اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اپنی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا کی ہے، جس میں 16 ستمبر کو جاری ہونے والے اس حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت انہیں عدالتی فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا تھا۔ یہ حکم آئی ایچ سی کے ڈویژنل بینچ نے اس وقت جاری کیا جب جسٹس جہانگیری کی کراچی یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حاصل کردہ قانون کی ڈگری کی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹریبونل: جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تبدیلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار

جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کی شکایت جولائی 2024 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی، جب کہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس کے اوائل میں آئی ایچ سی میں دائر ہوئی تھی، تنازع کی بنیاد وہ خط بنا جو گزشتہ سال سوشل میڈیا پر گردش کرتا رہا اور مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ایک غیر معمولی پیشرفت میں آئی ایچ سی کے دو رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان کر رہے تھے، نے وکیل میاں داؤد کی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر رِٹ پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ اس فیصلے کو جسٹس جہانگیری نے سپریم کورٹ میں براہ راست چیلنج کیا اور حکم امتناع کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی۔

بعد ازاں، جسٹس جہانگیری نے اپنے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کے ذریعے ایک اور درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ انہیں عدالتی فرائض سے روکنے کا حکم قانون کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ہائی کورٹ کے جج کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے اس طرح نہیں روکا جاسکتا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ کے جج کے فرائض اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی فوری مداخلت ناگزیر ہے۔ مزید کہا گیا کہ اس فیصلے سے ایک خطرناک مثال قائم ہو گی جس کے تحت کسی بھی زیر التوا ریفرنس یا شکایت کی بنیاد پر ہائی کورٹ کسی جج کو فرائض انجام دینے سے روک سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حکم درخواست گزار کو سنے بغیر جاری کیا گیا، جو انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ ہائی کورٹ کے جج کی مدت ملازمت عمر کی حد سے مشروط ہے، اس لیے ضائع ہونے والا وقت دوبارہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو فوری طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ انہیں اپنے منصب پر بحال کر کے عدالتی فرائض سرانجام دینے کا موقع دیا جا سکے۔

یاد رہے کہ یہ معاملہ ان کئی تنازعات میں سے ایک ہے جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ حالیہ دنوں میں سامنا کر رہی ہے۔ چند روز قبل آئی ایچ سی کے پانچ ججز، بشمول جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سمن رفت اعجاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں بینچوں کی تشکیل، روستر اور کیسوں کی منتقلی جیسے معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس جلد سماعت درخواست دائر سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری کیس درخواست دائر سپریم کورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جسٹس جہانگیری درخواست دائر جہانگیری نے سپریم کورٹ کورٹ کے جج آئی ایچ سی ہائی کورٹ جعلی ڈگری کیا گیا ڈگری کی دائر کی گیا کہ

پڑھیں:

ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ اپیل کورٹ میں بدل جائے گی

اسلام آباد:

27 آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے مجوزہ قیام پر تمام نظریں سپریم کورٹ کے ججوں کے ردعمل پر لگ گئیں۔ ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ اپیل کورٹ میں بدل جائیگی۔ 

ذرائع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ حکومت وفاقی شریعت کورٹ کی عمارت وفاقی آئینی عدالت  کو مختص کرنے پر غور کر رہی، ایک سینئر وفاقی وزیر  کے دورے پر شریعت کورٹ کے ججوں نے سپریم کورٹ سے حکومتی منصوبے پر خدشات کا اظہار کیا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ 26 ویں اور27 ویں آئینی ترمیم ججوں کے ایک گروپ کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔

سابق چیف جسٹس  فائز عیسیٰ نے ہم خیال ججوں کیساتھ مل کر عدالتی احکامات کے ذریعے26 ویں آئینی ترمیم کی راہ ہموار کی۔ 26 ویں ترمیم کے بعد سے سپریم کورٹ دو کیمپوں میں تقسیم ہو چکی، حکومت ان کی ایک سالہ کارکردگی سے مطمین ہے۔ 

آئینی بینچ نے عام شہریوں پر مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی توثیق کی، مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ منسوخ کیا جس کے نتیجہ میں 78 مخصوص نشستیں حکمران پارٹیوں کو مل گئیں، حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملی ، آئینی بینچ نے کسی ایگزیکٹیو ایکشن پر سوال نہیں اٹھایا۔ 

آئینی بینچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ نہیں دیا، 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد وہ درخواستیں بے اثر ہو جائیگی۔

وکلاء کے مطابق اگلے 10 روز کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کا  کردار انتہائی اہم ہو گا، 27 ویں ترمیم کا بل پیش ہونے کے بعد انہیں اٹارنی جنرل سے جائزہ کیلئے اس کا ڈرافٹ مانگنا چاہیے۔

بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ تاریخ سپریم کورٹ کا تقدس پامال کرنیوالے ججوں کو معاف نہیں کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز منظور کر لیں
  • سپریم کورٹ، وکلا کی سہولت اور عدالتی کارکردگی بہتر بنانے پر اہم ملاقات
  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر
  • سپریم کورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر
  • مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر
  • مجوزہ آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
  • سپریم کورٹ: 27ویں آئینی ترمیم پر دلچسپ ریمارکس، کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی
  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر ججز اور وکلاء کے درمیان دلچسپ مکالمہ
  • ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ اپیل کورٹ میں بدل جائے گی