Express News:
2025-09-21@22:58:08 GMT

جنریشن زی کے چیلینجز

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

ہر دُور اور نسل کے اپنے تقاضے اور چیلنجز ہوتے ہیں، ہر گزری نسل کو اپنے بعد آنے والی نسل سے شکوہ ہوتا ہے کہ وہ روایت سے ہٹ کر اپنے انداز سے زندگی بسر کر رہی ہے، جو اُن کے نقطہ نظر کے مطابق درست نہیں ہے۔ حسب روایت آج کل میری نسل کے لوگوں کو یوں لگتا ہے، کہ نئی نسل بالخصوص جنریشن زی زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ نہیں۔

انہوں نے زندگی کا وہ تجربہ نہیں کیا جو ہم نے کیا تھا، اس لیے یہ زندگی کی حقیقتوں سے ناواقف رہیں گے اور زندگی کے اس نقطۂ نظر کو نہیں دیکھ پائیں گے جو کام یابی کے لیے ضروری ہے۔ میں نوجوانوں کے ساتھ ٹریننگ سیشن اور ورکشاپ میں براہ راست گفتگو کرتا ہوں، جس سے اُن کا نقطہ نظر سمجھنے اور اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے۔

ایک ٹرینر اور لکھاری ہوتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر نسل کو اپنے بعد آنے والی نسل کے ساتھ اپنے تجربات، مشاہدات اور روایات کو ضرور شیئر کرنا چاہیے تاہم کسی بھی طرح سے نئی نسل کو پابند اور قید نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ان رسومات کی پیروی کریں۔ میں نے جو محسوس کیا اورتجربہ کیا، اُن بنیادوں پر نوجوان نسل بالخصوص جنریشن زی کے چند چیلینجز کو پیش کر رہا ہوں تاکہ والدین، اساتذہ اور تربیت کار اس نسل کی تربیت اور رہنمائی میں بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ نوجوان، قوموں کی قوت، طاقت اور چہرہ ہوتے ہیں۔ یہ شان دار ماضی کے محافظ اور درخشاں مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں، لیکن ان کے حال کو بہتر بنائے بغیر ان سے یہ توقع حماقت ہے۔ نوجوان اگر واقعی ہمارا فخر اور سرمایہ ہیں تو ان کی پرسنل اور پروفیشنل ڈوپلیمنٹ پر بھرپور وقت صرف کرنا، توجہ، مالی اور جذباتی سرمایہ کاری بہت ضرور ی ہے۔

پاکستان نوجوانوں کی بڑی تعداد پر مشتمل ملک ہے، لیکن ہمارے ہاں نہ ہی نوجوانوں کو مناسب تعلیم وتربیت دے کر تیار کیا جارہا ہے اور نہ مستقبل کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ اگر نوجوان ملک وقوم کا سرمایہ ہیں تو اُن پر صحیح وقت، سمت اور صلاحیتوں کے لیے سرمایہ کاری کریں، ورنہ یہ تعلیمی، تخلیقی اور ٹیکنکل اسکلز کے لیے بے کاری اور بیماری ثابت ہوں گے، جسے انگریزی میں brain drain  کہتے ہیں، اور ہمارا معاشرہ تخلیقی اور تعلیمی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوجائے گا۔ میں نے چند مسائل کی نشان دہی کی ہے جن پر قابو پاکر نئی نسل نئی منزلوں کو چھو سکتی ہے۔

مقصدِحیات سے زیادہ پروفیشن کو ترجیح

میری دانست میں آج کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اصل مقصد کو تلاش کرنے کے بجائے موجودہ رجحانات اور حالات کے مطابق پروفیشن اور کیریئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور جدید تقاضوں کے اعتبار سے یہ طرزِعمل کسی حد تک درست ضرور ہے، لیکن انسانی زندگی کی اصل تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے مقصدِحیات کو سمجھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔

میری نظر میں اگر جنریشن زی اپنے زندگی کے مقصد کو اپنے پروفیشن اور دیگر ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ کر لے تو وہ نہ صرف کام یابی کی نئی منزلیں طے کرسکتی ہے بلکہ ایک متوازن اور بامقصد زندگی بھی گزار سکتی ہے۔

ہر چیز کا حل؛ آج نہیں کل

یوں تو ہمارے معاشرے میں ہر دُور کی نسل کا یہ المیہ رہا ہے، مگر آج کی نسل میں یہ رجحان زیادہ نمایاں ہے کہ وہ ہر مسئلے کا حل کل پر ڈال دیتی ہے۔ کام یاب اور متحرک قوموں کی زندگی میں ’’آج‘‘ کی بے پناہ اہمیت ہوتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’جو کام آپ آج کر سکتے ہیں، اسے کل پر ہرگز مت ڈالیں۔‘‘ عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنریشن زی اکثر آج کے کاموں کو کل پر چھوڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، بے پرواہی پیدا ہوتی ہے، اور انسان دیرپا کام یابی حاصل نہیں کر پاتا ہے۔ لہٰذا، جنریشن زی کو یہ اصول اپنانا چاہیے کہ آج کے کام آج ہی مکمل کریں اور کل کے کام کل پر چھوڑیں۔ یہی عادت انہیں ایک کامیاب، منظم اور فعال زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

