نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 ستمبر ۔2025 ) سعودی عرب اور فرانس نے مشترکہ بیان میں دنیا کے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اعلان نیویارک کو عملی اور ناقابل واپسی اقدامات کے ذریعے جلد نافذ کریں بیان میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے کیے گئے اقدامات اور عہد کا خیرمقدم کیا گیا ہے.

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے محفوظ مستقبل کی ضمانت ضروری ہے اس مقصد کے لیے ایک عارضی بین الاقوامی مشن کی تعیناتی کی حمایت کی گئی جو فلسطینی اتھارٹی کی درخواست اور سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت عمل میں لائی جائے گی اعلان نیویارک جسے جنرل اسمبلی نے 142 ووٹوں سے غیر معمولی اکثریت کے ساتھ منظور کیا دو ریاستی حل کے لیے عالمی عزم کو مستحکم کرتا ہے اور خطے کے بہتر مستقبل کی طرف ناقابل واپسی راستہ متعین کرتا ہے.

سعودی نشریاتی ادارے کے مطابق بیان میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کانفرنس کے دوران غزہ میں انسانی المیہ شدید تر ہو رہا ہے اسرائیلی زمینی حملے جاری ہیں اور شہریوں کو ناقابل جواز قیمت چکانا پڑ رہی ہے اس تناظر میں اعلان نیویارک کو تشدد اور جنگوں کے تسلسل کا واحد حقیقی اور عملی متبادل قرار دیا گیا بیان میں فلسطینی پولیس اور سکیورٹی فورسز کی تربیت اور تیاری کے لیے امریکی، یورپی اور اقوام متحدہ کے جاری پروگراموں سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا گیا.

سعودی عرب اور فرانس نے فلسطینی اتھارٹی کے اعلان” ایک ریاست، ایک حکومت، ایک قانون اور ایک ہتھیار“کی پالیسی کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے کو اتھارٹی کے تحت متحد کرنا ضروری ہے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ، اس کے ہتھیاروں کی ضبطگی اور انہیں فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنا لازمی ہے تاکہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جا سکے.

بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ میں منعقدہ اس کانفرنس نے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے سعودی عرب اور فرانس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ زبانی وعدوں کے بجائے عملی اقدامات کریں بیان میں آسٹریلیا، بیلجیئم، کینیڈا، لکسمبرگ، مالٹا، پرتگال، برطانیہ، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے جانب سے فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف کا خیرمقدم کیا گیا سعودی عرب اور فرانس نے ان ممالک کو بھی اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی جنہوں نے ابھی تک یہ قدم نہیں اٹھایا.

بیان میں کہا گیا کہ آزاد، جمہوری اور معاشی طور پر مستحکم فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی بنیاد ہے صدر محمود عباس کی جانب سے تاریخی عہد پرامن حل کی وابستگی، تشدد اور دہشت گردی سے مستقل انکار، غیر مسلح فلسطینی ریاست کا وعدہ اور اصلاحات کی کوششوں کو خصوصی طور پر سراہا گیابیان میں غزہ میں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، قیدیوں کا تبادلہ، انسانی امداد کی بلاروک رسائی اور اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کو اولین ترجیح قرار دیا گیا.

بیان میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ دو ریاستی حل پر واضح عہد کرے، تشدد اور آبادکاری کی پالیسی ترک کرے فلسطینی زمینوں کے الحاق سے باز رہے اور آبادکاروں کے تشدد کو روکے بیان میں یاد دہانی کرائی گئی کہ الحاق ”سرخ لکیر“ ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے بیان میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے قیدیوں کے لیے مالی مراعات کے خاتمے، نصاب کی اصلاحات اور ایک سال کے اندر شفاف انتخابات کرانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ساتھ ہی ایک ہنگامی مالیاتی اتحاد تشکیل دینے اور فلسطینی اتھارٹی کے بجٹ کی فوری معاونت پر زور دیا گیا.

بیان کے مطابق اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور منصفانہ و پائیدار امن ہی خطے کے مکمل انضمام کا واحد راستہ ہے جیسا کہ عرب امن منصوبے میں تجویز کیا گیا اسی تناظر میں خطے کے لیے ایک مشترکہ سکیورٹی نظام کی تشکیل کی تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا گیا آخر میں سعودی عرب اور فرانس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس تاریخی موقع کو ضائع نہ کرے اور مشرق وسطیٰ کے تمام عوام کے لیے امن، سلامتی اور خوشحالی یقینی بنانے کے لیے مل کر آگے بڑھے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سعودی عرب اور فرانس نے فلسطینی اتھارٹی کا خیرمقدم کیا اعلان نیویارک فلسطینی ریاست اتھارٹی کے پر زور دیا کہا گیا کہ دیا گیا کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

سعودی ولی عہد 18نومبر کو ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

یہ اہم ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو ابراہم معاہدوں (Abraham Accords) میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے۔ یہ اہم ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو ابراہم معاہدوں (Abraham Accords) میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2020ء میں ان معاہدوں کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے تھے، تاہم سعودی عرب نے اب تک اس میں شمولیت سے گریز کیا ہے کیونکہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے ٹھوس اقدامات چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب جلد ابراہم معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مزید ممالک کو اس امن معاہدے میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ امریکی اور سعودی قیادت کے درمیان ملاقات میں ایک دفاعی معاہدے (Defense Agreement) پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ ولی عہد کے دورے کے دوران کسی ممکنہ دفاعی معاہدے پر پیش رفت ہو۔ ذرائع کے مطابق، سعودی عرب امریکا سے جدید ترین اسلحہ اور باضابطہ دفاعی ضمانتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے تیل اور سکیورٹی تعاون پر مبنی ہیں۔ یاد رہے کہ مئی میں ٹرمپ کے ریاض کے دورے کے دوران امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ 142 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کا معاہدہ کیا تھا، جب کہ محمد بن سلمان نے 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا، جس پر ٹرمپ نے مذاق میں کہا تھا کہ “یہ رقم 10 کھرب ڈالر ہونی چاہیے۔”

متعلقہ مضامین

  • چین کے کھلے پن کے دروازے دن بدن وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں ، چینی وزارت تجارت
  • ایران نے پاک سعودی دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش ظاہر کردی
  • ایران کی پاکستان و سعودی عرب کے دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش
  • صہیونی جاسوسوں کے مقابلے اور سازشوں کی روک تھام کے لیے فلسطینی مزاحمت کی ہدایات
  • اجتماع عام نظام کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ‘ ساجدہ تنویر
  • سعودی ولی عہد 18نومبر کو ٹرمپ سے ملاقات کریں گے
  • سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کریں گے
  • کراچی کی سڑکوں پر ڈمپروں کے پے درپے وار، ٹریفک پولیس کے اقدامات
  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • سعودی عرب: عازمین حج کے لیے اہم اعلان