فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اٹلی کے مختلف شہروں میں پیر کے روز ہزاروں افراد نے فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے، جس دوران پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں اور کئی شاہراہیں بند رہیں۔
احتجاجی مظاہرے روم، میلان، بولونیا، تورین، فلورنس، جینوا اور لیورنو سمیت بڑے شہروں میں کیے گئے۔ یہ مظاہرے ملک گیر ہڑتال کا حصہ تھے جس کا انتظام مزدور یونینز نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بڑی تعداد میں فلسطینی ہلاکتوں کے خلاف کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینی ریاست کا قیام ایک حق ہے، انعام نہیں، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی میں خطاب
روم میں 20 ہزار سے زائد افراد مارچ میں شریک ہوئے جن میں اسکول کے طلبہ بھی شامل تھے جو فلسطینی پرچم لہرا رہے تھے۔ میلان کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر صورت حال سنگین ہوگئی جہاں کچھ مظاہرین نے پولیس پر پتھر اور کرسیاں پھینکیں اور شیشے توڑ ڈالے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق جھڑپوں میں 60 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 10 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
مظاہرین اپنی حکومت سے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ مظاہرے ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب گزشتہ دنوں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، پرتگال اور فرانس نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اٹلی احتجاج غزہ فسلطینی ریاست ہڑتال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اٹلی فسلطینی ریاست ہڑتال فلسطینی ریاست
پڑھیں:
’ خوشی بھی، تشویش بھی‘، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر عوامی ردعمل
حالیہ دنوں میں کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور فرانس سمیت کئی بڑے ممالک نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب دنیا کے 150 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر مانتے ہیں۔
’ یہ اسرائیل کے لیے جھٹکا ہے‘، ادیل شادیدہیبرون کے قریب دورا کے محقق ادیل شادید کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا فیصلہ ایک تاریخی اصلاح ہے کیونکہ برطانیہ نے ہی ایک صدی قبل بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے مطابق یہ فیصلے اسرائیل کی سیاسی اور اخلاقی تنہائی میں اضافہ کرتے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ جب تک زمین اور عملی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، صرف کاغذ پر ریاست کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہوگا۔
’امریکا کا قدم سب سے اہم ہوگا‘، راعد السعیدہیبرون کی مرکزی مارکیٹ میں کافی بیچنے والے راعد السعید کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی کوششوں سے یہ پیشرفت ممکن ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب امریکا فلسطین کو ریاست تسلیم کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ عوام میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے: کچھ لوگ پرامید ہیں جبکہ کچھ کو خدشہ ہے کہ اسرائیل انتقامی کارروائیوں میں شدت لا سکتا ہے۔
’فائدے بھی ہیں، خطرات بھی‘، مرام نصربین الاقوامی قانون کی ماہر مرام نصر نے کہا کہ یہ فیصلے فلسطین کی سیاسی و سفارتی حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں، نئی ایمبیسیوں کے قیام اور عالمی سطح پر حمایت بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ معاشی میدان میں بھی فائدہ دے سکتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فلسطینی عوام کی براہِ راست مدد کے راستے کھل سکتے ہیں۔
تاہم وہ خدشہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل ان فیصلوں کے ردعمل میں مزید زمینیں ہتھیانے اور فلسطینی ریاست کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں تیز کر سکتا ہے۔
فلسطینی عوام ان فیصلوں کو ایک بڑی کامیابی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل اس کے جواب میں مزید سخت اقدامات کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:فلسطینی ریاست کا قیام ایک حق ہے، انعام نہیں، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی میں خطاب
ایک طرف یہ پیشرفت فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک روشن باب ہو سکتی ہے، مگر دوسری طرف اس کے نتائج مزید مشکلات بھی لا سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطین فلسطینی ریاست