دِل نہیں؛ نمبر چاہیے

مجھے جنریشن زی کا سب سے حیران کن اور نہ سمجھ میں آنے والا مسئلہ یہ لگتا ہے کہ یہ دِل کی بات کے بجائے اعدادوشماریعنی نمبرز کی بنیاد پر اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی کیریئر ہو، ازدواجی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ سفر، یہ ہمیشہ دِل کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور بگ ڈیٹا کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ایپس ہوں، یوٹیوب کے ویوز ہوں، لائکس یا کمنٹس، ان کے لیے سب کچھ نمبرز کا گیم ہے۔ دِل مطمئن ہو یا نہ ہو، ان کے لیے نمبرز کا حصول ضروری ہے، کیوںکہ ان نمبرز سے انہیں برتری اور کام یابی کا احساس ملتا ہے۔

مصنوعی دُنیا میں حقیقی خوشی کے متلاشی

کبھی کبھی مجھے جنریشن زی پر ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی، کیوںکہ یہ مصنوعی دُنیا میں حقیقی خوشی کے متلاشی ہیں۔ ڈیجیٹل گیجٹس، سوشل میڈیا ایپس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا یہ دور ان کے لیے کھلونوں کی طرح ہے۔ اسی لیے یہ زندگی کے نشیب و فراز کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں پاتے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ کم رکھتے ہیں۔ یہ نسل اپنی احساسات اور توقعات کو اس مصنوعی دُنیا سے اس قدر جوڑ لیتی ہے کہ انہیں لگتا ہے یہی حقیقی دُنیا ہے۔ ان کے مزاج کا اندازہ نوجوان کے خون خراب ہونے سے نہیں بلکہ فون خراب ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنریشن زی اپنی مصنوعی کام یابی کو حقیقی خوشی سمجھ بیٹھتی ہے، اور اسی وابستگی کے نتیجے میں ذہنی صحت کے مسائل اور رویوں کی بے ترتیبی عام ہوتی جا رہی ہے۔

صبر نہیں بلکہ ابھی

چوں کہ جنریشن زی ہر چیز کو فاسٹ اور تیزرفتار دُنیا میں حاصل کرنے کی عادی ہو چکی ہے، ان کے لیے فاسٹ فوڈ، فاسٹ انٹرنیٹ، فاسٹ سروس اور فاسٹ نتائج ہی سب کچھ بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کام یابی اور کام کی تکمیل کے لیے تیزرفتاری کو ہی اصل معیار سمجھتے ہیں۔ یہ طرززندگی ان کے اندر صبر کی صلاحیت اور انتظار کی اہمیت کو کم زور کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی اس خوب صورت حقیقت اور سچائی سے ناواقف رہتے ہیں کہ بڑی کام یابیاں وقت اور استقامت مانگتی ہیں۔ اکثر یہی بے صبری انہیں جلدبازی کا شکار بنا دیتی ہے، اور وہ کئی غلط فیصلے اور راستوں کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں۔ میں اس حوالے سے کئی فلموں کے نام پہلے بھی بتا چکا ہوں، لیکن میری نظر میں ’ The Intern‘ نوجوان نسل کے لیے خاص طور پر ایک اہم فلم ہے۔ یہ فلم سکھاتی ہے کہ صبر اور برداشت انسان کی زندگی میں دیرپا اور حقیقی کام یابی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اور یہ خوبی ہے، کم زوری نہیں ہے۔

دُوراندیشی پر وقتی کام یابی کو فوقیت

مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنریشن زی دُوراندیشی کے بجائے وقتی کام یابی کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کے نزدیک اصل کام یابی وہی ہے جو فی الحال اور بروقت نتائج دے سکے۔ زندگی کے طویل المدتی فیصلوں اور دیرپا نتائج کے حوالے سے ان کی نگاہ عموماً کوتاہ رہتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جو بظاہر موجودہ وقت کے لیے کارگر ہوتے ہیں، مگر مستقبل کے لیے نہ دیرپا ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی پائے دار۔

