سیلاب کی تباہ کاریاں، راستے بحال نہ ہونے سے متاثرین کو گھر واپسی میں مشکلات
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
سیلاب کی تباہ کاریاں، راستے بحال نہ ہونے سے متاثرین کو گھر واپسی میں مشکلات WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس) پنجاب میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے شہری سنبھل نہیں سکے، کئی علاقوں میں اب تک پانی کھڑا ہے، پانی کھڑا ہونے سے بحالی میں تاخیر ہو رہی ہے، کئی علاقوں میں راستے بحال نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے متاثرین کو گھروں کی طرف واپسی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
احمد پور شرقیہ اور اوچ شریف میں سیکڑوں گھر اور ہزاروں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں، باغات، تعلیمی ادارے ، سڑکیں دیگر انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود جگہ جگہ پڑے شگاف بند نہ کئے جاسکے، راستے بحال نہ ہونے سے سیلاب متاثرین کو واپسی میں مشکلات کا سامنا ہے، سیلاب متاثرہ علاقوں میں اشیا خورونوش کے حصول میں مشکلات ہیں۔
سیلاب متاثرین کے لیے مویشیوں کا چارہ حاصل کرنا بھی مشکل بن گیا، مکانات منہدم ہونے کے باعث کئی متاثرین ٹینٹ نہ ملنے پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، متاثرین نے خوراک ، راشن کی فراہمی اور جانوروں کے لئے ونڈا، چارہ فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
دوسری طرف دریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر درمیانے درجے کی سیلابی صورتِ حال برقرار ہے، پانی کے دباؤ سے کچے کے علاقے متاثر ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
دریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر پانی کی آمد مزید بڑھ گئی جہاں پانی کا بہاؤ 4 لاکھ7 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا، پانی کی سطح تیزی سے بلند ہونے کے باعث ٹھٹھہ میں کچے کے دیہات زیرِ آب آرہے ہیں۔
ٹھٹہ میں یار محمد منچھر سمیت کچے کے دیہاتوں میں پانی کی سطح میں کئی فٹ اضافہ ہوگیا جس کے بعد مکینوں نے قریبی بند کی طرف نقل مکانی شروع کردی جبکہ کئی افراد اب بھی علاقے میں موجود حکومتی مدد کے منتظر ہیں۔
نواب شاہ کے قریب بھی سیلابی صورتِ حال برقرار ہے جہاں کچے کے کئی گاؤں زیرِ آب آگئے، کچے کے مکینوں کی منتقلی کا عمل جاری ہے۔
مٹیاری میں بھی کچے کے علاقے پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافے کے باعث زیر آب آگئے ہیں، ہالہ کے دیہاتوں سے مقامی آبادی کشتیوں میں اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرکے محفوظ مقام پر منتقل ہورہے ہیں۔
ادھر گڈو اور سکھر بیراج پر پانی کے بہاؤ میں بتدریج کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب پنجاب میں دریاؤں کی صورتِ حال معمول پر آگئی مگر کئی اضلاع اب بھی سیلابی پانی سے متاثر ہیں، جلال پور پیر والا میں سیلابی پانی اترنے کے بعد 5 افراد کی لاشیں ملیں جبکہ کبیر والا میں دریائے راوی اور چناب کا پانی آبادیوں سے اترنے لگا۔
موٹروے ایم 5 ملتان تا جھانگڑہ انٹر چینج تک بند ہے، بحالی کے لیے کام جاری ہے، نوراجہ بھٹہ کے حفاظتی بند پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے، جلالپور کے مشرقی علاقوں میں سیلابی پانی نہ نکالا جا سکا، پانی جمع ہونے سے راستے بند، گھر اور دکانیں گرنے لگی ہیں۔
متاثرین نے کہا ہے کہ دو ہفتے سے پانی میں ڈوبے ہیں، سینکڑوں مکان گر چکے ہیں، پانی کی نکاسی نہ ہوئی تو باقی گھر بھی گر جائیں گے۔
موٹر وے کے قریب نوراجہ بھٹہ، بہادرپور، بستی لنگ، کانو، ڈپال، طروت بشارت، ڈیلی راجن پور، بیلےوالا، دنیا پور، جھنگرا، مراد پور سوئی والا اور قریبی علاقے سب سے زیادہ متاثرہ دیہات میں شامل ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر موٹروے میں کنٹرول شگاف ڈال دیا جائے تو پانی نکل سکتا ہے، جو فی الحال دریائے چناب تک جانے کا راستہ نہیں پا رہا۔
فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق کئی ہفتوں بعد دریائے ستلج میں بھی پانی کا زورٹوٹ گیا، گنڈا سنگھ والا اور ہیڈ سلیمانکی پر پانی کا بہاؤ معمول پر آ گیا، صرف ہیڈ اسلام پر نچلے درجے کا سیلاب رہ گیا تاہم یہاں بھی پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔
پنجاب میں سیلاب نقصانات کے سروے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
پنجاب حکومت کی درخواست پر وفاقی حکومت نے صوبے میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے سروے کے لیے پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
وفاقی حکومت نے فوج کی تعیناتی کے باضابطہ احکامات پنجاب حکومت کو ارسال کر دیے ہیں، فوج کی خدمات صوبے کے 27 اضلاع میں نقصانات کے سروے کے لیے حاصل کی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فوج کی تعیناتی سیلاب کے نقصانات کے تخمینے کے لیے مشترکہ سروے ٹیم کا حصہ ہوگی، اس سروے میں انسانی جانوں، املاک، فصلوں، مویشیوں اور انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کا تفصیلی تعین کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ حالیہ سیلاب میں بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے جس کے بعد ایک جامع سروے ناگزیر قرار دیا گیا، وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی عمل میں لائی۔
پنجاب میں سیلاب کے دوران پاک فوج اور دیگر اداروں نے بروقت ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے ہزاروں متاثرہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر: عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی وزرا میں مذاکرات ناکام، احتجاج کی کال برقرار مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا مصطفی کمال نے آئندہ پانچ سال میں 30 ارب ڈالر فارما ایکسپورٹ کا ہدف مقرر کر دیا نیشنل سائبرکرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے پی ٹی آئی رہنما فلک جاویدکو گرفتار کرلیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن مقرر سپریم کورٹ کے ہر ریٹائر جج کو 3 پولیس اہلکار 24 گھنٹے سکیورٹی کیلئے دیے جائیں گے:وزات داخلہ کے احکامات جاری وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی پر نطرثانی کرے، بیرسٹر سیفCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: واپسی میں مشکلات راستے بحال نہ وفاقی حکومت پانی کی سطح نقصانات کے علاقوں میں متاثرین کو میں سیلاب جاری ہے ہونے سے کے لیے کچے کے فوج کی
پڑھیں:
عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ
پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے ہر گاؤں، شہر، قریہ، بستی، پہاڑوں، زمینوں پر ایسے دن اور رات آتے رہے کہ خوب گرج چمک کے ساتھ کہیں بار بار اور ان گنت بار بارش ہوتی رہی، غالباً چکوال میں ’’ کلاؤڈ برسٹ‘‘ ہوا جس سے شہر اور ارد گرد میں خوب پانی جمع ہوا اور سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی۔
پھر مختلف شہروں میں کلاؤڈ برسٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہاڑوں پر بارش اور گلیشیئرز بھی پگھل کر ندی نالوں پر ٹوٹنے لگے جس سے نہریں لبریز ہونے لگیں، جس نالے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اس مرتبہ اپنی حد میں رہے گا وہ حدوں کو توڑتا ہوا اپنے ساتھ انسان، مال مویشی، سامان حتیٰ کہ کاریں بھی بہا کر لے گیا۔ پھر لاہور شہر میں بار بار موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔ یہی حال راولپنڈی اور دیگر شہروں کا بھی تھا۔
ادھر بھارت میں بھی خوب بارشیں ہوئیں۔ بھارت نے عنقریب ایک جنگ ہاری تھی جسے وہ آج تک نہیں بھولا۔ اس نے اپنی باری میں پانی کی طاقت کو بطور ہتھیار استعمال کر ڈالا۔ اپنے ڈیمز بھرنے شروع کر دیے اور اس سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر حملہ آور ہو گیا۔ اب دریاؤں کی روانی میں بے چینی پیدا ہوئی، وہ غضب ناک ہوکر آگے بڑھتے رہے، سانپ چھوڑے گئے، مگرمچھ بھی آتے رہے، یہ سیلابی پانی جب بلا اطلاع چھوڑ دیا گیا تو گاؤں، دیہات، قصبوں میں شہری رات چین کی نیند سو رہے تھے کہ اعلانات سن کر ہڑبڑا کر اٹھے کہ باہر محفوظ جگہوں پر چلے جاؤ، کیوں کہ پانی آ رہا ہے۔
جب وہ باہر نکل ہی رہے تھے کہ پانی اندر آ گیا۔ دیواروں کو توڑنے لگا، دروازے اٹھا کر پھینکنے لگا، باڑوں سے گائے بھینسوں بکریوں کے ساتھ غصے سے ایسا سلوک کیا جیسے ان کو اغوا کرکے لے جا رہا ہو۔ بس پھر گاؤں ڈوب گئے، بستیاں بہہ گئیں، قصبے پانی میں گھر گئے، شہروں میں پانی داخل ہو گیا، کہیں 20 فٹ تک اوپر کہیں 30 فٹ تک اوپر الامان الحفیظ۔
لیکن ہماری اپنی غلطیاں، لاپرواہیاں بھی ہیں عالمی موسمیاتی ادارہ تو 2024 میں ہی خبردار کرچکا تھا کہ نہریں، جھیلیں اور دریا اپنی فطری روانی سے ہٹ گئے ہیں۔ جب بادل ٹوٹ رہے تھے، ندی نالے اژدھے کی طرح پھیل رہے تھے، یہی پانی جو زندگی کا پیغام لاتا تھا اب مکان، مال مویشی، انسان اور سامان سب کچھ اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ یہ وہ عدم توازن ہے جسے عالمی موسمیاتی رپورٹ نے پانی کا غیر مستحکم نظام کہا ہے۔
یہ واویلا کچھ عرصے سے مچایا جا رہا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا اہم شکار ملک بن چکا ہے، کیونکہ ہمارا مافیائی نظام عرصہ دراز سے جنگلات کا صفایا کر رہا تھا۔ ہم شہر پھیلاتے رہے اور دریائی گزرگاہوں پر مکانات بناتے رہے۔ دنیا نے اپنی صنعتوں کو کھولا، دھواں اڑاتے رہے، فضاؤں کو زہر آلود بناتے رہے لیکن ہم بچاؤ کا کوئی نظام نہ بنا سکے۔ پڑوسی ملک سیکڑوں اور چین ہزاروں ڈیمز بنا چکا اور ہم ابھی ایک دو تین کی گنتی گن رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں درخت اگائیں، ندی نالوں کی صفائی کریں اور جو بھی فیصلہ سازی کریں ان لوگوں کو شامل کریں جو متاثر ہوئے ہیں جیسے کسان، شہری، یونین کونسل کے نمایندے اور دیگر افراد وغیرہ۔
ہم اپنی زمینوں پر فطرت کے خلاف اور خاص طور پر دریاؤں کے راستوں پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے، بس پھر دریا بھی غضب ناک ہوگئے، قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات کا کٹاؤ کرتے رہے، پہاڑوں سے درخت چھینتے رہے، وہ چیختے رہے کہ ہم سے ہماری چادر نہ کھینچی جائے لیکن اشرافیہ اور مافیا کب ماننے والے تھے۔ شہروں میں آبادی بڑھی لیکن نکاسی آب کا انتظام نہ ہو سکا، اب بہت سے ڈیمز بنانے پڑیں گے، سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے گہرائی والے کنوئیں بنانے ہوں گے، اب ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اپنے معصوم بچوں اور معاشرے کے ہر فرد کو اب ’’ تیرنا ‘‘ سیکھنا ہوگا۔
اس میں مہارت پیدا کرنی ہوگی تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنے مال مویشی اور مال و اسباب بھی کچھ لے کر دور پار جا سکیں۔ دنیا کے کئی ملکوں نے پانی کے ساتھ دوستی کر لی۔ بنگلہ دیش کے ہرگاؤں میں کشتیاں موجود ہوتی ہیں، اسکول کے بچوں کو تیراکی سکھائی جاتی ہے، ہمیں رضاکاروں کی ٹیم تیار کرنا ہوگی، ان کی تربیت کرنا ہوگی، ہر موقع کے لیے کیونکہ کبھی زلزلے آنا شروع ہو جاتے ہیں، کبھی پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے، ہمیں تیراکی، زلزلوں سے بچنے کی تدابیر،کشتی رکھنے اور ایسے مضبوط ترین مکانات کی تعمیر جو کچھ عرصے کے لیے سیلابی پانی کی سفاکیت کو برداشت کرلیں ان کی تعمیرات پر غور کرنا پڑے گا۔ ہر گاؤں دیہات کو بنگلہ دیش کی طرز پر اپنی مدد آپ کے تحت نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے تجربہ اور مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر ہم نے آج تیراکی کو، کشتیوں کو، رضاکاروں کی تربیت کو، مضبوط پناہ گاہوں کی تعمیرکو اور دیگر امور کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو سیلاب میں بھی بقا کی نئی کہانی لکھی جائے گی۔
سیلاب آتے رہیں گے گزرتے رہیں گے۔ سانپوں کے کاٹے کا علاج، ویکسین کا استعمال اور ادویات ہر رضاکار کے پاس ہوں، بیماریوں سے، سیلابی وباؤں سے ڈینگی کی وبا سے بچنے کی تدبیر سب کو پتا ہونا چاہیے۔ حکومت جتنے بھی منصوبے بنا لے جب تک ہر فرد کو سیلاب سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی جاتی، سیلاب کے نقصانات سے بچنا محال ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آیندہ اس سے بھی شدید سیلاب آ سکتا ہے۔ ہماری امداد کے لیے باہر ملک سے کوئی نہیں آئے گا، ہمیں خود کو بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے بچنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین۔)