔ ان کی دلیل ہے، نیا صوبہ حکومتی نظام بہتر بناکر بڑھتی آبادی کے مسائل بخوبی حل اور عوامی ضروریات عمدہ انداز میں پورا کرے گا۔
٭٭
وطن عزیز میں وقتاً فوقتاً نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ ابھرتا رہتا ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والے اس ضمن میں مختلف دلائل دیتے ہیں۔بنیادی دلیل یہ ہے:ایک صوبے کا بہت بڑا جغرافیائی رقبہ اور آبادی کا بڑھتا دباؤ وہاں حکومت کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔دوسری دلیل یہ کہ چھوٹے صوبے بن جانے سے وہاں حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کرنے میں تیزی آئے گی اور شہریوںکو زیادہ آسانی سے خدمات فراہم کی جائیں گی۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں کی آبادی ماضی کی نسبت خاصی بڑھ چکی۔ اعداد و شمار کی روسے اگر ہمارے صوبے آزاد ممالک بن جائیں تو بہ لحاظ آبادی پنجاب دنیا میں بارہواں، سندھ انتیسواں اور خیبر پختون خوا دنیا کا انتالیسواں بڑا ملک ہوگا۔
نئے صوبوں کا مطالبہ
بڑے صوبوں پر معترض پاکستانی دعوی کرتے ہیں، ان کی وجہ سے موثر طور پر حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں براجمان مرکزی طاقت لاکھوں شہریوں خاص طور پر دور دراز یا پسماندہ اضلاع میں رہنے والوں کے لیے لاجسٹک، اقتصادی اور بیوروکریٹک رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ یہ شہری بنیادی خدمات پانے کے لیے بھی دارالحکومت کا سفر کرنے پر مجبور ہیں جس سے ان کا پیسا، وقت اور توانائی خرچ ہوتی ہے۔ سفر کے اتنے زیادہ وسائل ہر عام شہری برداشت نہیں کر سکتا۔ حقیقی ترقی کے لیے صرف انفراسٹرکچر بنانا کافی نہیں،اس تک باآسانی رسائی بھی ہونی چاہیے۔ اور یہ رسائی اسی وقت ملتی ہے جب شہری تھوڑی سی تگ ودو کے بعد تمام سرکاری خدمات پا سکے۔
ان کا کہنا ہے، پاکستان کے موجودہ انتظامی فریم ورک میں عموماً دور دراز علاقوں میں بستے اہل وطن کی ضروریات نظر انداز کرکے صوبائی دارالحکومتوں میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس سے علاقائی تفاوت پیدا ہوا کیونکہ کچھ علاقے دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہو گئے۔ مثلاً وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی ترجیحات میں فرق سے وسطی پنجاب کا خطّہ جنوبی پنجاب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔نئے صوبوں کے قیام سے ہر صوبے کے وسائل وہیں خرچ ہوں گے۔ اس طرح بلوچستان اور گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقوں میں آباد ہم وطنوں کی مشکلات کم ہوں گی اور نتیجتاً ریاست مخالف قوتوں کا اثر و رسوخ کم ہو گا۔
بڑے صوبوں کے مخالفین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ موجودہ نظام میں صوبہ پنجاب نے’ بادشاہ گر‘ کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کی 55 فیصد سے زیادہ آبادی صرف ایک صوبے میں بستی ہے۔ حالیہ انتخابات میں آٹھ کروڑ اسّی لاکھ ووٹروں میں سے تقریباً چھ کروڑ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اب قدرتاً پنجاب کو کنٹرول کرنے والا پاکستان کاحاکم بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے،کئی دہائیوں سے پنجاب میں زیادہ ترقی ہو رہی ہے۔دیگر صوبوں کے باسی اس نظام کو اجارہ داری سمجھتے اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ نئے صوبوں کا مطالبہ کرنے والے کہتے ہیں،مملکت میں آٹھ، دس، بارہ یا چودہ صوبے بنا دئیے جائیں۔بعض دانشور تو بتیس صوبے بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مخالفین کے دلائل
نئے صوبوں کے مخالفین بھی دلائل پیش کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے، پاکستان میں نئے صوبے بنانا اصلاحی و انتظامی نہیں بلکہ ناقابل عمل، تباہ کن اور آئینی طور پر ناقابل عمل ہے۔
مثال کے طور پر وہ دلیل دیتے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم پر تین بڑی سیاسی جماعتوں نے اتفاق کر لیا تھا۔اس کے باوجود پنجاب اور دیگر صوبوں کے درمیان بڑے پیمانے پر پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کام پر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ان کا دعوی ہے، نئے صوبوں کا قیام عوام کو انصاف فراہم کرنے یا ترقی دینے کے بجائے درج ذیل گل کھلائے گا:
٭بیوروکریسی کے حجم اور انتظامی و سیاسی اخراجات میں اضافہ۔
٭نسلی اور علاقائی تقسیم میں اضافہ۔
٭ سیاسی و انتظامی اختلافات میں اضافہ۔اس باعث ٹیکس، برآمدات، صحت اور تعلیم میں حقیقی اصلاحات لانے کی کوششوں سے توجہ ہٹ جائے گی۔
بھارت کی مثال
