Jasarat News:
2025-11-10@17:15:25 GMT

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بحیثیت نثر نگار

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سید مودودی ؒ کو ہم سے جدا ہوئے 46 سال بیت گئے ہیں۔ ان کی فکر آج چہار عالم میں پھیل چکی ہے۔ دنیا ان کی فکر کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ درحقیقت بیسویں اور اکیسویں صدی میں جن شخصیات کے افکار نے پوری دنیا، بالخصوص مسلم دنیا کو متاثر کیاہے ان میں علامہ اقبال ؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، حسن البناء شہید، سید قطب شہید کے نام نمایاں ہیں۔ ان عظیم ہستیوں خصوصاً سید مودودی ؒ کے افکار، ان کی حیات، خدمات اور احیائے اسلام، اقامت دین کی جدوجہد کے تمام پہلوؤں کو آج کل سے زیادہ محفوظ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب خال خال ہی وہ افراد بقید حیات ہیں جن کو مولانا مودودی ؒ کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا اور جو ان کے ہم عصر تھے۔46برس گزرنے کے بعد نئی نسل تک ان کی فکر اور احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کو منتقل کرنا جہاں ایک ضرورت ہے وہاں سید مودودی کا ہم پر قرض ہے۔ بلاشبہ اس حوالہ سے مولانا مودودی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے رفقا ء نعیم صدیقی، سید اسعد گیلانی، آباد شاہ پوری، رفیع الدین ہاشمیمرحوم اور سلیم منصور خالد اور دیگر احباب نے بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں جو ہمارے لیے بہت قیمتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان پر سوانحی رنگ غالب ہے تاہم ادبیات مودودی کے نام سے پروفیسر خورشید احمدؒ صاحب نے ایک گراں قدر کاوش کی تھی جس کے تحت مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا، جس میں معروف اہل قلم کی تحریریں پیش کی گئیں اور مولانا مودودی کے طر ز نگارش کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا۔
مولانا مودودی ؒکے افکار اور ان کی جدوجہد اور لٹریچر تو زیر بحث آتے رہے ہیں لیکن مولانا مودودی بحیثیت نثر نگار کا جس علمی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت تھی اس طرف کم توجہ دی گئی۔ڈاکٹر محمد جاوید نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جو کہ خود مولانا مودودی کے ہم عصر اور ان کے رفقا میں سے تھے کی نگرانی میں اس موضوع پر کام کیا او راس کا حق ادا کیا۔

کسی بھی شخصیت کے کام کا صحیح معنوں میں اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتاہے کہ وہ پس منظر اور حالات سامنے ہوں جن میں انہوں نے کام کیا اور جدوجہد کی۔ سید مودودی ؒ نے جس عہد میں علمی و فکری جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنے افکار پیش کرنے کے لیے قلمی میدان چنا وہ کٹھن دور تھا۔ ایک طرف مغربی تہذیب کی بالادستی اور جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا جس نے مسلمانوں کو سحر زدہ کر رکھاتھا اور شکست خوردگی کی کیفیت سے مسلمان دوچار تھے اور دوسری طرف الحاد، دہریت، اباحیت کے فتنے سے دین و ایمان کو خطرات لاحق تھے ایسے میں ایک ایسے فرد کی ضرورت تھی جو جدیدو قدیم پر نظر رکھتاہو اور پورے اعتماد سے مغربی افکار کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ ایسے میں سید مودودی ؒ کی شخصیت ابھرتی ہے اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
مولانا کی نثر کا ایک نمایاں پہلو تفسیر القرآن اور سیرت نگاری ہے۔ تفہیم القرآن جہاں شاہکار ہے، وہاں سیرت نگاری بھی انفرادیت کی حامل ہے۔ آپ نے سیرت نگاری کو واقعاتی انداز کے بجائے تحریکی انداز میں پیش کیاہے جو ایک منفرد انداز تحریر ہے۔ یہ بلاشبہ تفسیر اور سیرت میں مولانا مودودی کا اجتہاد ی کارنامہ ہے۔

مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب ؒ اپنے دور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ پر سخت تنقید کرنے والوں میں سے تھے۔1973 ء میں بنگلہ دیش نامنظور مہم کے سلسلے میں مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم پنجاب کی حیثیت سے وفد کے ساتھ ایم این اے ہاسٹل اسلام آباد میں ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ ہم بنگلہ دیش نامنظور کے حوالے سے یاد داشت ممبران پارلیمنٹ کو دے رہے تھے جب مولانا غلام غوث ہزارو ی کے کمرہ میں ان سے گفتگو ہوئی تو دیکھا کہ ان کے کمرہ کی میز پر مولانا مودودی کی کتب تفہیم القرآن سوئم، پردہ، سود وغیرہ پڑی تھیں اور ان میں یاد داشت کے لیے کاغذ رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہاکہ مولانا آپ تو ہمیں منع کرتے ہیں لیکن یہ کتب آپ کے پاس کیسے؟تو مولانا غلام غوث ہزارو ی نے فرمایا کہ ”بات تمہاری بھی ٹھیک ہے لیکن یہ ظالم لکھتا بہت اچھاہے، بڑے دلائل ہوتے ہیں اس کی تحریر میں ، اسمبلی میں گفتگو کے لیے اچھی تیاری ہو جاتی ہے۔“
آج کے دور میں مولانا مودودی ؒ کی فکر کی روشنی میں امت کے بکھرے شیرازہ کو اکٹھا کرنے کے لیے اتحاد امت، نظام ریاست میں غلبہ دین کے لیے طاقت کی بجائے دعوت و تبلیغ، ذہنی و فکری اصلاح اور افکار کی تطہیر کے ذریعے پرامن سیاسی، جمہوری، آئینی جدوجہد کے ذریعے قیادت و نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ عالمی استعماری قوتیں ناکام ہو رہی ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہاہے، اسلامی تحریکوں پر اگرچہ ابتلاو آزمائش کا دور ہے لیکن یہ امر نوشتہئ دیوار ہے کہ مستقبل کا نظام قرآن وسنت کی تعلیمات اور مسلمانوں کی بیدار قیادت سے وابستہ ہے۔
دانشور، نقاد حضرات سے اپیل ہے کہ نام نہاد ترقی پسندی اور فلسفہ اشتراکیت ڈوب گیا،اب سیکولرازم، روشن خیالی، مادر پدر فکری آزادی کی بجائے دینی اور نظریاتی بنیادوں پر ان تحریروں اور نگارشات پر بدلتے حالات کی حقیقت کو تسلیم کرلیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملی تعمیر کے لیے صحیح رخ پر استعمال کریں۔

لیاقت بلوچ گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مودودی کے کے لیے اور ان پیش کی کی فکر

پڑھیں:

مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی ڈاکٹر نبیہا علی پر کڑی تنقید

کراچی:

مولانا طارق جمیل کے بیٹے یوسف جمیل نے ڈاکٹر نبیہا علی کا نکاح پڑھانے کے بعد سوشل میڈیا پر والد پر ہونے والی تنقید سے متعلق خاموشی توڑ دی۔

اپنے ویڈیو پیغام میں مولانا یوسف جمیل نے کہا کہ مولانا طارق جمیل نے حال ہی میں ایک ڈاکٹر صاحبہ (ڈاکٹر نبیہا علی) کا نکاح پڑھایا، جس کے بعد اُن پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا طارق جمیل اس خاتون کو جانتے تک نہیں تھے۔ مولانا کے ایک دوست نے نکاح پڑھانے کی درخواست کی تھی، جس پر انہوں نے انکار نہیں کیا، کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ہزاروں نکاح پڑھا چکے ہیں اور جو بھی نکاح پڑھوانے کی درخواست لے کر آتا ہے، وہ اسے رد نہیں کرتے۔

یوسف جمیل نے کہا کہ مولانا کی ذات اور زندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کی دینی خدمات طویل عرصے پر محیط ہیں۔ ایک ایسا شخص جو دین کی خدمت کے باعث عوامی ہو، اُسے اخلاقی طور پر بہت سی باتوں کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو تنقید ضرور ہونی چاہیے مگر اس معاملے میں چند گزارشات ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی سمجھتا ہے کہ مولانا پر تنقید ہونی چاہیے، تو ضرور کرے۔

