سلامتی کونسل کے اجلاس میں مخصوص فرد کی موجودگی پر وزارت خارجہ کا ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
— فائل فوٹو
اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کے وفد میں ڈاکٹر شمع جونیجو کی موجودگی پر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بعد وزارت خارجہ نے بھی وضاحت جاری کردی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر دفتر خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ نے اس معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں وزیر دفاع کے پیچھے ایک مخصوص فرد کے بیٹھنے سے متعلق سوالات نوٹ کیے ہیں۔
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے لیے جس پاکستانی وفد کی سند پر نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے دستخط کیے تھے اس خط میں زیربحث فرد کا نام درج نہیں کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھے زیر بحث فرد کو وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کی منظوری حاصل نہیں تھی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
نیتن یاہو اقوام متحدہ سے خطاب کریں گے، مسلم ممالک نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیو یارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کریں گے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خطاب کریں گے، تاہم مسلم اور عرب ممالک نے اس تقریر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خطاب کے دوران مسلم ممالک کے مندوبین اسمبلی ہال سے واک آؤٹ کر جائیں گے۔
دوسری جانب یورپی یونین کے اہم رکن ملک سلووینیا نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور فلسطین میں جنگی جرائم کے الزامات کے پیش نظر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
آج کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، چین کے وزیر اعظم لی چیانگ اور بنگلا دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس بھی خطاب کریں گے۔ بین الاقوامی سیاسی حلقوں کی نظر آج کے اجلاس پر مرکوز ہے، جہاں عالمی قیادت کی آراء اور مؤقف دنیا بھر کے لیے اہم پیغام رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں اپنے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے کا تذکرہ کیا تھا، جسے عرب اور مسلم رہنماؤں نے علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس منصوبے پر تنقید کی وجہ سے متعدد ممالک نے اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کے خلاف واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