فلسطینیوں کی نسل کشی روکے بغیر اور حماس کو مائنس کر کے امن کبھی قائم نہیں ہوگا،حافظ نعیم الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ نبی کریم ؐ کا خطبہ حجۃ الوداع بنیادی انسانی حقوق کی سب سے بہترین مثال ہے ، امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق و جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن خود امریکا نے ہیرو شیما،ناگا ساکاکی پر بمباری کی اور آزادانہ ایٹم بم استعمال کیا ، امریکا نے ویت نام ، افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی ، 2006ء میں حماس نے جمہوری طریقے سے کامیابی حاصل کی لیکن امریکا و اسرائیل نے اسے چلنے نہیں دیا اس طرح جب الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے 80فیصد ووٹ لے لیے تو ان کی حکومت نہیں بننے دی گئی ۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے عمل میں جرنلسٹ اور ہیومن رائٹس ورکرز بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں ، یہ بات سمجھ لی جائے کہ حماس کو مائنس کر کے اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکے بغیر حقیقی اور پائیدار امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا ، اسرائیل بدمست ہاتھی بنا ہوا ہے اسے روکنا ہوگا ۔ حماس تو 1978ء میں وجود میں آئی ، اسرائیل تو 1938ء اور 1940ء میں بھی فلسطین پر فوج کشی کر چکا ہے ، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھی حماس کو اپنی سر زمین پر قبضہ کرنے والے اسرائیل کے خلاف ہتھیار اُٹھا کر جدو جہد کرنے کی اجازت ہے ، پاکستان میں حماس کا دفتر ہونا چاہیے ، 4اکتوبر کو لاہور اور 5اکتوبر کو کراچی میں ’’غزہ ملین مارچ ‘‘ ہوں گے اور 7اکتوبر کو عالمی یوم احتجاج کے موقع پر پورے ملک میں ایک گھنٹے تک سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا جائے گا ۔ہماری وکلا برادری سے بھی اپیل ہے کہ وہ بھی 7اکتوبر کو کورٹ سے باہر نکل کر پُر زور احتجاج کریں ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ں نے ہفتہ کو اسلامک لائرز موومنٹ کراچی کے زیر اہتمام جناح آڈیٹوریم سٹی کورٹ میں سیمینار بعنوان ’’خطبہ حجۃ الوداع ، بنیادی انسانی حقوق کے سرخیل ، محمد عربیؐ‘‘ سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا ، سیمینار سے نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ،صدر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر سرفراز میتلو،صدر کراچی بارایسوسی ایشن عامر نواز وڑائچ،چیف آرگنائزر اسلامک لائرز موومنٹ قیصر جمیل ایڈووکیٹ و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ حافظ نعیم الرحمن نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملک میں آمرانہ حکومتوں ، وڈیروں و جاگیرداروں کا تسلط قائم رہا ہے ، عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم اور مسائل میں جکڑا گیا ہے ، آج بھی ملک میں حقیقی عوامی حکومت کے بجائے فارم47والے لوگوں کی حکومت چل رہی ہے ، پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی اے پلس ٹیم بنی ہوئی ہے ، پورے سندھ اور کراچی میں جو سسٹم کام کر رہا ہے وہ اسلام آباد سے کنٹرول ہو رہا ہے ، اس شہر کا حق مارا جا رہا ہے جو منی پاکستان ہے ، کراچی کے عوام کوبنیادی سہولیات میسر نہیں ، شہر بجلی ، پانی ، ٹرانسپورٹ ، سڑکوں کی خستہ حالی ، سیوریج کے ناقص نظام سمت بے شمار مسائل کا شکار ہے، صرف کراچی بار اور سٹی کورٹ کے اطراف کا جائزہ لیں ، پورے شہر کی ابتر حالت کا اندازہ ہو جائے گا ، ایک ریڈ لائن لے لیں ، پوری یونیورسٹی روڈ کھود کر رکھ دی مگر وہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی ، گرین لائن کا بقیہ حصہ بھی مکمل نہیں ہو رہا ہے ، بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا مگر ہماری سیٹیں چھین لی گئیں اور ہمارے میئر کا راستہ روکا گیا ، اگر کراچی میں میئر جماعت اسلامی کا ہوتا تو شہر کی یہ حالت نہ ہوتی ، ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی ہو یا لاڑکانہ با اختیار