اسلام ٹائمز: نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے ملکی و علاقائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حالیہ پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ خوش آئند قدم ہے۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے مسائل کے حل میں بھی مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری امت مسلمہ متحد ہوکر کفر کے مقابلے میں کھڑی ہو۔ علامہ حسن عبادی نے کہا کہ کفار ایک ملت بن کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آپ غاصب صہیونی ریاست کو دیکھیں کہ کس طرح امریکہ سمیت تمام کافر ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جبکہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صرف ایران آواز بلند کر رہا ہے۔ تحریر و سہل نگاری: آغا زمانی

خطبۂ اول
شکر گزاری اور فضیلتِ جمعہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ شکر بجا لانا ضروری ہے کہ اس نے ہمیں نمازِ جمعہ کی توفیق عطا کی۔ نمازِ جمعہ کو قرآن و حدیث میں غیر معمولی فضیلت حاصل ہے۔ اسے "حج الفقراء" یعنی غریبوں کا حج قرار دیا گیا ہے۔ اس عبادت کے ذریعے گذشتہ ہفتے کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ جمعہ کے دن آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرے میں مشکلات، بیماریاں اور حاجتیں ہمیشہ رہتی ہیں۔ ایسے میں ایک دوسرے کے لیے دعا کرنا شرعی ذمہ داری ہے۔ آج ہم سب دعا کرتے ہیں کہ: "خدا تمام حاجت مندوں کی حاجتیں پوری فرمائے، مریضوں کو شفاء عاجل و کامل عطا کرے، مقدس مقامات کو اپنی حفاظت میں رکھے، پاکستان کو ترقی عطا کرے، امتِ مسلمہ کو اتحاد اور اتفاق کی توفیق دے اور ہماری اس قلیل عبادت کو قبول فرمائے۔" آمین

سورۃ النحل کی آیت 90
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے خطبے کا آغاز سورۂ نحل کی آیت نمبر 90 کی تلاوت سے کیا: "إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ"، "بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف کرنے کا، بھلائی کرنے کا اور قرابت داروں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے، برائی سے اور ظلم و سرکشی سے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔" اس آیت میں چھ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں:
تین مثبت اصول: عدل، احسان، صلۂ رحم۔
تین منفی اصول: فحشاء (بے حیائی)، منکر (برائی)، بَغی (ظلم و زیادتی)۔ یہ آیت دراصل ایک مکمل اخلاقی و سماجی منشور ہے، جو انسان اور معاشرے کی فلاح کے لیے رہنماء ہے۔

عدل و حقوق کی ادائیگی
پہلا نکتہ جس پر خطیب نے زور دیا، وہ عدالت تھا۔ عدل کا مطلب ہے، ہر ذی حق کو اس کا حق دینا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے "رسالۃ الحقوق" میں تقریباً 50 حقوق بیان کیے ہیں۔۔ والدین، اولاد، پڑوسی، استاد، شاگرد، حتیٰ کہ بدن کے اعضاء تک کے حقوق۔ اگر انسان یہ حقوق ادا نہ کرے تو یہ ظلم کے مترادف ہے۔

دعائے کمیل کی روشنی میں
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے دعائے کمیل میں عرض کیا: "ظَلَمتُ نَفسي"، "پروردگار۔۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔" یہ اقرار دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان خدا کے احکام اور بندوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اوپر ظلم کرتا ہے، کیونکہ اس کا انجام آخرت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

یومِ قیامت پر گواہی
اگر دنیا میں حقوق ادا نہ کیے جائیں تو قیامت کے دن انسان کے اپنے اعضاء و جوارح اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ قرآن میں ہے: "یوم تشهد علیهم ألسنتهم وأیدیهم وأرجلهم بما کانوا یعملون" (النور: 24) "جس دن ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں گے۔" یہ تصور انسان کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ زندگی میں ہر وقت اپنے اعمال اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے۔

والدین کے حقوق
اسلامی تعلیمات میں والدین کے حقوق کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن نے بارہا فرمایا ہے کہ: "وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا" (بنی اسرائیل: 23) "تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔" آج کا المیہ یہ ہے کہ بہت سی اولاد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے، بڑے بڑے افسر ہیں، مگر والدین کے حقوق ادا کرنے کو تیار نہیں۔ وہ والدین جنہوں نے مشکل حالات میں قربانی دے کر اپنی اولاد کو پڑھایا، سنوارا اور مقام تک پہنچایا، آج وہی اولاد والدین کے ساتھ رہنے اور ان کا سہارا بننے سے کتراتی ہے۔ یہ رویہ دراصل ناشکری اور حقوق کی پامالی ہے، جو دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔

