تحریک طالبان کے 70 فیصد حملہ آور افغان شہری نکلے، پاک افغان تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستانی حکام نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) کے حالیہ حملوں میں ملوث 70 فیصد عسکریت پسند افغان شہری تھے۔ یہ تعداد گزشتہ سالوں میں ریکارڈ کیے گئے 5سے 10فیصد کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یہ چونکا دینے والا انکشاف افغانستان کے بارے میں پاکستان کے خصوصی نمائندہ سفیر محمد صادق نے دوشنبہ میں منعقدہ افغانستان کے بارے میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے حالیہ بند کمرے کے اجلاس میں کیا۔
اس انکشاف کے بعد ایرانی نمائندے نے بھی اپنا نقطہ نظر بتایا اور ظاہر کیا کہ ان کا ملک بھی اسی طرح کے مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایرانی نمائندے نے چابہار بندرگاہ پر حملے کا حوالہ دیا جہاں 18 حملہ آوروں میں سے 16 افغان شہری تھے۔ دہشت گردانہ حملوں میں افغان شہریوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے اسلام آباد میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ حکام اب سرحد پار دہشت گردی میں افغانوں کی بڑھتی شمولیت کو ایک نئے اور خطرناک رجحان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ رجحان ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال روکنے میں طالبان حکومت کی ناکامی یا عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کر رہا ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ اس پیشرفت سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان پہلے سے ہی ناخوشگوار تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ طالبان نے ٹی ٹی پی کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے تاہم اسلام آباد کا اصرار ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں برقرار ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں خیبرپختونخوا میں کئی مہلک حملوں کے بعد تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ ان حملوں کا تعلق پاکستان نے براہ راست افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں سے جوڑا ہے۔ پاکستان اب طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے علاقائی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ سفارتی رابطے بڑھا رہا ہے۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان سفیر محمد صادق جلد ہی اس معاملے پر بات چیت کے لیے تہران اور ماسکو جائیں گے۔ یہ رسائی اسلام آباد کی وسیع تر علاقائی اتفاق رائے کے حصول کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے تاکہ طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
پاکستان کی طرح ایران اور روس دونوں ہی افغانستان کے نازک سکیورٹی منظرنامے سے فائدہ اٹھانے والے شدت پسند گروپوں کے حوالے سے محتاط رہتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ٹی ٹی پی
پڑھیں:
اگر افغانستان نے حملہ کیا تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تیار ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سے متعلق بین الاقوامی ادارے پر ایک خبر شائع ہوئی جسے غلط تناظر میں پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پاکستان افغانستان میں دراندازی یا فوجی آپریشن کے لیے تیار ہے، حالانکہ خواجہ آصف نے واضح موقف اختیار کیا کہ پاکستان مذاکرات کی کامیابی کے لیے نہ صرف کوششیں کررہا ہے بلکہ دعاگو بھی ہے، لیکن اگر ناکامی کی صورت میں افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ اگر افغانستان نے پاکستان پر حملہ کیا گیا یا سرحد پار سے کسی قسم کی دراندازی ہوئی تو ملک کا دفاع کرنا پاکستان کا بنیادی حق ہے، جیسا کہ دنیا کے ہر خودمختار ملک کو حاصل ہوتا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان میں کہا کہ افغانستان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان میں حملے کے لیے بطور ایجنٹ استعمال کررہا ہے اور پاکستان میں مرنے والے دہشتگردوں میں 55 فیصد افغانی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان میں حملے کے پیچھے پوری طرح کھڑی ہے۔
وزیرِ دفاع نے کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان سے جاری مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سرزمین کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
خواجہ آصف نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں اور کابل میں بھارتی اثرورسوخ اس راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مرتبہ چیزوں پر اتفاق بھی ہوا مگر وہاں سے ایک کال پر سب خراب ہوجاتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کابل میں بھارتی حمایت یافتہ لوگ بیٹھیں جو اس پورے معاملے کو خراب کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی وفد نے قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات کا دور بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
خواجہ محمد آصف نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے افغان قیادت کو دانشمندی سے کام لینا چاہیے کیونکہ پاکستان ہمیشہ سے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات اور سرحدی سلامتی کے لیے کوشش کرتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور اگر کسی بھی ملک کی جانب سے جارحیت کی کوشش کی گئی تو اُس کا جواب بین الاقوامی قوانین کے مطابق دیا جائے گا۔