ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا ی’یورگن واٹنے فریڈنس‘ کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
مئی 2024 میں ناروے کے سیاست دان ’ یورگن واٹنے فریڈنس‘ نے بلوچ یوتھ کمیٹی (BYC) کی رہنما ماہرنگ بلوچ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا، جس سے بین الاقوامی سطح پر شدید تنازعہ اور سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
تحقیقات اور رپورٹس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ’ یورگن واٹنے فریڈنس‘ کے تعلقات کیا بلوچ (Kiyya Baloch)، بلوچ یوتھ کمیٹی اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ساتھ ہیں۔
Mahrang Baloch & her BYC never condemned the Internationally Designated Terrorist Organization BLA’s terrorism.
— Balochistan Insight (@BalochInsight) September 25, 2025
مہرنگ بلوچ کی سرگرمیاں ان حلقوں کی بازگشت کرتی ہیں، جس سے یہ تجویز پیدا ہوتی ہے کہ نوبل نامزدگی وسیع تر اثر انگیز مہمات کی خدمت کر سکتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ماہرنگ بلوچ کی یہ نامزدگی پرتشدد عسکریت پسندی کے لیے بالواسطہ سیاسی تحفظ فراہم کرتی ہے، کیونکہ BLA کی سرگرمیوں کو انسانی حقوق کے عنوان کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا یہ انسانی حقوق کی وکالت ہے یا علیحدگی پسند ایجنڈوں کو بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کا ایک اقدام؟
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی مبینہ نامزدگی، والد کے دہشتگردوں سے تعلق نے نئی بحث چھیڑ دی
ماہرنگ بلوچ کی نامزدگی کے اس پس منظر نے نوبل امن انعام کی ساکھ اور اس کے بین الاقوامی اثرات پر بھی تنقیدی روشنی ڈالی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور عسکریت پسندی کے درمیان فرق کو عالمی سطح پر سمجھنا ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچ لبریشن آرمی بلوچ یوتھ کمیٹی کیا بلوچ مارہرنگ بلوچ ناروے نوبیل انعام یورگن واٹنے فریڈنسذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچ لبریشن ا رمی کیا بلوچ مارہرنگ بلوچ ناروے نوبیل انعام ماہرنگ بلوچ کی کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت میں ’چور دروازہ‘ بند کرنے کے لیے یو این متحرک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) مصنوعی ذہانت کے آلات کی تیز رفتار ترقی کے باوجود اس طاقتور ٹیکنالوجی کے موثر اور بین الاقوامی سطح پر متفقہ اصول و ضوابط تاحال وضع نہیں ہو سکے۔ 25 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں رکن ممالک اسی مسئلے کو حل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کا موثر انتظام یقینی بنانے کے لیے بات چیت کریں گے۔
سرمایہ کاری، امید اور تشویش تین ایسے عوامل ہیں جن کے سبب مصنوعی ذہانت اور اس کے اثرات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
چونکہ اس ٹیکنالوجی سے لاحق مسائل اور مواقع عالمگیر ہیں اس لیے متعلقہ اقدامات کو بھی منتشر اور محدود ہونے کے بجائے جامع ہونا چاہیے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، 118 ممالک مصنوعی ذہانت کے انتظام سے متعلق حالیہ برسوں میں شروع کردہ کسی بھی اقدام کا حصہ نہیں تھے جبکہ ایسے تمام اقدامات میں صرف سات ممالک شامل تھے جن کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے۔(جاری ہے)
یہ اجلاس پہلا موقع ہوگا جب اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو مصنوعی ذہانت کے بین الاقوامی انتظام کی تشکیل میں اپنی رائے دینے کا موقع ملے گا۔ اس میں دنیا بھر سے سفارت کاروں کے علاوہ سائنسدان، ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہرین، نجی شعبے کے نمائندے اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شریک ہوں گے۔
اجلاس میں دو نئے اور اہم عالمی اداروں کے کام پر بات چیت کی جائے گی جنہیں بین الاقوامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کے جامع اور مشمولہ انتظام، اس طاقتور ٹیکنالوجی سے جڑے مسائل کے حل اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے فوائد تمام انسانوں تک پہنچ سکیں۔
ان اداروں میں 'مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ' اور 'مصنوعی ذہانت پر غیرجانبدار بین الاقوامی سائنسی پینل' شامل ہیں۔یہ دونوں ادارے ان سفارشات کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں جو ماہرین اور قانون سازوں پر مشتمل 'اعلیٰ سطحی مشاورتی ادارہ برائے مصنوعی ذہانت' نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی رپورٹ بعنوان 'انسانیت کی خاطر مصنوعی ذہانت کا انتظام' میں پیش کی تھیں۔
ان اداروں کا باضابطہ قیام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے اگست 2025 میں عمل میں آیا جسے تمام رکن ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مصنوعی ذہانت کے فوائد سمیٹنے اور اس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
آزادانہ اور سائنسی بنیاد پر پالیسی سازی25 ستمبر کو ہونے والے اجلاس کا مقصد اس معاملے میں بہترین طریقہ ہائے کار اور تجربات کا تبادلہ کرنا اور مصنوعی ذہانت کے انتظام پر بین الاقوامی تعامل کو فروغ دینا ہے۔ یہ بات چیت حکومتوں، صنعت، سول سوسائٹی اور سائنسدانوں کے لیے اصولوں کی بنیاد پر تجربات اور خیالات کے تبادلے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینے کا پلیٹ فارم ہو گی۔
اقوام متحدہ کے تعاون سے بین الاقوامی سائنسی پینل مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات، مواقع اور اثرات کے بارے مں غیر جانبدارانہ اور شواہد پر مبنی رہنمائی فراہم کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ متعلقہ پالیسی سازی آزاد اور سائنسی بنیاد پر ہو۔ یہ پینل ہر سال ایک رپورٹ تیار کرے گا جو اس موضوع پر سالانہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
ڈیجیٹل اور نئی ٹیکنالوجی پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے امندیپ سنگھ گل نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں عالمی طریقہ کار صرف نئے ادارے ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے انتظام سے متعلق ایک نئے ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں لیکن اس کے انتظام پر سبھی کا اختیار نہیں ہے۔ عالمگیر مکالمے کے ذریعے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو مصنوعی ذہانت کے انتظام پر بین الاقوامی تعاون کی تشکیل میں برابر کی شراکت ملے گی۔
سائنسی پینل دنیا بھر سے ممتاز سائنسدانوں کو اکٹھا کرے گا تاکہ مصنوعی ذہانت سے متعلق خطرات، مواقع اور اثرات کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کیا جا سکے۔
یہ پینل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق پالیسی غیر جانبدارانہ اور سائنسی شواہد پر مبنی ہو۔اس اجلاس میں جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی صدر اینالینا بیئربوک، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش، سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز اور کوسٹاریکا کے وزیر خارجہ آرنولڈو آندرے بھی خطاب کریں گے۔
ان تقاریر کے بعد رکن ممالک اور مبصرین، اقوام متحدہ کے نظام سے وابستہ ادارے اور دیگر متعلقہ فریقین اپنی بات کریں گے۔ اس موقع پر سوسائٹی اور دیگر اداروں کے نمائندوں کے بیانات بھی لیے جائیں گے تاکہ مختلف نقطہ ہائے نظر کو یکساں طور پر سنا جا سکے۔