فقر اور حقوق کی پامالی۔۔ ایک سبق آموز واقعہ
آیت اللہ العظمیٰ اصفہانی (رح) کے زمانے کا ایک واقعہ نہایت عبرت خیز ہے۔ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا: "میں بہت تنگدست ہوں، فقر نے زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔" آیت اللہ اصفہانی نے دریافت کیا: "کیا تم نماز اور روزہ کے پابند نہیں ہو؟" اس شخص نے جواب دیا: "جی ہاں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں۔" آیت اللہ نے فرمایا: "پھر غور کرو، تمہارے کندھوں پر ایسا کون سا حق باقی ہے، جس کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے تم فقر میں مبتلا ہو۔؟" اس شخص نے سوچ کر جواب دیا: "میری والدہ اور بیوی کے درمیان ایک بار جھگڑا ہوا۔ میں نے بیوی کی طرف داری کی اور والدہ کو نظرانداز کیا۔ والدہ مجھ سے ناراض ہوگئیں۔"

آیت اللہ اصفہانی نے فرمایا: "اگرچہ قصور والدہ کا ہی کیوں نہ ہو، تمہیں بیوی کے سامنے والدہ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ جاؤ، والدہ سے معافی مانگو، تمہاری مشکل حل ہو جائے گی۔" وہ شخص اپنی والدہ کے پاس گیا، معافی تلافی کی۔ والدہ نے کہا: "بیٹا! میں تو تمہیں معاف کرچکی تھی، لیکن اس دن تم نے اپنی بیوی کے سامنے مجھے شرمندہ کیا تھا، وہ زخم میرے دل پر آج بھی باقی ہے۔" والدین کے دل کو ٹھیس پہنچانا فقر و محرومی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ دنیاوی مشکلات اور رزق کی تنگی بعض اوقات والدین کے دل سے نکلنے والی ایک آہ کی وجہ سے انسان کو گھیر لیتی ہیں۔ اسی لیے اسلام نے تاکید کی ہے کہ والدین کی رضا ہی اللہ کی رضا ہے، اور ان کی ناراضگی میں دنیا و آخرت کی تباہی چھپی ہے۔

بہو کے ساتھ حسنِ سلوک
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ بعض ساسیں اپنی بہو کو گھر میں برداشت نہیں کرتیں۔ یہ رویہ گھریلو سکون کو برباد کرتا ہے۔ انہوں نے نصیحت کی کہ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ اپنی بہوؤں کو بھی بیٹی سمجھنا چاہیئے۔ اگر بہو کو بیٹی کا درجہ دیا جائے تو گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا اور ماحول میں سکون اور محبت پیدا ہوگا۔

لڑکیوں کا حقِ میراث
خطیب نے معاشرے کی ایک اور خرابی کی طرف توجہ دلائی کہ اکثر والد اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے محروم رکھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: "یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے خلاف ہے۔ بیٹی کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا بیٹے کا۔ اگر بیٹی مجبور ہو جائے اور اس کے پاس رہنے کے لیے گھر نہ ہو تو ایسے والدین اللہ اور رسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں۔"

ایک عبرت ناک واقعہ
ایک لڑکی کے باپ نے اسے جائیداد میں سے کچھ نہ دیا۔ وہ اور اس کا شوہر غربت و پریشانی میں مبتلا رہے۔ باپ کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے یہ ماجرہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ رسول اللہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: "اگر مجھے یہ واقعہ پہلے معلوم ہوتا تو میں اس باپ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت نہ دیتا۔" یہ کلمات اس بات کی شدت کو واضح کرتے ہیں کہ والدین کے لیے اولاد میں انصاف اور خصوصاً بیٹیوں کو ان کا حق دینا کتنا ضروری ہے۔