نئے صوبوں کے حامی یہ دلیل بھی اکثر دیتے ہیں، جب بھارت آزاد ہوا تو اس کی 17ریاستیں تھیں۔اب وہ بڑھ کر 28 ہو چکیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ انتظامی لحاظ سے بھی پڑوس میں نئی ریاستیں قائم کی گئیں مگر پاکستان کے حالات کا بھارت سے موازنہ کرتے ہوئے تین نکات ذہن میں رکھیے۔
سب سے پہلے یہ نکتہ کہ بھارت میں نئی ریاستوں کے قیام کا محرک شدید اور بعض اوقات پرتشدد تحریکوں سے سامنے آیا۔ خاص طور پر جنوبی بھارت میں جنھوں نے زبان کی بنیاد پر نئی ریاستوں کا مطالبہ کیا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں 1948 ء میں لسانی صوبوں کے کمیشن (دھر کمیشن) کی تشکیل ہوئی۔زبان کی بنیاد پر ریاستوں کے مطالبے نے 1952ء تک اس قدر زور پکڑا کہ تلیگو ریاست کا مطالبہ کرنے والے ایک کارکن کی موت ہو گئی۔
اس افسوسناک واقعے نے بھارت بھر میں اشتعال پھیلا دیا اورکئی لسانی گروہ الگ ریاستوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ آج کے پاکستان میں ایسی کوئی پرتشدد تحریک موجود نہیں ،گو سندھ میں بستے اردو بولنے والے، مختلف صوبوں میں آباد سرائیکی بولتے ہم وطن اور کے پی کے میں ہندکو بولتے افراد الگ صوبے کا مطالبہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے تاہم الگ صوبے پہلے سے موجود ہیں جہاں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی سمیت علاقائی زبانیں بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔
دوسرا امتیاز یہ کہ بھارت ایک کلاسک وفاقی ریاست نہیں ، یہ ایک ’’یونین‘‘ ہے جس میں فیڈریشن کی کچھ خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ اسی لیے بھارتی ریاستوں کی سرحدی حدود میں تبدیلی پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے جو آئینی طور پر ایک اعلان کردہ وفاق ہے۔ پاکستان میں صوبائی حدود تبدیل کرنے کے لیے پہلے پہل متعلقہ صوبے کی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ صوبائی اسمبلی میں تجویز منظور ہو جائے تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس کا دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا ضروری ہے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے حامیوں کو بھارتی جدوجہد کی تیسری مخصوص خصوصیت بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ بھارت نے 1953ء میں ریاستوں کی تنظیم نو کا کمیشن بنایا۔اس نے اکیس ماہ تک تنظیم نو کی تجاویز پر کام کیا اور 1955ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ بعد میں ریاستوں کی تنظیم نو کا ایکٹ 1965ء میں منظور کیا گیا جس میں کمیشن کی زیادہ تر سفارشات شامل تھیں۔ اس ایکٹ کے نتیجے میں 14 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام تین علاقے وجود میں آئے۔ اس کے بعد 1956ء سے اب تک بتدریج چودہ اضافی ریاستیں بنائی گئی ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا نئے صوبے بنانا واقعی بہتر طرز ِحکمرانی اور اختیارات کی منتقلی کا مقصد حاصل کرنے میں سب سے زیادہ کفایتی اور عملی طریقہ ہے؟ بظاہر جواب نفی میں ہے۔
فرض کیجیے، ہم نے 12 صوبے بنانے کا فیصلہ کر لیا۔اب ہر نیا صوبہ تشکیل دیتے عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی کیونکہ ٹیکس دہندگان ہی آٹھ نئی صوبائی اسمبلیوں، گورنروں، وزرائے اعلیٰ، کابینہ، ہائی کورٹس، پبلک سروس کمیشن اور سول سیکرٹریٹ کے ساتھ ساتھ ضروری فزیکل انفراسٹرکچر وغیرہ بنانے کے لیے ادائیگی کریں گے۔ فی الوقت پاکستان 80 ہزار ارب روپے سے زیادہ رقم کے قرض تلے دبا ہوا ہے۔ ایسی گھمبیر صورت حال میں نئے صوبوں کا شاہانہ خرچ برداشت کرنا خلاف عقل بات ہو گی۔ وفاقی حکومت پہلے ہی اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے یہ رونا روتی رہتی ہے کہ اس کے وسائل کم ہو گئے۔ کیا نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ اور مخالفت کرنے والوں نے اس عمل کے مالی اثرات کا اندازہ لگایا ہے؟
سرکاری خدمات عوام تک پہنچانے اور انتظامی کارکردگی بہتر بنانے کی خاطر ایک بہت آسان طریق موجود ہے… آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے تسلسل اور فنڈنگ یقینی بناتے مقامی حکومتوں کو موثر بنایا جائے جیسا کہ بھارت نے اپنے آئین کی منظوری کے 45 سال بعد کیا تھا۔ بڑے صوبوں کا مسئلہ اتنا اہم نہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اختیارات مقامی سطح پر منتقل کیے جائیں۔
برطانیہ ایک وحدانی ریاست ہے لیکن وہاں مقامی حکومتیں مضبوط اور بااختیار ہیں۔اسی وجہ سے ہمیں وہاں گڈ گورننس دیکھنے کو ملتی ہے اور اختیارات بھی کسی ایک ذات یا ادارے کی مٹھی میں نہیں بلکہ مختلف حکومتی قوتوں کے مابین تقسیم ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر عمدہ حکومتی نظام درکار ہے جو عوامی مسائل بخوبی حل کر سکے تو مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہو گا۔ نئے صوبے بنانے کا راستہ نہ صرف مشکل بلکہ رکاوٹوں اور خرابیوں سے پر ہے۔
