30 ہزار کروڑ وراثت کی جنگ: سنجے کپور کی بیوہ نے عدالت میں شرط رکھ دی
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
بھارتی صنعتکار سنجے کپور کی بیوہ پریا سچدیو کپور نے وراثت کے مقدمے میں ایک نئی شرط رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے اثاثوں کی تفصیلات صرف اس صورت میں پیش کریں گی اگر انہیں خفیہ لفافے میں رکھا جائے اور تمام فریقین اس تک رسائی سے پہلے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کریں۔
دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں پریا کپور نے کہا ہے کہ یہ شرط سائبر سیکیورٹی اور دیگر حفاظتی خدشات کے پیش نظر لازمی ہے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ سنجے کپور کی سابقہ اہلیہ اداکارہ کرشمہ کپور کے دونوں بچوں سمیرا اور کیان، نیز ان کی دادی رانی کپور کو بھی اس معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔
یہ درخواست اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ سماعت میں عدالت نے پریا کپور کو سنجے کپور کے تمام ذاتی اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ سنجے کپور کے انتقال کے بعد ان کی تقریباً 30 ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیداد پر قانونی جنگ چھڑ گئی ہے۔
دوسری طرف کرشمہ کپور کے بچوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سنجے کپور کی پیش کردہ وصیت جعلی ہے، جس میں پوری جائیداد صرف پریا کپور کے نام کی گئی ہے اور بچوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ تاہم پریا کپور کا کہنا ہے کہ بچوں کو پہلے ہی فیملی ٹرسٹ کے ذریعے 1,900 کروڑ روپے کے اثاثے مل چکے ہیں، اس لیے ان کے دعوے بے بنیاد ہیں۔
پریا سچدیو نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے شوہر کی وصیت کو درست تسلیم کیا جائے اور ان پر لگائے گئے تمام الزامات خارج کیے جائیں۔ یہ مقدمہ دہلی ہائی کورٹ میں جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سنجے کپور کی پریا کپور نے عدالت کپور کے
پڑھیں:
’ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں‘، آئینی عدالت سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے دلچسپ ریمارکس
وفاقی آئینی عدالت سے متعلق سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے دلچسپ ریمارکس دیے ہیں۔
انہوں نے یہ ریمارکس محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب سے منسلک ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق کیس میں دیے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ میرے موکل کو نظرانداز کرکے جونیئر افسران کو ترقی دی گئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں دستاویزات سے دیکھا دیں کہ جونیئرز کو ترقی دی گئی اور آپ کے موکل کو نظرانداز کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کوئی بہت مشکل سوال ہے تو ہم وفاقی آئینی عدالت بجھوا دیتے ہیں، ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں۔
جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے، عدالت عظمیٰ نے درخواست مسترد کردی۔