کتاب کا خوب

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ آج کی نوجوان نسل کو میں کون سا تحفہ دینا چاہوں گا، تو میرا جواب ہوگا: کتاب اور بزرگوں کے ساتھ مضبوط رشتے۔ بے شک آج کی نسل ڈیجیٹل ایپس اور آن لائن ذرائع سے کتاب کا مطالعہ کرتی ہے، لیکن اصل کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا لطف اور اثر کچھ اور ہی ہے۔ کتاب کا باقاعدہ مطالعہ نہ صرف انسان کی روحانی اور نفسیاتی صحت کے لیے مفید ہے بلکہ سائنسی اور ذہنی نشوونما کے لیے بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح بزرگوں کے ساتھ جڑے رشتے زندگی کے انمول تجربات، حکمت اور صبر کی وہ دولت عطا کرتے ہیں جو کسی ڈیجیٹل دُنیا میں نہیں مل سکتی ہے۔ کتاب، نوجوان اور مطالعہ صحت مند معاشرے کی بنیاد میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر متحرک نوجوانوں کے لیے مطالعہ انتہائی اہم ہے۔کاش پاکستانی معاشرے میں سیاسی جماعتوں میں سرگرم نوجوان اور کارکنوں کو مطالعے کی لت لگ جائے تو اس معاشرے میں اک نئی رُوح پھونکی جاسکتی ہے۔ اس اُمید اور سوچ کے ساتھ میں نوجوانوں کو کتاب کا تحفَہ دیتا ہوں۔

کام یابی سفر ہے منزل نہیں

کیریئر کونسلنگ کے سیشنز اور ٹریننگ کے درمیان اکثر نوجوان بچے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سر! ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے والدین نہیں مانتے ہیں۔ میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ہمارے والدین بتانے سے نہیں، بلکہ دکھانے سے مانتے ہیں! کیوںکہ ہر والدین اپنے بچوں کو کام یاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں خود ایک باپ ہوں اور اس حقیقت سے اب اچھی طرح واقف ہوا ہوں۔

اس لیے میں اکثر اور نوجوانوں کو، خاص طور پر ایسے بچوں کو جو مشکل حالات، کم وسائل والے گھرانوں سے آتے ہیں، یہ مشورہ دیتا ہوں، کہ اپنے والدین کو اپنی کام یابی کے معیار اور معراج کا انتظار کرنے کی بجائے، اپنے سفر کے بارے میں ضرور دکھائیں۔ اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ انتظار کرتے ہیں کہ جب تک وہ کسی بڑے مقام، بڑے عہدے اور کام یابی کے اعلیٰ معیار کو حاصل نہیں کرلیں گے، اس وقت تک وہ اپنے والدین کے لیے فخر کا باعث نہیں بن سکتے! میری زندگی کا تجربہ ہے، میں نے بہت سارے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ جب وہ کام یابی کے مطلوبہ نتائج کو حاصل کرتے ہیں یا اپنی منزل کی معراج پر پہنچتے ہیں، تو اس کام یابی کے محرک اور سب سے زیادہ انتظار کرنے والے والدین اس وقت ان کے ساتھ نہیں ہوتے، اور پھر وہ کمروں میں چھپ چھپ کر اپنی کام یابی پر روتے ہیں کہ کاش ان کے والدین ان کو کام یاب ہوتا ہوا دیکھ پاتے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں، جس مقام، جس سفر اور منزل کی جانب گام زن ہیں، اپنے والدین کو دکھائیں اور اس سفر میں انہیں شامل کرلیں۔ اپنے والدین کو اپنی محنت کا ثمر اپنی آنکھوں سے دیکھنے دیں۔

خُدا ہمارے والدین کو صحت، اچھے دن دیکھنے کی نعمت اور اپنے بچوں کی کام یابی کو دیکھنے اور براہ راست تجربے کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)

یاد رکھیں ہمیں اپنی نئی نسل کو وقت کے تضاضوں کے مطابق تیار کرنا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات، بلکہ اپنے خاندان، شہر اور ملک کی نمائندگی اور بہتر قیادت کر سکیں ۔ آج کے نوجوان کے پاس وہ ذرائع اور سوچ بھی ہے، ضرورت ہے تو سمت اور مقصد کے حصول کے لیے ڈسپلن کی طاقت کی جسے علامہ اقبال نے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔

خِرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ جنریشن زی اپنے والدین کام یابی کے کام یابی کو نوجوان نسل والدین کو ان کے لیے د نیا میں کرتے ہیں زندگی کے ہوتے ہیں زندگی کی ہے کہ وہ دیتی ہے کتاب کا سکتی ہے کے ساتھ نسل کو ل نہیں اور اس نسل کے ہیں کہ

پڑھیں:

آپ کے فریج اب اشتہار بھی دکھائیں گے

سام سنگ نے اپنی اسمارٹ ٹیکنالوجی کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق کمپنی نے اپنے فیملی ہب اسمارٹ فریج پر اشتہارات دکھانے کا پائلٹ پروگرام شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد سام سنگ کے صارفین جلد ہی اپنی کچن میں موجود فریج کی اسکرین پر پروموشنل ایڈز دیکھ سکتے ہیں۔

یہ تجربہ اس وقت امریکا میں منتخب ماڈلز پر جاری ہے، جسے ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے ذریعے فعال کیا گیا ہے۔ اشتہارات فریج کے کَوَر اسکرین پر اس وقت ظاہر ہوں گے جب اسکرین پر موسم، رنگ یا ڈیلی بورڈ تھیم سیٹ ہو اور ڈیوائس آئیڈل حالت میں ہو۔

کمپنی کے مطابق اس اقدام کا مقصد صارفین کے لیے ”روزمرہ کی اضافی ویلیو“ فراہم کرنا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر صارفین اسے پرائیویسی میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔

سام سنگ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ، ’ہم اپنے صارفین کو زیادہ ویلیو دینے کی کوششوں کے حصے کے طور پر امریکا میں منتخب فیملی ہب ریفریجریٹر ماڈلز پر پروموشنز اور منتخب اشتہارات دکھانے کا تجرباتی پروگرام چلا رہے ہیں۔‘

کمپنی کے مطابق، اشتہارات صرف اسی وقت ظاہر ہوں گے جب اسکرین ڈیفالٹ کور اسکرین پر ہو۔ اگر صارفین اسے آرٹ موڈ یا اپنی ذاتی فوٹو البمز پر سیٹ کریں تو کوئی اشتہار نظر نہیں آئے گا۔

سام سنگ نے وضاحت کی ہے کہ صارفین کسی اشتہار کو ڈسمس کر سکتے ہیں، یعنی وہ مخصوص اشتہار دوبارہ ظاہر نہیں ہوگا، تاہم مکمل طور پر اشتہارات کو بند کرنے کا آپشن دستیاب نہیں ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ سام سنگ نے اسمارٹ ڈیوائسز پر اشتہارات لانے کا عندیہ دیا ہو۔ رواں سال کے آغاز میں نیویارک میں ایک پریزنٹیشن کے دوران کمپنی نے کہا تھا کہ مستقبل میں ”سام سنگ ایڈز“ برانڈ پیغام کو گھر کے ہر اسکرین تک پہنچا سکتی ہیں۔

پائلٹ پروگرام ستمبر 2025 میں شروع ہوا ہے اور چند ماہ تک جاری رہے گا۔ کسی بڑے پیمانے پر لانچ کا فیصلہ صارفین کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

دوسری جانب، صارفین کے ردعمل میں خاصی تنقید سامنے آئی ہے۔ ریڈٹ جیسے فورمز پر کئی صارفین نے کہا کہ وہ اس وجہ سے کبھی سام سنگ اسمارٹ فریج خریدنے کا ارادہ نہیں کریں گے، بعض نے تو یہ بھی کہا کہ وہ ان اشتہارات دینے والے برانڈز کو ہی بائیکاٹ کر دیں گے۔ کچھ صارفین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ قدم اُن کے کچن کی خوبصورتی اور ”کلین ڈیزائن“ کو متاثر کرے گا۔

یاد رہے کہ سام سنگ فیملی ہب ریفریجریٹرز میں بڑی اسکرینز نصب ہوتی ہیں، جو 32 انچ تک بھی ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی کے لیے اشتہارات کو نمایاں انداز میں دکھانے کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم، اگر صارفین اشتہارات سے مکمل طور پر بچنا چاہیں تو انہیں فریج کو انٹرنیٹ سے منقطع کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں اسمارٹ فیچرز بھی بند ہو جائیں گے۔

سام سنگ بھی اب ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جو اپنے اسمارٹ ہوم ڈیوائسز کو اشتہارات کے ذریعے کمرشلائز کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے ایل جی نے اپنے اسمارٹ ٹی وی پر اشتہارات دکھانے شروع کیے تھے، جبکہ ایمیزون اپنے ایکو شو ڈیوائسز پر پروموشنز پیش کرتا رہا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اسد اللہ بھٹو مقامی اسپتال میں صحافی نعیم اختر کی عیادت کے بعد صحت یابی کی دعا کر رہے ہیں
  • ہمیں ایک آمرانہ نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے، میر واعظ
  • اللہ کے نام پر…
  • تبدیلی کا خلاصہ
  • ایف بی آر کا شاہانہ لائف اسٹائل دکھانے والے امیروں کیخلاف گھیرا تنگ
  • آپ کے فریج اب اشتہار بھی دکھائیں گے
  • صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ’دل کا خانہ خالی ہوگیا‘، اداکار ارباز خان کی خوشبو سے طلاق کی تصدیق