وزیر منصوبہ بندی کا بیان
حامیوں اور مخالفین کی اس بحث کے دوران وفاقی وزیر منصوبہ بندی، احسن اقبال نے نئے صوبے بنانے اور زیادہ بااختیار بلدیاتی نظام کی تجویز دے دی۔انھوںنے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’چھوٹے صوبوں کے قیام سے عوام تک خدمات پہنچانے میں ا?سانی جنم لے گی۔ترکی کے اسّی سے زیادہ صوبے ہیں،تو پاکستان کے بارہ سے پندرہ صوبے کیوں نہیں ہوسکتے؟‘‘
جناب احسن اقبال نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد منتقلی کے عمل کی خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی’’ اگرچہ صوبوں کو اختیارات مل گئے ہیں لیکن انھیں ضلعی سطح تک موثر طریقے سے منتقل کرنا باقی ہے۔‘‘ انھوں نے عوامی سطح پر خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام وضع کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، نئے صوبے یا مقامی گورننس نظام مضبوط بنانے کے لیے قومی مکالمہ ہونا چاہیے تاکہ اتفاق رائے پر مبنی اصلاحات جنم لیں۔
دارالحکومت میں گول میز بحث
ماہ اگست ہی میں تھنک ٹینک، اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں گورننس اور عوام کو سرکاری خدمات بخوبی پہنچانے کے لیے نئے صوبوں کی ضرورت پر گول میز بحث ہوئی۔ بیشتر دانشوروں کی رائے تھی، عوام کی بھلائی اور قومی سلامتی کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے۔ منطقی حل یہ سامنے آئے کہ یا تو مروج انتظامی اکائیاں نئے صوبے بن جائیں یا کئی اضلاع کو نئے صوبوں میں ضم کیا جائے۔
دوران بحث یہ دلچسپ نکتہ عیاں ہوا کہ ہمارا صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے 196 ممالک سے بڑا ہے۔ اسی سچائی نے یہ بھی آشکارا کیا، بڑھتی آبادی کی ضروریات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو چکا۔ لہذا صوبے کے وسائل تقسیم کر دئیے جائیں یا ان کے بطن سے نئے صوبے بن سکیں تو عمدہ نظام حکومت کی تشکیل سے عوام کو فائدہ ہو گا۔ نئے صوبے بنانے کی خاطر تجویز دی گئی، پارلیمنٹ اس معاملے پر غوروخوص کرنے کے لیے کمیشن بنا دے۔اس میں قوم کی سرکردہ شخصیات شامل ہوں۔کمیشن میڈیا سے لے کر دانشوروں تک، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعدکوئی لائحہ عمل طے کرے۔
سابق وزیر ،دانیال عزیز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، گڈ گورننس کا ایک بہت اہم عنصر لوکل گورنمنٹ کی سطح پر لوگوں کو بااختیار بنانا ہے۔ اختیارات کو مقامی حکومتوں میں منتقل کرنے سے عوام کو بہت سہولتیں ملیں گی۔ انہوں نے مزید کہا ،اس عمل کا منفی پہلو یہ ہے کہ ملک وفاقیت سے دور ہو سکتا ہے اور صوبائیت کو فر وغ ملے گا۔
اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ کی رپورٹ
وطن عزیز کے ایک معاشی تھنک ٹینک، اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے بھی نئے صوبوں سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی جس میں موجودہ انتظامی ڈھانچے کو معاشی مسائل حل کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔رپورٹ میں درج ہے،نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے پہلے منظر نامے میں ملک میں 12 چھوٹے صوبے بن سکتے ہیں۔ دوسرے منظرنامے میں 15 سے 20 چھوٹے صوبے قائم ہوں گے۔ تیسری صورت میں 38 وفاقی ڈویژن کام کریں گے۔
بارہ چھوٹے صوبے قائم کرنے سے ہر صوبے کی آبادی کم ہوکر 2کروڑ تک ہوجائے گی جبکہ صوبائی بجٹ 994 ارب روپے تک ہو جائے گا۔ 15 سے20 چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی بجٹ 600 سے 800 ارب روپے رہے گا۔ ہر صوبے کی آبادی ایک کروڑ 20لاکھ سے ایک کروڑ60 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔ 38 وفاقی ڈویژن قائم کرنے سے ہر ایک کی آبادی 63 لاکھ نفوس ہو گی۔
رپورٹ کی رو سے پاکستان کی اوسط صوبائی آبادی 6 کروڑ سے زائد ہے۔ صوبوں میں آبادی کے بے تحاشا فرق کی وجہ سے مسائل ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی شرح میں فرق بڑھ رہا ہے۔ پنجاب میں غربت کی شرح 30 فیصد اور بلوچستان میں 70 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا میں غربت 48 فیصد اور سندھ میں45 فیصد ہے۔ آبادی کے دباو کی وجہ سے صوبوں کو وسائل کی فراہمی میںمشکلات کا سامنا ہے۔ پنجاب کو 5 ہزار 355 ارب روپے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کو ایک ہزار 28 ارب روپے ملتے ہیں۔ صوبوں میں آبادی بڑھنے سے معاشی مسائل گھمبیر ہوچکے۔ چھوٹے صوبوں کے قیام سے بجٹ بہتر طریقے سے استعمال ہو گا۔
فی الوقت صوبوں میں اوسط غربت کی شرح 40 فیصد ہوچکی۔ چھوٹے صوبوں کے قیام سے غربت کی شرح میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔ روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکتے ہیں۔ وفاقی ڈویژن کے قیام سے ٹارگٹڈ معاشی اقدامات شروع کرنا ممکن ہو گا۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا ، چھوٹے صوبوں کے قیام سے صوبائی و زرعی آمدن میں اضافہ ممکن ہے۔ زرعی اصلاحات سے صوبائی آمدن میں جی ڈی پی کا ایک فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موجودہ انتظامی ڈھانچہ علاقائی معاشی ترقی کی خلیج ختم کرنے میں ناکام ہوچکا، پاکستان کے موجودہ انتظامی ڈھانچے دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ پنجاب کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں شدید قلت کا سامنا ہے۔ پنجاب میں 10 لاکھ مریضوں کے لیے 3 ہسپتال ہیں۔سندھ میں 10 لاکھ مریضوں کے لیے تقریباً 9 ہسپتال ہیں۔
پنجاب میں شرح خواندگی 66 فیصد اور بلوچستان میں 40 فیصد ہے۔سندھ میں 78 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے، ہر چھوٹے صوبے میں ایک ٹیچنگ ہسپتال اور یونیورسٹی قائم کی جائے۔ ہر چھوٹے صوبے میں خصوصی اقتصادی زون کے قیام سے صنعتی ترقی میں اضافہ ممکن ہوگا۔
بھاری بھر کم صوبائی بجٹ کے باوجود معاشی ترقی میں فرق واضح ہے: پنجاب میں فی کس بجٹ 41 ہزار 781 روپے ہے۔ بلوچستان میں فی کس بجٹ 69 ہزار 37 روپے ہے۔ چھوٹے صوبوں کے قیام سے آمدن میں واضح فرق کم ہوسکے گا۔
حدیث نبوی ؐ
نئے صوبوں کے حامی دانشور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق اگر کوئی شہر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ نئے شہر بسائے۔یہ دانشور اس حدیث کا انطباق صوبوں پر بھی کرتے ہیں۔ معنی یہ کہ کوئی صوبہ بہ لحاظ آبادی یا جغرافیہ زیادہ بڑا ہے، تو اسے تقسیم کر دینا چاہیے۔ گویا بڑے مسئلوں کو چھوٹے مسائل میں تقسیم کردیں تاکہ ان سے نمٹنے میں آسانی رہے۔
نئے صوبوں کے حامی یہ دعوی بھی کرتے ہیں، حکمران طبقہ نئے صوبے نہیں بنانا چاہتا کیونکہ اس کی مرکزی حیثیت کو ضعف پہنچے گا۔ چناں چہ نئے صوبوں کی مخالفت میں وہ یہ دلیل دیتا ہے، موجودہ صوبائی سیٹ اپ میں تبدیلی سے نسلی قوم پرستی فروغ پذیر ہو گی۔ اس سے نظریہ پاکستان کو نقصان پہنچے گا اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔ علاقائی سیاسی اشرافیہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ وہ نئے صوبوں کی تشکیل کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہیں۔
سیاسی اور نسلی تفریق
پاکستان میں نئے صوبے بنانے کی بحث نئی نہیں لیکن کسی منطقی انجام تک پہنچنے میں ناکام ہے۔ایک وجہ یہ کہ اس کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس عزم اور مہارت کا فقدان ہے۔ وہ ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے جو صوبائی نقشے کے سلسلے میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ مزید برآں،یہ حقیقت ہے، نئے صوبوں کی تشکیل کے بعد سیاسی اور نسلی تفریق جنم لے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر سرائیکی بولنے والے علاقوں پہ مشتمل نیا صوبہ بنا کر پنجاب کی تقسیم آسان نہیں ہوگی کیونکہ بہاولپور کا پرانا مطالبہ ہے ، اسے صوبہ بنایا جائے کہ وہ جنوبی پنجاب کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ خیبرپختونخوا میں ہندکو بولنے والے ہزارہ صوبہ چاہتے ہیں۔ بلوچستان کو پشتون نسلی گروپ کا مسئلہ درپیش ہے جو علیحدہ صوبے کے خواہاں ہیں۔ سب سے خطرناک صورتحال سندھ میں ہوگی کہ سندھی قوم پرستوں نے واضح کردیا ہے، وہ اپنا صوبہ تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ جنوبی پنجاب کی طرح جنوبی سندھ کا مطالبہ بھی جو کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والے علاقوں پر مشتمل ہوگا، نئے صوبوں کی بحث کا حصہ ہے۔
نئے صوبے بنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں… بشرط عوام اور ملک کو فائدہ ہو۔مالیاتی مشکلات نئے صوبوں کی تشکیل میں خاص رکاوٹ نہیں ، مگر ضروری ہے کہ وسائل منصفانہ استعمال کیے جائیں۔ لہذا ایک حل یہ ہے، مساوی آبادی والی انتظامی اکائیاں تشکیل دی جائیں۔اس بندوبست کا اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی بھی اکائی یا صوبہ پورے ملک کو کنٹرول نہیں کر سکے گا۔ اس وقت پاکستان کے صوبائی سیٹ اپ میں عدم توازن ہے۔مثلاً سرائیکی پٹی اور بہاولپور کے لوگ اس امر پر وسطی پنجاب کی بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ سے نارض رہتے ہیں کہ وہ صرف لاہور کی ترقی کے لیے صوبائی وسائل استعمال کرتا ہے۔
پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ
یہ واضح رہے، پاکستان کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ اس کے چاروں صوبوں… پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے 36 ڈویژنوں اور دو خود مختار علاقوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ہے۔ہر صوبے کو مزید اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس وقت پاکستان میں169 اضلاع اور 566 تحصیلیں موجود ہیں۔انتظامی معاملات کی وجہ سے تعداد میں کمی بیشی ہونا ممکن ہے۔ یہ سبھی ملکی انتظامیہ کے لیے ضروری فریم ورک تشکیل دیتے ہیں۔ بہ لحاظ آبادی لاہور پاکستان کا سب بڑا ڈویژن ہے جس کی آبادی دو کروڑ تیس لاکھ سے بڑھ چکی۔ اس کے بعد کراچی ڈویژن کا نمبر آتا ہے۔
پاکستان میں اضافی صوبے بنانے کا تصّور پاکستانی صوبوں اور دیگر اقوام کی انتظامی اکائیوں کے درمیان موازنے سے تقویت پاتا ہے۔ پنجاب کی آبادی ایک بڑے ملک، فلپائن سے زیادہ ہے جو 81 صوبوں پر مشتمل ہے۔سندھ کی آبادی سری لنکا سے زیادہ ہے جو 9 صوبے رکھتا ہے۔ خیبر پختون خوا کی آبادی آسٹریا سے زیادہ ہے۔یہ یورپی ملک بھی 9 صوبوں میں منقسم ہے۔
عالمی سطح پر بہت سے ممالک نے حکمرانی موثر بنانے اور علاقائی نمائندگی کو فروغ دینے کے لیے انتظامی تنظیم نو کی ہے۔مثال کے طور پر کینیا نے 2013ء میں اپنے آٹھ صوبوں کو 47 کاونٹیوں میں تقسیم کر دیا۔ جنوبی سوڈان کے تین صوبے تھے جو اب دس بن چکے۔ دیگر ممالک جیسے فلپائن، انڈونیشیا، صومالیہ اور جمہوریہ کانگو یا تو اسی طرح کی اصلاحات سے گزر یا ان پر غور کر رہے ہیں۔
درج بالا مثالیں نئے صوبوں کی تشکیل کے ضمن میں اہل پاکستان کے سامنے بین الاقوامی نظیر بن جاتی ہیں۔نئے صوبے کے حامی کہتے ہیں،ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ چھوٹے اورآسانی سے قابل انتظام علاقے عام طور پر بہتر طرز حکمرانی، مقامی نمائندگی میں اضافے اور سماجی و اقتصادی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔
پاپوا نیو گنی کا ماڈل
نئے صوبے بننے چاہیں یا نہیں؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے پاکستانی قوم پاپوا نیو گنی کے ماڈل کی پیروی کر سکتی ہے۔یہ ’’چار مرحلہ ماڈل‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس عمل میں نئے صوبے بنانے کے چار مراحل شامل ہیںجنھیں پاپوا نیو گنی نے 2009 ء سے 2012 ء تک نئے صوبے بنانے کے لیے لاگو کیا۔ اس درجے کا پہلا مرحلہ کسی قانون ساز ادارے سے تجاویز لینا ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیاں ہو سکتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں قانون ساز ادارے کی تجاویز پر غوروفکر کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا جاتا ہے۔ تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اپنے نتائج اور سفارشات قانون ساز ادارے کو پیش کرتا ہے۔تیسرے مرحلے میں ایک پارلیمانی کمیٹی جس میں ارکان اسمبلی اور وزارت بین الصوبائی رابطہ، وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے نمائندے شامل ہوتے ہیں، تجاویز کی عملیت کا جائزہ لیتی ہے۔
یہ کمیٹی تمام پہلووں سے تجاویز کا جائزہ لے کر تجویز کی حتمی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر سب کچھ ہر لحاظ سے درست ہو تو کمیٹی نئے صوبے کی سرحدی حدود کا خاکہ پیش کرنے والے بل کا مسودہ تیار کرتی ہے۔آخری مرحلے میں پارلیمنٹ اس مسودے پر بحث کرے اور اس کے حق یا مخالفت میں ووٹ دے گی۔اگر بل بھاری اکثریت سے منظور ہو جائے تو ازروئے قانون نیا صوبہ وجود میں آجاتا ہے۔
نئے صوبے بنانے کے حامی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اس طرح نہ صرف گورننس بہتر ہو گی بلکہ پسماندہ طبقے اور گروہ بھی بااختیار بن جائیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے، سیاسی رہنماوں، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی کو نئے صوبے بنانے میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔یوں ملک کے انتظامی اور مالی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بقول ان کے پچیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کو چار بڑے صوبوں کے ذریعے مستقل طور پر منظم نہیں کیا جا سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی ڈھانچے کا از سر نو تصّور کیا جائے۔ تاہم نئے صوبے الل ٹپ نہیں سوچی سمجھی حکمت عملی کے ذریعے بنائے جائیں جو آبادی کے توازن، نسلی اور لسانی شناخت، مقامی وسائل، جغرافیائی منطق اور سیاسی اتفاق رائے کو ملحوظ خاطر رکھے۔ کسی بھی نئے انتظامی یونٹ کو یہ بات یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی طبقہ اپنے وطن میں اقلیت نہ بن جائے اور وہ اپنے وسائل خودپیدا کر سکے۔
