برازیلی بندروں کو مستقل ٹھکانے کی تلاش، لاہور چڑیا گھر میں رکھنے کی تجویز مسترد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
لاہور:
برازیلی بندروں کو مستقل ٹھکانے کی تلاش، کئی ماہ سے غیر قانونی طور پر پاکستان لائے گئے یہ نایاب جانور کبھی کسٹمز حکام کی تحویل میں رہے، کبھی این جی او کی پناہ گاہ میں اور کبھی لاہور چڑیا گھر میں منتقل کرنے کی تجویز کا حصہ بنے، مگر اب لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان بندروں کو کسی ایسے ماحول میں نہیں رکھا جا سکتا جو ان کے فطری مسکن سے مطابقت نہ رکھتا ہو، لاہور ہائی کورٹ نے معدومیت کے شکار برازیلی نسل کے نایاب بندروں کو لاہور چڑیا گھر منتقل کرنے کی تجویز مستقل طور پر مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ان بندروں کو کسی ایسی خصوصی پناہ گاہ میں منتقل کیا جائے جو ان کے فطری ماحول سے ہم آہنگ ہو۔
انوائرمنٹل اینڈاینیمل رائٹس کنسلٹنٹس (ای اے آر سی) نے وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے ان بندروں کو کراچی کے ایک نجی شیلٹر ہوم سے لاہور چڑیا گھر منتقل کرنے کی تجویز کو لاہور ہائیکورٹ میں 24 جون 2025 کو چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے ابتدائی طور پر حکم امتناہی جبکہ اب مستقل فیصلہ جاری کیا ہے۔
درخواست گزار التمش سعید نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ لاہور چڑیا گھر کی حالت ان نایاب اور حساس بندروں کے لیے ہرگز موزوں نہیں، جہاں بلند شرح اموات، غیر معیاری ویٹرنری سہولیات اور شدید موسمی اثرات جانوروں کی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس مؤقف کی تائید عالمی اداروں بشمول ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے بھی کی تھی۔
معزز جسٹس خالد اسحاق نے تفصیلی سماعت کے بعد حکمِ امتناعی کو مستقل کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بندروں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جائے۔ اس موقع پر وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بھی عدالت کے سامنے یہ مؤقف اپنایا کہ بندروں کو لاہور منتقل کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
واضع رہے کہ رواں سال جنوری میں کسٹمز حکام نے جعلی دستاویزات پر جنوبی افریقہ سے کراچی لائے گئے 26 بندروں کو تحویل میں لیا تھا۔ ان میں مارموسیٹ اور کیوپچن نسل کے بندر شامل تھے، جنہیں تنگ پنجروں میں رکھنے کے باعث دو بندر راستے میں ہی مر گئے۔ باقی جانوروں کو کراچی میں قائم اے سی ایف فاؤنڈیشن کی پناہ گاہ منتقل کیا گیا جہاں ان کی بحالی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے۔
درخواست گزار التمش سعید نے عدالت کے فیصلے کو سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بندروں کا نہیں بلکہ معاشرتی رویوں کا سوال ہے۔ ان کے مطابق عدالت نے یہ پیغام دیا ہے کہ بے زبان اور معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کو ظلم اور لاپرواہی سے بچانے کے لیے قانون حرکت میں آئے گا۔ التمش سعید کےمطابق اس وقت آدھے بندر مرچکےہیں ۔
