جعلی ڈگری کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جلد سماعت کی درخواست دائر کردی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپنی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا کی ہے، جس میں 16 ستمبر کو جاری ہونے والے اس حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت انہیں عدالتی فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ حکم آئی ایچ سی کے ڈویژنل بینچ نے اس وقت جاری کیا جب جسٹس جہانگیری کی کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حاصل کردہ قانون کی ڈگری کی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹریبونل: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تبدیلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار
جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کی شکایت جولائی 2024 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی، جب کہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس کے اوائل میں آئی ایچ سی میں دائر ہوئی تھی، تنازع کی بنیاد وہ خط بنا جو گزشتہ سال سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا اور مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ایک غیر معمولی پیشرفت میں آئی ایچ سی کے دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان کر رہے تھے، نے وکیل میاں داؤد کی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کو جسٹس جہانگیری نے سپریم کورٹ میں براہ راست چیلنج کیا اور حکم امتناع کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی۔
بعد ازاں، جسٹس جہانگیری نے اپنے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ انہیں عدالتی فرائض سے روکنے کا حکم قانون کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ کے جج کے فرائض اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی فوری مداخلت ناگزیر ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس فیصلے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو گی جس کے تحت کسی بھی زیر التوا ریفرنس یا شکایت کی بنیاد پر ہائی کورٹ کسی جج کو فرائض انجام دینے سے روک سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حکم درخواست گزار کو سنے بغیر جاری کیا گیا، جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ ہائی کورٹ کے جج کی مدت ملازمت عمر کی حد سے مشروط ہے، اس لیے ضائع ہونے والا وقت دوبارہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ انہیں اپنے منصب پر بحال کر کے عدالتی فرائض سرانجام دینے کا موقع دیا جا سکے۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ ان کئی تنازعات میں سے ایک ہے جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ حالیہ دنوں میں سامنا کر رہی ہے۔ چند روز قبل آئی ایچ سی کے پانچ ججز، بشمول جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سمن رفت اعجاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں بینچوں کی تشکیل، روستر اور کیسوں کی منتقلی جیسے معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس جلد سماعت درخواست دائر سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس درخواست دائر سپریم کورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جسٹس جہانگیری درخواست دائر جہانگیری نے سپریم کورٹ کورٹ کے جج آئی ایچ سی ہائی کورٹ جعلی ڈگری کیا گیا ڈگری کی دائر کی گیا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز کی درخواستیں اعتراض لگا کر واپس کردیں
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس کر دیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے درخواستوں پر اعتراضات عائد کر دئیے ہیں۔ عائد اعتراضات کے مطابق درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، ایسے کونسے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو۔ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش کی بنیاد پر آرٹیکل 184/3 کی درخواست دائر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزاء پورے نہیں کیے گئے۔ ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی اور نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی۔