تیسرا نکتہ نظر
دانشوروں کا ایک تیسرا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ نئے صوبے وجود میں آنا یا نہ بننا بے معنی بات ہے۔ بنیادی امر یہ ہے کہ انتظامی اصلاحات لائی جائیں۔ ان کے بغیر نئے صوبے وجود میں آنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ گویا مسائل کا صوبوں کا تعداد بڑھانا نہیں بلکہ یہ ہے: طرز حکمرانی یا گورننس ماڈل پر مکمل نظر ثانی کی جائے۔مثلاً پاکستان میں گورنر کا کردار بڑی حد تک رسمی ہے جب کہ وزیر اعلیٰ کے پاس زبردست انتظامی اختیارات ہیں۔ یہ عدم توازن سیاسی مرکزیت کو فروغ دیتا اور صوبائی اتھارٹی پر جانچ پڑتال کم کرتا ہے۔
ہم سوئٹزرلینڈ جیسے ماڈل سے سیکھ سکتے ہیں اور ان سے سیکھنا بھی چاہیے جہاں کینٹون(ریاستیں ) وسیع پیمانے پر خودمختاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔بھارت سے بھی جہاں بااختیار مقامی حکومتوں اور ریاستی اسمبلیوں کے ذریعے لسانی اور ثقافتی لحاظ سے متنوع علاقوں کو بھی ہم آہنگی سے کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔یہ نظام اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ تسلیم کرتے ہیں ، وفاقیت تقسیم نہیں کرتی بلکہ حکومت میں ہر کسی کی شمولیت ہر ایک کو بااختیار بناتی ہے۔
ہمارا شمالی خطّہ ہزارہ، جنوبی پنجاب میں بہاولپور، سندھ کا میرپورخاص اور بلوچستان کے وسیع علاقے سیاسی اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ ان علاقوں کو صوبائی یا انتظامی خودمختاری دینے سے نہ صرف ان کی الگ شناخت جنم لے گی بلکہ طویل عرصے سے نظر انداز ہوتا مساوی ترقی کا وعدہ بھی پورا ہو گا۔
غرض محض نئے صوبے تشکیل دینا مسائل کا حل نہیں۔ ہمیں پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ صوبے عملی طور پر خود مختار ہوں گے یا محض کاغذوں پر؟ کیا ان کی قیادت مقامی ہو گی؟ کیا عوام کا اپنے وسائل، قوانین اور مستقبل پر کنٹرول ہوگا؟غرض یہ نقشے ازسرنو بنانے نہیں طرز ِ حکمرانی کی نئی تعریف کا سوال ہے۔
جہاں طاقت مرتکز ہوتی ہے وہاں جمہوریت سکڑ جاتی ہے۔ اور جہاں طاقت مشترک ہو وہاں جمہوریت سانس لیتی ہے۔نیا پاکستان صرف نئی سرحدوں سے نہیں بنے گا۔ یہ عوام کی حکومت میں شمولیت، مساوات اور طاقت کی تقسیم کے نئے اصولوں سے ابھرے گا…مگر صرف اسی وقت جب گورننس ڈرائنگ روم سے نکل کر نچلی سطح اور دارالحکومتوں سے مقامی سطحوں تک منتقل ہو جائے۔تب ہی ایک ریاست اپنے لوگوں کی امنگیں صحیح معنی میں پورا کر سکتی ہے۔
نئے صوبے بنانے کی صوبائیت پرستی کے جال میں نہ پھنسیے، اس کے بجائے یہ وسیع تر وژن اپنائیے:
٭ مزید صوبے نہیں بلکہ ایک بہتر نظام اور طرز ِ حکمرانی
٭ صرف نئی سرحدیں نہیں بلکہ وفاق اور صوبوں کے مابین نیا توازن
٭صرف سب سے اوپر بیٹھے ہی طاقتور نہ ہوں بلکہ نیچے کے لوگ بھی بااختیار ہو جائیں
پاکستان کا روشن و سنہرا مستقبل نئے نقشوں نہیں قوم کی ایسی ذہن سازی سے تشکیل پائے گا جس کے ذریعے وہ ایک باعمل و باکردار، قانون پسند اور تعلیم یافتہ گروہ کی صورت میں ڈھل جائے۔
ایک قابلِ عمل قدم
یہ دلیل بھی ملتی ہے کہ پاکستان میں مزید صوبوں کا قیام ہر مسئلے کا حل نہیں لیکن یہ ملک کے بنیادی طرزِ حکمرانی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک قابلِ عمل قدم ہے۔ اگر یہ عمل آئینی ضمانتوں، مالی منصوبہ بندی اور جامع مکالمے کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ وفاق کو مضبوط کرسکتا ہے۔پسماندہ کمیونٹیز کو بااختیار بنا اور پاکستان کی ترقیاتی صلاحیت کو اجاگر کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس نوآبادیاتی دور کے اس ڈھانچے سے چمٹے رہنے کا عمل جو اب قوم کی ضروریات بھی پوری نہیں کرتا، عدم مساوات، محرومی اور جمود مزید بڑھانے کا خطرہ رکھتا ہے۔
وسائل کی منصفانہ تقسیم
مزید صوبوں کے قیام کی بنیاد وسائل کی منصفانہ تقسیم پر بھی ہے۔ فی الحال ترقیاتی بجٹ صوبائی دارالحکومتوں اور شہری مراکز میں مرکوز رہتے ہیں، جب کہ جنوبی پنجاب، اندرونِ سندھ اور دیہی بلوچستان جیسے علاقے محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ ایک زیادہ تفصیلی انتظامی ڈھانچہ فنڈز کی منصفانہ تقسیم، صوبائی اسمبلیوں میں بہتر نمائندگی اور صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں ہدفی اصلاحات کو یقینی بنا سکتا ہے۔ انڈونیشیا، جس کی آبادی 27 کروڑ 50 لاکھ ہے اور جس میں 34 صوبے ہیں، اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح انتظامی تنوع متوازن قومی ترقی کو سہارا دے سکتا ہے۔
سیاسی اجارہ داری
