نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس کے شرکا پر مشتمل وفد کا دورۂ سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس 2026 کے شرکا پر مشتمل ایک وفد نے آج سپریم کورٹ کا دورہ کیا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق دورے پر آئے این ڈی یو کورس کے شرکا نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی۔
120 سے زائد ارکان پر مشتمل اس وفد کی قیادت چیف انسٹرکٹر میجر جنرل نعیم اختر نے کی۔
وفد میں فیکلٹی ممبران، پاکستان کی مسلح افواج اور سول سروسز کےافسران کے علاوہ 26 دوست ممالک کے شرکا بھی شامل تھے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں آئینی ڈھانچے میں اختیارات کی تقسیم، انصاف تک رسائی اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کے کردار سے آگاہ کیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے وفد میں شامل ارکان کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔
وفد نے سپریم کورٹ کے میوزیم کا دورہ کیا اور عدالتی ریکارڈ میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور وفد کے سربراہ کے درمیان یادگاری تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد بنیادی حقوق جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ عدلیہ میوزیم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد بنیادی حقوق جسٹس یحیی آفریدی سپریم کورٹ عدلیہ میوزیم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس سپریم کورٹ چیف جسٹس کے شرکا
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج
سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے آئینی دائرہ اختیار کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم، سپریم کمانڈر صدر ہی رہیں گے: اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا خصوصی انٹرویو
درخواست بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں وفاقِ پاکستان، سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مجوزہ ترمیم کے تحت ’آئینی عدالتوں‘ کے قیام اور آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اختیارات کو کم یا منتقل کرنے کا امکان ہے، جو عدلیہ کی آزادی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ قرار دے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کو کسی بھی ترمیم یا قانون کے ذریعے محدود یا ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ آئین کی بنیادی خصوصیت کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وی ایکسکلوسیو: آئین زندہ دستاویز ہے، 27ویں کے بعد مزید ترامیم بھی لائی جاسکتی ہیں، مصطفیٰ کمال
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آئینی عدالت‘ کے نام سے کوئی متوازی یا بالادست فورم قائم کرنے کی کوشش آئین کے منافی ہوگی، لہٰذا عدالت اس مجوزہ ترمیم کے نفاذ کو روکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں