عمران خان اور بشری بی بی کی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی کی ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت سولہ اکتوبر تک ملتوی کر دی جب کہ چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے واضح کر دیا کہ آئندہ سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر نہیں آئے تو ڈی جی نیب کو طلب کیا جائے گا۔
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی، نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود نے عدالت کو آگا کیا کہ اس کیس میں نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر شدید بیمار ہیں، اس لئے وہ آج عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔
وکیل درخواست گزار بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ نیب ہمیشہ تاخیری حربوں سے کام لیتا ہے، مشکل سے کیس سماعت کے لیے مقرر ہوتا ہے، میں ساری رات والیمز پڑھتا رہا جبکہ یہ انجوائے کرتے رہے، ان کو کم از کم مجھے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔
عدالت نے نیب کو آخری موقع دیتے ہوئے سماعت سولہ اکتوبر تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آئندہ سماعت پر اسپیشل پراسیکیوٹر نہ آئے تو ڈی جی نیب کو طلب کیا جائے گا۔
دوران سماعت وزیراعلی کے پی علی امین گنڈا پور اور بانی پی ٹی آئی کی بہنیں کمرہ عدالت میں موجود تھیں، کیس کی مزید سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کیخلاف توہین عدالت درخواست خارج
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت درخواست خارج کردی۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے کلثوم خالق ایڈووکیٹ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون وکیل پر بھاری جرمانہ عائد کرنے سے گریز کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے صرف آبزرویشنز دیں، کوئی حکم جاری نہیں کیا جس پر عملدرآمد ہوتا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ پٹیشنر نے توہین عدالت کی درخواست میں بہت سے ایسے افراد کو فریق بنایا جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، آئینی عہدے پر فائز شخص یا شخصیات کو فریق نہیں بنایا جا سکتا جب تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اسی عدالت کے کسی دوسرے حاضر سروس جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں، کسی حاضر سروس جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی قابل سماعت نہیں۔
پٹیشنر کی جانب سے کی گئی استدعا غلط فہمی پر مبنی، قابل اعتبار مواد سے غیر مستند اور آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہیں، عدالت نے پٹیشنر کی جانب سے آفس اعتراضات پر مطمئن نا کرنے کے باعث کیس داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