ادھر لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر عاصم چیمہ نے بتایا کہ چڑیا گھر انتظامیہ نے کبھی ان بندروں کو یہاں منتقل کرنے کی تجویز نہیں دی تھی۔ ان کے مطابق یہ سفارش وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی تشکیل کردہ کمیٹی نے دی تھی، جس نے لاہور چڑیا گھر کو ملک کے دیگر چڑیا گھروں کے مقابلے میں بہتر قرار دیا تھا۔ عاصم چیمہ نے کہا ہم نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ ہمارے پاس پہلے ہی بندروں کی خاصی تعداد موجود ہے اور اگر یہ لائے گئے تو ان کے لیے بالکل نیا انتظام کرنا پڑے گا۔ ہمارے پاس جگہ ہی نہیں ہے۔ عدالت میں بھی ہم نے یہی مؤقف دہرایا، جس کے بعد فیصلہ آیا کہ ان بندروں کو یہاں نہ رکھا جائے۔
التمش سعید کہتے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ان بندروں کو شمالی علاقہ جات میں کسی محفوظ سینچری یاپھر واپس برازیل بھیج دیا جائے تاکہ جو بندر باقی رہ گئے ہیں وہ سروائیو کرسکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منتقل کرنے کی تجویز کہ ان بندروں کو لاہور چڑیا گھر التمش سعید کے لیے
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب کا پنجاب میں کچرا ٹھکانے لگانے کا جدید منصوبہ
پنجاب حکومت کے حکم نامے کے مطابق سرکاری و نجی درس گاہوں میں 5 رنگ کے کوڑے دان رکھے جائیں۔ سینئر وزیر موحولیات اینڈ کلائمٹ چینج منصوبے کی نگرانی کریں گی، وزیرِ تعلیم اور وزیر لوکل گورنمنٹ کو ٹارگٹس سونپ دیئے گئے، 30 ستمبر تک تمام سکولوں میں رنگوں والے کوڑے دان لگانے کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے صوبے میں کچرا جمع کرنے کیلئے رَنگ دار کوڑے دان استعمال کرنے کا حکم دے دیا۔ پہلے مرحلے میں "سمارٹ ویسٹ مینجمنٹ پراسیس" پنجاب بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں نافذ کرنے کی منظوری دے دی گئی، پنجاب حکومت کے حکم نامے کے مطابق سرکاری و نجی درس گاہوں میں 5 رنگ کے کوڑے دان رکھے جائیں۔ سینئر وزیر موحولیات اینڈ کلائمٹ چینج مریم اورنگزیب منصوبے کی نگرانی کریں گی، رانا سکندر وزیرِ تعلیم اور ذیشان ملک وزیر لوکل گورنمنٹ کو ٹارگٹس سونپ دیئے گئے، 30 ستمبر تک تمام سکولوں میں رنگوں والے کوڑے دان لگانے کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی۔
اس حوالے سے یکم اکتوبر سے معائنہ شروع ہوگا اور رنگ دار کوڑے دان نہ رکھنے پر جرمانے ہوں گے، الگ الگ رنگ کے کچرے کے ڈبوں میں الگ الگ قسم کا کوڑا کرکٹ جمع کیا جائے گا، ماحولیاتی تحفظ کے ادارے نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ پیلے رنگ کے ڈبوں میں کاغذ اور ردی جمع کی جائے گی، سبز رنگ کے ڈبوں میں بوتلیں، کانچ کے ٹکڑے، لیبارٹری میں استعمال ہونے والا ضائع شدہ سامان ڈالا جائے گا۔ سُرمئی (گرے) رنگ میں پھلوں کے چھلکے، ضائع شدہ کھانا، پتے اور گلی سڑی سبزیاں پھینکی جائیں گی، لال رنگ کے کچرے کے ڈبے لوہے اور دیگر دھاتی کوڑے کیلئے استعمال ہوں گے، جبکہ نارنجی (اورنج) ڈبے پلاسٹک ویسٹ کیلئے استعمال کئے جائیں گے۔
ان اشیاء کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کیلئے استعمال کیا جائے گا، اس جدید طریقے کا مقصد کچرے کی مقدار میں کمی لانا اور ماحول دوست رویوں کو فروغ دینا ہے۔ پنجاب مینجمنٹ ہیلپ لائن (1139) پر تعلیمی ادارے کچرے کو اٹھانے کیلئے رابطہ بھی کر سکتے ہیں، لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ رنگدار کوڑے دانوں کے انتظام میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ ماحولیات کے تحفظ کا ادارہ (ای پی اے) تعلیمی اداروں میں اس طریقہ کار کے نفاذ کو یقینی بنائے گا، ای پی اے ٹیم درس گاہوں کا معائنہ بھی کرے گی، معیار پر پورا اترنے والے تعلیمی اداروں کو ای پی اے کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