پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی کم عمری میں شادی، یونیسیف
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) پاکستان میں آئینی تحفظات کے باوجود شادی کی قانونی عمر کے حوالے سے صوبوں میں عدم توازن موجود ہے۔ صرف سندھ اور اسلام آباد میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے جب کہ باقی صوبوں میں اس خلا کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں کم عمری میں گھریلو تشدد اور تعلیم سمیت دیگر محرومیوں سے دوچار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہر چھ میں سے تقریباً ایک لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہے جبکہ لگ بھگ 48 لاکھ لڑکیاں 15 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں جکڑ دی جاتی ہیں، جو اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان میں قومی سطح پر مربوط اقدامات کس قدر ضروری ہیں۔
اس تشویش ناک صورت حال کا انکشاف گزشتہ دنوں اسلام آباد میں '’چائلڈ ارلی اینڈ فورسڈ میرج (سی ای ایف ایم) پروجیکٹ‘ کے ایک پروگرام میں ہوا، جو امریکی محکمہ خارجہ اور ’سیو دی چلڈرن‘ کے تعاون سے کیا منعقد کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں کیا ہے؟یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 29 فیصد لڑکیوں کی 18 سال سے پہلے اور 4 فیصد کی 15 سال سے پہلے شادی کر دی جاتی ہیں۔
اس کا خمیازہ برباد مستقبل، صحت کی خرابی اور حقوق سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 18 سال سے پہلے شادی کرنے والی لڑکیوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ کا اسکول چھوڑ دینے کا امکان رہتا ہے۔
جب کہ دیہی علاقوں میں دسویں جماعت تک صرف 13 فیصد لڑکیاں تعلیم جاری رکھ پاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق خطرات یہیں ختم نہیں ہوتے۔ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں میں حمل سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر موت کا امکان 20 سال کی خواتین کے مقابلے میں 2 سے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں ابتدائی حمل نوجوان ماؤں کی اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تولیدی صحت کے بارے میں بنیادی علم تک نہیں رکھتیں۔ 2024 کے ایس ڈی جی جینڈر انڈیکس کے مطابق پاکستان 139 ممالک میں سے 137 ویں نمبر پر ہے، جہاں صنفی مساوات کا اسکور دنیا میں سب سے کم ممالک میں شامل ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کم عمری میں شادی کے مسئلے کا تعلق ماحولیاتی آفات کے ساتھ بھی ہے، کیونکہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان میں کم عمری کی شادیوں میں 18 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
قانون موجود لیکن عمل درآمد کممئی 2025 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل منظور کیا، جس کے تحت شادی کی کم از کم عمر دونوں جنسوں کے لیے 18 سال مقرر کی گئی۔ اس قانون کے مطابق نابالغ شادیاں کرانے یا نکاح پڑھانے والوں کے لیے جرمانے اور قید کی سزائیں متعارف کرائی گئیں اور مقامی حکام کو ایسے رشتے روکنے کا اختیار دیا گیا۔
تاہم، سیاسی جماعتوں کا اس حوالے سے رویہ منقسم رہا۔ اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ قانون کی منظوری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اس 'سنگ میل‘ کا خیرمقدم کیا، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس قانون کی شدید مخالفت کی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اس قانون کو ’’قرآن و سنت کے خلاف اور ان پر ڈاکہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی ریلیوں کا اعلان کیا تاکہ ’’اسلامی شناخت کو لاحق خطرات‘‘ کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔
برصغیر میں کم عمری کی شادی روکنے کی پہلی قانونی کوشش 1929 کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے ذریعے کی گئی، جس میں لڑکیوں کے لیے کم از کم عمر 14 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال مقرر کی گئی تھی۔ آزادی کے بعد پاکستان نے معمولی ترامیم کے ساتھ یہی قانون برقرار رکھا۔ 1961 میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس کے ذریعے مزید پابندیاں لگائی گئیں، لیکن ان پر عملدرآمد کمزور رہا۔
بعد میں 2010 کی 18ویں ترمیم اور اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد صوبوں نے اپنے اپنے قوانین بنائے۔ سندھ نے 2013 میں لڑکیوں کی کم از کم عمر 18 سال کر دی، جبکہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اب بھی لڑکیوں کی کم از کم عمر 16 سال ہے۔پاکستان میں سول سوسائٹی کم عمری کی شادی کے خاتمے کی مہم چلاتی رہی ہیں۔
’سیو دی چلڈرن‘ کے کنٹری ڈائریکٹر، خُرم گوندل نے کہا، ''’’حقیقی تبدیلی صرف پالیسیوں سے نہیں آتی، بلکہ اس کے لیے تسلسل، عزم اور حکومت، سول سوسائٹی اور مقامی شراکت داروں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی کم از کم عمر پاکستان میں لڑکیوں کی کے مطابق سے پہلے شادی کے کی شادی کے لیے کے بعد سال سے
پڑھیں:
شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ شادی کسی بیٹی کو اپنے والدین کے سرکاری کوٹے کے تحت نوکری کے حق سے محروم نہیں کر سکتی۔
عدالت نے واضح کیا کہ شادی شدہ بیٹی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو شادی شدہ بیٹے کو حاصل ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر ملازمت سے انکار آئین، قانون اور خواتین کے مساوی حقوق کے منافی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے رپورٹنگ کے لیے منظور شدہ تحریری فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے فرخ ناز بنام سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کیس میں تحریر کیا۔ کیس میں درخواست گزار فرخ ناز کی تقرری بطور پرائمری اسکول ٹیچر منسوخ کر دی گئی تھی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔
عدالت نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے بحال کر دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریٹائرمنٹ یا وفات پانے والے سرکاری ملازم کے بچوں کے لیے مختص کوٹہ دراصل ریاست کی طرف سے متاثرہ خاندان کی مالی مدد اور والدین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس لیے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس حق کو متاثر نہیں کرتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ “شادی عورت کی شخصیت یا اس کے بنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،” اور اسے کسی طور پر ملازمت کے لیے نااہل قرار دینا آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک شادی شدہ عورت کو والدین پر بوجھ یا ذمہ داری قرار دینا انتہائی توہین آمیز اور غیر آئینی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ عورت کو کام کرنے یا گھر پر رہ کر خاندان کی دیکھ بھال کرنے کا اختیار دونوں صورتوں میں باعزت ہے۔ قانون اسے اس کی مرضی کے خلاف محدود نہیں کر سکتا۔
ویب ڈیسک
Faiz alam babar