یوسف جمیل نے بتایا کہ والد صاحب نے صحت کے مسائل اور عمر رسیدگی کے باعث اب بہت کم نکاح پڑھانے شروع کر دیے ہیں، تاہم مکمل طور پر یہ سلسلہ ختم نہیں کیا۔ ایک انسان کا برسوں پرانا معمول بدلنا آسان نہیں، اور لوگ بھی خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا نکاح مولانا پڑھائیں۔ اس لیے وہ نہیں دیکھتے کہ کون نکاح پڑھوانے آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی فلٹر لگا سکے کہ کس کا نکاح پڑھانا ہے اور کس کا نہیں، خاص طور پر جب کوئی عوامی شخصیت ہو۔

یوسف جمیل نے تسلیم کیا کہ مولانا طارق جمیل کو خاتون کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، اور شرعاً اس کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن یہ پہلو بھی دیکھنا چاہیے کہ مولانا 72 برس کے بزرگ ہیں، نہ وہ 30 سال کے ہیں اور نہ خواہش کی عمر میں۔ جن خواتین کا نکاح وہ پڑھاتے ہیں وہ ان کی بیٹیوں کی عمر کی ہوتی ہیں، یہ وہ بچیاں ہوتی ہیں جن کیلئے مولانا ایک بزرگ کی مانند ہیں۔

یوسف جمیل نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نبیہا نے حد سے تجاوز کیا، انہوں نے یہ خیال نہیں رکھا کہ ان کا نکاح کون پڑھا رہا ہے، اور ہماری رہائش گاہ کے تقدس کا بھی خیال نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا طارق جمیل ایک بڑے بزرگ ہیں، اور ان کے گھر آنے والوں پر لازم ہے کہ ادب و احترام کو پیش نظر رکھیں۔ نکاح کے موقع پر ویڈیوز بنائیں گئیں جن میں گانے بھی شامل تھے۔ خوشی منانے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے تھا کہ یہ سب کس شخصیت کے گھر میں ہورہا ہے۔

انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اس واقعے کے بعد مولانا پر منفی ردعمل سامنے آیا ہے، لوگ ویڈیوز اور پیغامات بھیج رہے ہیں، جس کا دباؤ مولانا کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ تنقید ضرور کریں، مگر یہ بھی دیکھیں کہ اس میں اصل ذمہ دار کون ہے، کیونکہ مولانا کو اندازہ نہیں تھا کہ خاتون ایسا رویہ اختیار کریں گی یا اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اس طرح پیش کریں گی۔

یوسف جمیل نے آخر میں کہا کہ ایک واقعے کی بنیاد پر کسی کی پوری زندگی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر نبیہا نے نکاح کی تقریب کو سنجیدہ موقع کے بجائے سوشل میڈیا ایکٹیویٹی بنایا۔ مولانا کی شخصیت اور ویڈیو کا غلط استعمال ہوا حالانکہ وہ ایک نہایت نرم دل اور سادہ مزاج انسان ہیں۔ اگر انہیں ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہوگا، تو وہ ضرور منع کردیتے کہ میرے گھر میں ایسا نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی ڈاکٹر نبیہا علی پر کڑی تنقید
  • پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ کرنے والے کیخلاف کارروائی ہو گی، مولانا غفور حیدری
  • مولانا فضل الرحمٰن بنگلا دیش کے دورے پر روانہ
  • ’پیارے مولانا ‘اور خواجہ سعد رفیق
  • جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کراچی سے دبئی روانہ
  • سالانہ روح پرور تبلیغی اجتماعی
  • مولانا فضل الرحمان کی صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اہم ملاقات
  • صدر آصف زرداری سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات،27ویں آئینی ترمیم پر گفتگو
  • پی ٹی آئی کی جے یو آئی کو امن جرگے میں شرکت کی دعوت
  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے بیان پر چیف خطیب خیبرپختونخوا کا ردِعمل بھی سامنے آگیا