مقامی حکومت قائم کی جائے اور فنڈز فراہم کیے جائیں ، سندھ حکومت موٹر سائیکلیں تقسیم کر رہی ہے لیکن پہلے شہر کی سڑکیں تو ٹھیک کرے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے بھی فراڈ کیا جا رہا ہے ، پیپلز پارٹی صرف اپنے ’’سسٹم ‘‘ کو مضبوط کرنا جانتی ہے ، حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے لیے جن لوگوں نے کردار ادا کیا وہ قوم کے مجرم ہیں ، ہم نے اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف عدالت میں بھی کیس فائل کیا ہوا ہے ، وکلا کی تاریخی تحریک میں بھی جماعت اسلامی وکلا برادری کے ساتھ کھڑی تھی ، جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے اندر بھی جمہوریت ہے اور ہر5سال بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان کا انتخاب عمل میں آتا ہے اور ہر سطح پر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں ۔ ورنہ یہاں تو پوری کی پوری پارٹیاں وراثت اور وصیت کی بنیاد پر چل رہی ہیں ، ساری پارٹیاں چند خاندانوں پر مشتمل ہیں ، ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے ، بار ایسوسی ایشن میں باقاعدگی سے انتخابات کا انجام پانا اچھا عمل ہے ، ملک میں تبدیلی کے لیے ایک بڑی عوامی جدو جہد اور مزاحمتی تحریک کی ضرورت ہے ، جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر کوئی نظام اور حکومت زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتے ۔ بنگلا دیش میں 17سال سے ایک حکومت قائم کی تھی اور لوگوں کے اندر اس حکومت کے خلاف لاوا پک رہا تھا جب لاوا پھٹ پڑا تو پوری دنیا نے حسینہ واجد کا انجام دیکھا ۔ آج بنگلا دیش کے پورے عوام کہتے ہیں کہ بھارت ان کا خیر خواہ نہیں ہے اور وہ پاکستان کے حامی ہیں ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک بھر میں بڑی تحریک شروع کرنے والی ہے 21تا 23نومبر کو لاہور میں ہونے والا ’’اجتماع عام ‘‘ اس تحریک کا نقطہ آغاز ہو گا ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی ملک میں رہا ہے
پڑھیں:
27 ویں ترمیم مکمل مسترد، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے: حافظ نعیم
لاہور: (نیوزڈیسک) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ پاکستان کا قیام اللہ کی حاکمیت کے اصول پر ہوا، نظام کو اصل رخ پر لانا ہوگا، ہم 27 ویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے۔
اپنے ایک بیان میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہمارا باہمی تبادلہ خیال ملک و قوم کے لیے مفید اور بامقصد ثابت ہو گا، پاکستان کو قائم ہوئے 78 سال گزر چکے ہیں لیکن ریاستی نظام وہ سمت اختیار نہیں کرسکا جس کا خواب قائداعظم اور بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔
انہوں نے کہا ہے کہ قیام پاکستان کوئی عام سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ عظیم قربانیوں اور تمناؤں کا نتیجہ تھا، تحریک پاکستان صرف مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ لوگ بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے جو جانتے تھے کہ انہیں اپنے گھر بار اور زمینیں چھوڑنی پڑیں گی، مسلمانوں نے دین کی خاطر گھروں، زمینوں اور حتیٰ کہ اپنے آبا و اجداد کی قبریں تک چھوڑ دیں۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ مسلمانوں نے ایک ایسے ملک کے قیام کے لیے قربانیاں دیں جہاں اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہو، قائداعظم کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے اللہ کی حاکمیت کے اصول کو بنیاد بنا کر پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔
حافظ نعیم نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ نظامِ زندگی کے مکمل تصور کا اعلان ہے، اللہ کے سوا کوئی طاقت، حکومت یا قوم حاکمیت کا حق نہیں رکھتی اور پاکستان اسی نظریہ پر وجود میں آیا کہ یہاں اسلامی عدل اور اجتماعی انصاف کا نظام قائم ہو، اب ضروری ہے کہ نظام کو اس کے اصل نظریاتی اور آئینی رخ کی طرف واپس لایا جائے۔