اول وقت نماز کی فضیلت
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے مزید بیان کیا کہ نماز انسان کی زندگی میں وہ نورانی قوت ہے، جو گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوذر غفاری رضوان اللہ علیہ ایک مقام سے گزر رہے تھے۔ وہاں ایک درخت تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخت کو ہلایا تو اس کے تمام پتے جھڑ گئے۔ آپ (ص) نے فرمایا: "جب انسان اول وقت نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں، جیسے اس درخت کے پتے جھڑ گئے۔" نمازِ اول وقت نہ صرف گناہوں کو مٹاتی ہے بلکہ دل کو سکون اور روح کو تازگی عطا کرتی ہے۔ یہ انسان کو برائیوں سے روکتی ہے اور نیکیوں کی طرف مائل کرتی ہے۔ جس طرح ایک درخت پتے گرنے کے بعد ہلکا ہو جاتا ہے، اسی طرح انسان کے گناہوں کے بوجھ کم ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ کی رحمت کے قریب آجاتا ہے۔

ایک متقی شخص کا عبرت ناک واقعہ
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے خطبے میں ایک پرہیزگار شخص کا واقعہ بیان کیا، جس نے اپنی زندگی کے تین بڑے گناہوں کا اعتراف کیا:
1۔ قطعِ رحم: اس نے کہا، "میں نے اپنے علاقے کو چھوڑ دیا اور اپنے رشتہ داروں سے مکمل طور پر تعلق توڑ دیا، یوں مجھ سے قطعِ رحم کا گناہ سرزد ہوا۔"
2۔ امانت میں خیانت: "کسی نے مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے امانت رکھی تھی، لیکن میں نے اس میں خیانت کی، یہ دوسرا گناہ تھا۔"
3۔ پڑوسی کے حقوق نظرانداز کرنا: "میرے پڑوس میں ایک عالمِ دین رہتے تھے، لیکن میں نے کبھی ان کے حال و احوال کی پرواہ نہیں کی، نہ ان کے ساتھ ہمدردی کی اور نہ ان کے حقوق ادا کیے۔" اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر نجات ممکن نہیں۔

علماء اور معاشرے کی ناقدری
خطیب نے افسوس ظاہر کیا کہ آج ہمارے معاشرے میں علماء کی خدمات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی علماء۔۔ دین کی حفاظت، تبلیغ، دینی تعلیمات اور معاشرتی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اسراف، فضول خرچی اور دنیاوی نمائش میں مصروف رہتے ہیں، لیکن علماء کا حق ادا کرنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔

صراط۔۔ دنیا اور آخرت میں
مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: "دو قسم کی صراط ہیں۔۔ ایک صراط دنیا میں اور ایک صراط آخرت میں۔"
دنیا کی صراط: وہ امامِ وقت اور رہبرِ دین کی اطاعت ہے۔ جو شخص اس صراط کو ترک کرتا ہے، وہ دراصل گمراہی کی راہ اختیار کرتا ہے۔
آخرت کی صراط: پل صراط ہے، جس پر سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ دنیا کی صراط پر قائم رہنے والے ہی آخرت کی صراط پر کامیابی سے گزر پائیں گے۔

حقوق کی ادائیگی۔۔ زندگی اور مال کی برکت
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے کہا کہ جب انسان حقوق کو ادا کرتا ہے تو اللہ اس کی زندگی اور مال میں برکت عطا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اسلام نے موذن کے بھی حقوق بیان کیے ہیں، جو صبح سویرے اذان دے کر ہمیں نماز کے لیے بیدار کرتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی سوچا کہ اس کی ضروریات اور حالات کیا ہیں۔؟ یہ غفلت دراصل ہماری دینی کمزوری ہے۔

بچوں اور دیوانوں کی ذمہ داریاں
اسلام میں حقوق کا تصور اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی بچہ ناسمجھی میں کسی کا نقصان کر دے تو اس کی تلافی کرنا بچے کے والد پر واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دیوانہ کسی کا مال ضائع کر دے یا شیشہ توڑ دے تو اس کا تاوان اس کے وارثین کے ذمہ ہے۔ یہ تعلیمات اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ اسلام حقوق کی حفاظت میں کتنا باریک بین اور حساس ہے۔ کسی کے نقصان کو نظر انداز کرنا یا نظر نہ آنا بھی دین میں قابلِ قبول نہیں۔

خطبۂ دوم
محمد و آل محمد پر درود و سلام
خطبے کا آغاز چہاردہ معصومین علیہم السلام پر درود و سلام سے ہوا۔
سورۂ فاطر کی آیت 28
علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے دوسرے خطبے کا آغاز سورۂ فاطر کی آیت نمبر 28 کی تلاوت سے کیا: "إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ"، "اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں، جو علم رکھتے ہیں۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ حقیقی خشیتِ الہیٰ صرف علماء اور اہلِ معرفت کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ علم انسان کو غرور نہیں بلکہ عاجزی، تقویٰ اور خوفِ خدا کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی لیے عالم کا مقام محض جاننے والا نہیں بلکہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔

شہید سید حسن نصراللہ(رح) کی برسی
27 ستمبر 2025ء کا دن سیدِ مقاومت شہید سید حسن نصر اللہ کی برسی کا دن ہے، جو غاصب صہیونی ریاست کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں شہید ہوئے۔ اس مناسبت سے خطیب نے شہادت اور بقا کے فلسفے کو قرآن کی اس آیت سے واضح کیا: "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ" (آلِ عمران: 169) "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس رزق پا رہے ہیں۔" شہید سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان نہیں رہا، لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے افکار، کردار اور تعلیمات ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یہی حقیقی زندگی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔

مولا علی علیہ السلام کا خطبہ اور تین گروہ
علامہ شیخ عبادی نے نہج البلاغہ کے ایک خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "لوگ تین گروہوں سے باہر نہیں ہیں:"
1۔ علمائے ربانی: جو تربیت یافتہ ہیں اور دوسروں کی تربیت کرتے ہیں۔
2۔ طالبانِ نجات: جو نجات کے راستے میں علم حاصل کر رہے ہیں۔
3۔ غافل عوام: جو کسی مردار پر جمع ہونے والے مچھروں کی مانند ہیں، ہر ہوا کے رخ پر چلتے ہیں اور ہر نئی لہر کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ یہ تیسرا گروہ سب سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ ان کی زندگی شعور سے خالی اور خواہشات کی پیروی پر مبنی ہوتی ہے۔

کھیل اور جھگڑوں کی برائی
خطیب نے معاشرے کے ایک اور ناسور پر روشنی ڈالی: "آج کل کھیلوں کے ٹورنامنٹس میں ہزاروں افراد جمع ہوتے ہیں۔ کھیل کے خلاف ہم نہیں ہیں۔ کھیلنا چاہیئے، ورزش کرنی چاہیئے، کیونکہ یہ صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن وہ کھیل جو جھگڑے، فساد، سر پھٹنے اور ٹانگیں ٹوٹنے پر منتج ہو، وہ کھیل نہیں بلکہ حرام ہے۔" اسلام نے ورزش کو زندگی کا حصہ قرار دیا ہے، لیکن مہذب انداز میں، نہ کہ ظلم و زیادتی کے ساتھ۔

علماء کی موجودگی۔۔ بقا کی ضمانت
جب تک زمانہ باقی ہے، علماء باقی رہیں گے۔ وہ دین کے محافظ اور امت کے رہنماء ہیں۔ معاشرے کی بقا علمائے ربانی کے وجود سے ہے۔

ملکی و علاقائی حالات پر گفتگو
نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے ملکی و علاقائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حالیہ پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ خوش آئند قدم ہے۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے مسائل کے حل میں بھی مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری امت مسلمہ متحد ہوکر کفر کے مقابلے میں کھڑی ہو۔ علامہ حسن عبادی نے کہا کہ کفار ایک ملت بن کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آپ غاصب صہیونی ریاست کو دیکھیں کہ کس طرح امریکہ سمیت تمام کافر ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جبکہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صرف ایران آواز بلند کر رہا ہے۔ باقی اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، جو افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے دیگر مسائل میں معاون و مؤثر ثابت ہوگا۔ یہ تو شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی بھی آرزو تھی جنہوں نے فرمایا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر

یہ دراصل امتِ واحدہ کا خواب تھا، جو خداوندِ متعال کا بھی فرمان ہے: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (سورۃ آلِ عمران، آیت 103)  "اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ ڈالو۔" انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس واضح حکمِ خدا پر عمل نہیں کرتے اور افتراق کا شکار ہیں، حالانکہ نجات کا راستہ صرف اتحاد میں ہے۔ مزید برآں علامہ حسن عبادی نے بتایا کہ حال ہی میں ہوم سیکرٹری سید اصغر شاہ نے داعیِ اتحاد بین المسلمین علامہ شیخ محمد حسن جعفری سے ملاقات کی اور یہ خوشخبری دی کہ اہلِ سکردو کے لیے 100 میگاواٹ پر مشتمل سولر پروجیکٹ کا آغاز جلد کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو ان شاء اللہ خطۂ سکردو میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ انتظامیہ اس پر فوری طور پر کام کا آغاز کرے گی۔

لیبر قوانین اور شفاف انتخابات پر زور
عزیزانِ گرامی۔۔ ایک نہایت اہم مسئلہ لیبر قوانین کا ہے۔ حکومت نے مزدوروں کے لیے ماہانہ کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی ہے، جو ایک بہترین قانون ہے اور ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ تاہم ہمارا مطالبہ ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ تنخواہ کم از کم 45 سے 50 ہزار روپے ہونی چاہیئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے علاقے کے پرائیویٹ ادارے، بالخصوص اسکولز، جو عوام کے بچوں کی معمولی فیسوں پر چلتے ہیں، اس قانون پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں۔؟ یہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اگر ان اداروں نے اس قانون کے نفاذ کے لیے فیسوں میں اضافہ کیا تو اس کا بوجھ والدین اور غریب عوام پر پڑے گا، جو کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ ہم کسی بھی صورت فیسوں کے اضافے کے حق میں نہیں ہیں۔

یہ بات بھی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے کہ ایک استاد چھ سے آٹھ گھنٹے محنت کرے اور صرف 10 ہزار روپے تنخواہ پائے، یا کوئی مزدور آٹھ گھنٹے کام کرکے صرف پانچ سے چھ ہزار روپے وصول کرے۔ یہ صریح ظلم ہے۔ عدالتِ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ محنت کے مطابق حق ادا کیا جائے۔ ہم لیبر قانون کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سکردو جیسے معاشرے میں، جہاں وسائل محدود ہیں اور سردی کے کئی مہینے کام رک جاتا ہے، اس قانون کو کس حد تک نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ قانون قابلِ عمل ہے تو فوری نافذ کیا جائے، لیکن اگر ممکن نہیں تو اس پر نظرِثانی ناگزیر ہے۔

مزید برآں، ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ 15 نومبر 2025ء کو جی بی حکومت کی مدت مکمل ہو رہی ہے، جس کے بعد نگران حکومت قائم کرنی ہوگی اور انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ ہم حکومتِ جی بی سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ نگران سیٹ اپ میں تمام اضلاع سے غیر متنازع اور شفاف کردار رکھنے والے افراد کو نمائندگی دی جائے، تاکہ آنے والے انتخابات شفاف اور غیر جانبدار ثابت ہوں۔ اس طرح عوامی نمائندے صحیح معنوں میں عوام کے ووٹوں کی پاسداری کرسکیں گے اور دھاندلی جیسے منفی اثرات سے انتخابات محفوظ رہیں گے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے علماء کی سیرت اور ان کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے علی علیہ السلام ہوئے کہا کہ کی ادائیگی نے فرمایا معاشرے کی والدین کے ہزار روپے نے کہا کہ آیت اللہ ضروری ہے انسان کو نہیں ہیں انہوں نے جاتے ہیں کرتے ہیں رہے ہیں کے حقوق کی صراط خطبے کا کا آغاز ہیں اور کے خلاف جاتا ہے اللہ کی کے ساتھ کرتا ہے حقوق کی کے پاس اور ان کی طرف کی آیت ہیں کہ کی اور دین کے کے لیے

پڑھیں:

اللہ تو ضرور پوچھے گا !