سیاسی اعتبار سے نئے صوبوں کا قیام اجارہ داریوں کو توڑنے اور طاقتور سیاسی جماعتوں کی بالادستی کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ لسانی اور نسلی شناخت کی بنیاد پر برسوں سے موجود شکایات بھی کم کرسکتا ہے، جیسے سرائیکی بیلٹ اور ہزارہ ریجن کی آوازیں۔ اگر ان شناختوں کو وفاقی ڈھانچے کے اندر تسلیم کیا جائے تو پاکستان قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کرسکتا ہے۔ تاہم یہ تجویز سنگین چیلنجز سے خالی نہیں۔ آئینی طور پر آرٹیکل 239(4) کے مطابق سرحدوں کی نئی تقسیم کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، جس کے بعد سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اسی نوعیت کی منظوری لازمی ہے۔ یہ عمل سیاسی طور پر نہایت دشوار ہے، خاص طور پر پنجاب اور سندھ کی مزاحمت کے پیش نظر جو اپنا اثر و رسوخ اور وسائل کھو دینے سے خائف ہیں۔
لاحق خطرات
مالی اعتبار سے بھی نئے صوبوں کا قیام بھاری لاگت کا متقاضی ہوگا۔ نئی اسمبلیوں، بیوروکریسی اور ڈھانچے کی تشکیل کے لیے اربوں روپے کے عوامی اخراجات درکار ہوں گے۔ ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی مالی خسارے اور آئی ایم ایف کی شرائط سے نبرد آزما ہے، یہ بوجھ قومی خزانے کو مزید دبا سکتا ہے۔ ناقدین کی رائے ہے کہ پاکستان کو موجودہ سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے طرزِ حکمرانی میں اصلاحات اور عوامی خدمات کی فراہمی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ نئے صوبے بننے سے لسانی اور نسلی تقسیم مزید بڑھ جائے۔ ایک سیاسی طور پر غیر مستحکم ماحول میں سرحدوں کی نئی تقسیم شناختی سیاست کو ہوا دے سکتی ، قطبیت کو گہرا کرسکتی اور حتیٰ کہ علیحدگی پسندی کے رجحانات بھی ابھار سکتی ہے۔ پاکستان کی علاقائی کشیدگیوں کی تاریخ… بلوچستان میں خودمختاری کی تحریکوں سے لے کر سندھ کی شہری و دیہی تقسیم تک اس بات کی غماز ہے کہ کسی بھی قسم کی تنظیمِ نو کو نہایت احتیاط، تدبر اور اتفاقِ رائے سے بڑھایا جانا چاہیے۔
مزید یہ کہ سیاسی جماعتیں بھی اس اقدام کی مزاحمت کر سکتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے ووٹ بینک اور اثر و رسوخ کھونے کا خدشہ لاحق ہے۔ موجودہ صورتحال مرکزی قیادت اور سرپرستی کے ان نیٹ ورکس کو فائدہ دیتی ہے جو طاقت کے ارتکاز پر پنپتے ہیں۔ اگر وسیع البنیاد سیاسی عزم اور سول سوسائٹی کی شمولیت نہ ہو تو یہ تجویز ناکام ہو سکتی ہے یا پھر اسے جماعتی مفادات کے لیے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔
ناکام صوبائی ماڈل
ان خدشات کے باوجود چھوٹے صوبوں کے حق میں دئیے جانے والے دلائل بھی مضبوط ہیں بشرطیکہ یہ عمل حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صوبائی ماڈل بنیادی ترقیاتی اشاریوں پر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے: پائیدار ترقی کے اہداف کے انڈیکس میں پاکستان 140ویں نمبر پر ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 164ویں اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں 109ویں نمبر پر فائز ہے۔ تقریباً 2 کروڑ 53 لاکھ 70 ہزار بچے اسکول سے باہر ہیں اور صرف 38 فیصد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ اس ناکام طرزِ حکمرانی کی علامت ہیں جو حد سے زیادہ مرکزی، عوام کی پہنچ سے حد سے زیادہ دور اور عوام کی ضروریات کے لیے غیر حساس ہے۔
قومی اتفاقِ رائے
ایک عمدہ حل بے ترتیب سرحدوں کی نئی تقسیم نہیں بلکہ حکمرانی پر مبنی ایسے فریم ورک کی تشکیل میں بھی موجود ہے جو قومی اتفاقِ رائے پر قائم ہو۔ مرحلہ وار طریقہ… ان انتظامی ڈویژنوں سے شروع کرتے ہوئے جو پہلے ہی نمایاں شناخت اور ترقیاتی ضروریات رکھتے ہیں، وسیع تر اصلاحات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو شفاف مکالمے میں شریک کیا جانا چاہیے تاکہ یہ صوبائی تنظیمِ نو عوام کی خدمت کرے نہ کہ طاقت کے دلالوں کی باندی بن جائے۔
آئین سے انحراف
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گورننس کا بحرانِ صوبوں کی کمی نہیں بلکہ آئین کے عدم احترام سے جڑا ہوا ہے۔ آئین پہلے ہی تین سطحی نظام فراہم کرتا ہے جو ریاست کو عوام کی دہلیز تک لے جانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
آرٹیکل 140-اے کے مطابق ہر صوبہ ایسے بلدیاتی ادارے قائم کرنے کا پابند ہے جن کے پاس "سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری" ہو۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے پاس پہلے ہی عوامی سطح پر کام کرنے والے ایک جوابدہ اور بااختیار ماڈل کا فریم ورک موجود ہے۔ المیّہ یہ ہے کہ پالیسی سازوں نے برسوں سے ان آئینی دفعات کو کنارے پر رکھا ہے۔
بلدیاتی اداروں کا عدم وجود
پنجاب پر غور کیجیے۔ 12 کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی کے ساتھ یہ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی انتظامی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ پنجاب میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015 ء میں ہوئے تھے۔ جب کونسلیں منتخب ہوئیں تو ان کے بجٹ ڈپٹی کمشنروں کے کنٹرول میں رکھے گئے، جس سے میئرز کی مالی خودمختاری چھین لی گئی۔ 2019 ء میں صوبائی حکومت نے اپنی مدت کے بیچ ہی ان بلدیاتی اداروں کو تحلیل کر دیا۔ آج صوبے میں کوئی فعال بلدیاتی حکومت موجود نہیں اور حکمرانی بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہے جو تخت ِلاہور کو جواب دہ ہے، عوام کو نہیں۔
شہر کراچی کی مثال
سندھ ایک اور مثال پیش کرتا ہے۔ کراچی کو جو 2 کروڑ سے زائد آبادی کا ایک میگا سٹی ہے، ایک طاقتور میئر کی ضرورت ہے جس کے پاس منصوبہ بندی، پولیسنگ اور ٹیکسیشن کا اختیار ہو۔ اس کے برعکس بلدیاتی انتخابات برسوں تک مؤخر کیے گئے اور جب آخر کار منعقد ہوئے تو نتائج میں ہیرا پھیری کی گئی تاکہ ایک سیاسی جماعت کمزور شہری مینڈیٹ کے باوجود اقتدار میں رہے۔ شہر کے منتخب نمائندے بے اختیار چھوڑ دیے گئے، جب کہ صوبائی اور وفاقی حکام کوڑا کرکٹ اٹھانے، ٹرانسپورٹ اور پولیسنگ پر ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔ اس کا نتیجہ کراچی کی ٹوٹی سڑکوں،کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں ، بگڑتی ہوئی شہری سہولیات اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چھوٹے صوبوں کے قیام سے نئے صوبوں کی تشکیل نئے صوبوں کے قیام نئے صوبوں کے حامی نئے صوبوں کا قیام کو بااختیار بنا انتظامی ڈھانچہ کا مطالبہ کرنے مقامی حکومتوں صوبائی اسمبلی ہے کہ پاکستان صوبے بنانے کا اور بلوچستان بلوچستان میں بنانے کے لیے پاکستان میں قومی اسمبلی پاکستان کا کی ضروریات پاکستان کی بولنے والے چھوٹے صوبے پاکستان کے اسمبلی میں کے قیام کا رپورٹ میں کی فراہمی میں اضافہ کے باوجود کرسکتا ہے بڑے صوبوں کرتے ہوئے کرنے والے نہیں بلکہ میں ناکام کی وجہ سے کی ا بادی ا بادی کے کے طور پر پنجاب کی کیا جائے تشکیل دی بنانے کی وسائل کی موجود ہے نیا صوبہ ارب روپے سے زیادہ کی تقسیم اور نسلی کے مطابق کے ذریعے کی بنیاد کرتے ہیں اور عوام رہتے ہیں دیتے ہیں یہ ہے کہ عوام کی سکتی ہے کرتا ہے سکتا ہے پہلے ہی کے ساتھ یہ دلیل نہیں کر نہیں ہو جائے تو میں بھی سندھ کی صوبے کی زیادہ ا صوبے کے ہو جائے ممکن ہے عوام کو کے بعد کا ایک کی شرح میں فی گیا ہے اور ان پیش کر کی نئی فیصد ا ہیں بل سے بھی کے پاس نہیں ا ہیں کہ ہوں گے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں کینسر کے مریضوں کے لئے خوشخبری
صوبائی مشیر صحت احتشام علی کا کہنا تھا کہ منصوبے کیلئے کمپنیوں سے پہلے ہی پروپوزل طلب کرلئے گئے ہیں۔ یہ تاریخی اقدام صوبے میں کینسر کے علاج کے شعبے میں ایک نئے دور کا آغاز اور برسوں سے موجود بڑے خلا کو پُر کرے گا اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت کا صوبے میں پہلی بار کینسر کے مریضوں کے لئے سائبر نائف اور پی ای ٹی اسکین سہولت کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سائبر نائف روبوٹک ریڈیو سرجری اور پی ای ٹی/سی ٹی اسکین کی سہولت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کو فراہم کی جائے گی۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا میں پٹ اسکین کی سہولت موجود نہ ہونے سے کینسر کے مریضوں کو کراچی و دیگر صوبوں میں علاج کے لئے جانا پڑتا تھا۔ صوبائی مشیر صحت احتشام علی کا کہنا تھا کہ منصوبے کیلئے کمپنیوں سے پہلے ہی پروپوزل طلب کرلئے گئے ہیں۔ یہ تاریخی اقدام صوبے میں کینسر کے علاج کے شعبے میں ایک نئے دور کا آغاز اور برسوں سے موجود بڑے خلا کو پُر کرے گا
احتشام علی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے کینسر کے مریضوں کو تشخیص اور علاج کے لیے صوبے سے باہر دیگر شہروں کا رُخ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہر سال صوبے میں گیارہ ہزار سات سو سے زائد نئے کینسر کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، ایسے میں یہ سہولت نہایت بروقت اور زندگی بچانے والا اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائبر نائف سسٹم پیچیدہ اور ناقابلِ آپریشن ٹیومرز کے لیے غیر جراحی اور انتہائی درستگی کے ساتھ ریڈیو سرجری فراہم کرے گا۔ پی ای ٹی/سی ٹی اسکین کینسر کی بروقت تشخیص، درست اسٹیجنگ اور مریض کے لیے موزوں علاج کی منصوبہ بندی کو ممکن بنائے گا۔