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کے کٹھ پتلی حکمران اور کچھ کریں نہ کریں چوری چھپے معاہدے کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ ویسے ماہر تو وہ ہر اس چیز میں ہیں جس سے ان کی جیبیں اور بینک بیلنس ڈالروں سے بھرتے رہیں۔ ویسے بھی تمام معاہدے عوام ہی کے مفاد میں تو کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام ان کے ثمرات دیکھنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے۔

ہاں کبھی کبھار کچھ دینی اور سیاسی جماعتوں کی رگِ غیرت پھڑکتی ہے تو وہ احتجاج بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن آخر کار کچھ شور شرابہ کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے گا۔ یہ خاموشی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ کوئی زلزلہ یا طوفان جیسی بڑی آفت لوگوں کو دوبارہ سے نہیں جھنجوڑ ڈالتی۔ اس دوران جب حکومتی رویہ غیر ذمہ دارانہ رہتا ہے اور عوام کو کسی قسم کی امداد نہیں ملتی تو یہی عوام غصے میں بھرے جتنا برا بھلا حکومت وقت کو کہہ سکتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جب ملک کی مختلف فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے بھرپور امداد کے بعد جب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور سیلاب کا پانی بھی خود ہی خشک ہو جاتا ہے تو تب تک لوگوں کا غصہ بھی رفو چکر ہو چکا ہوتا ہے اور دوسری طرف عوام کے خیر خواہ سیاستدان بیرونی امداد سمیٹے اور ہضم کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسری آفت عوام کو اپنے شکنجے میں نہیں لے لیتی۔ اب ایک اور معاہدہ جو منظر عام پر آیا ہے وہ سعودی حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ہے اور حکومتی درباری اس کی خوشیاں منا رہے ہیں۔عوام حج عمرہ کر کے ثواب پر ثواب کما رہے ہیں اور ہمارے حکمران حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ ملنے پر دنیا اور آخرت کی فلاح سمیٹنے کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔

 کاش ان جاہلوں کو معلوم ہو کہ حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ رب العزت نے خود اٹھا رکھا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں پر جتنی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی تھیں یہ اس کو ہی پورا کر دیتے تو بڑی بات تھی۔ فلسطین کے معاملے کو لے کر پاکستان اور امت مسلمہ کا کردار تو سب پر ہی عیاں ہے۔ سعودی حکمرانوں کے بارے میں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ یہود و نصاری کے حمایت یافتہ ہیں اور اس کا تو صاف مطلب ہے کہ اگر وہ امریکہ کے دوست ہیں تو پاکستان کو بھی امریکہ کی ہی ہر بات ماننی پڑے گی۔ ویسے تو پاکستان کی حکومت پہلے ہی اُسے اپنا آقا بنائے بیٹھی ہے۔ بہرحال یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معاہدہِ ابراہیم کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے اہلِ فلسطین کو ان حالوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا انداز میں حکومتِ پاکستان کا کردار سامنے آئے گا۔

حکومتی اہلکار کس قسم کی تحسین کے حقدار بن رہے ہیں اور کس بات کی خوشیاں منا رہے ہیں؟ بے بس، مظلوم اور نہتے فلسطینیوں تک خوراک تو پہنچا نہیں سکے چلے ہیں اللہ کے گھر کی حفاظت کرنے۔ اس معاہدے کے پسِ منظر میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھائے؟ بھانت بھانت کی مذہبی و سیاسی جماعتیں، اور فلاحی تنظیمیں مل کر بھی حکومت پر ذرہ برابر بھی دباؤ نہ ڈال سکیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں، واقعی دل پتھر کے تو ہو گئے ہیں۔ ایٹم بم کا راگ الاپنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو مسلم حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا خانہ کعبہ کا خدا کوئی اور ہے اور نبیوں کی سرزمین اور مسجدِ اقصیٰ کا خدا کوئی اور ہے؟ یہ حکمران عوام کو تو جواب نہیں دیں گے لیکن اللہ کو تو جواب دینا ہی پڑے گا۔

فوزیہ تنویر

متعلقہ مضامین

  • لکھنؤ میں حسینی آباد ٹرسٹ کی مبینہ بدعنوانیوں کے خلاف مولانا سید کلب جواد کا احتجاج
  • میر واعظ عمر فاروق کو آج ایک بار پھر نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکا گیا، خانہ نظربند
  • میر واعظ مسلسل تیسرے جمعہ بھی گھر میں نظر بند
  • کراچی، جمعہ حمائتی گوٹھ کے کھلے مین ہول سے کمسن بچے کی لاش برآمد
  •   پشاور ، حقوقِ طلبہ تحریک کا آغاز،حکومت کو 10اکتوبر کی ڈیڈلائن
  • ایمان کے اثرات
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟
  • اللہ تو ضرور پوچھے گا !